غورطلب
سیدہ حمراء اندرابی
بچوں کی صحیح تعلیم و تربیت ایک ایسا دینی فریضہ ہے جس کی ادائیگی کی پوری ذمہ داری والدین پر عائد ہوتی ہے۔ اور اس کی بنیاد اخلاص، صبر، محبت اور عملی نمونے پر قائم ہے۔ جو والدین اس فریضے کو بخوبی انجام دیتے ہیں وہ دراصل ایک صالح معاشرے کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں اور اپنے لیے بھی صدقۂ جاریہ کا دروازہ کھول دیتے ہیں۔اگرچہ تعلیم و تربیت میں اساتذہ اور معاشرہ بھی اہم کردار ادا کرتے ہیں، لیکن بچوں کے دل میں اخلاق، ایمان اور حیا کی جڑیں اپنے والدین کی نگرانی میں ،یعنی گھر میں ہی مضبوط ہوتی ہیں۔ گھر ہی وہ پہلی درسگاہ ہے جہاں سے بچہ دنیا کو سمجھنا، برائی و بھلائی میں تمیز کرنا، اور سچائی کے راستے پر چلنا سیکھتا ہے۔
خصوصاً آج کے دور میں، جہاں اسکول اور معاشرہ صرف معلومات و مہارت فراہم کرنے تک محدود ہو گئے ہیں،جہاں سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی نے سب کو اپنے اثرات سے مغلوب کیا ہوا ہے، اور جہاں اردگرد کے ماحول میں بھی خطرناک جرائم، نشہ آور عادات، اور فحاشی و عریانی کے طوفان نے اپنا جال پھیلا رکھا ہے، وہاں اخلاقی تربیت کا پہلو تقریباً مفقود ہوتا جا رہا ہےاور ایسے میں والدین پر لازم آتا ہے کہ وہ اپنے بچوں کی کردار سازی کیلئے اپنے گھروں کو ایمان و اخلاق کے قلعے میں تبدیل کریں، انکے سامنے ایک عملی نمونہ پیش کریں۔انہیں جدید آلات کا بہتر استعمال کرنا سکھائیں اور اس پر حوصلہ افزائی کریں تاکہ یہ ذرائع انکے دلوں میں فتنہ اور ذہنوں میں انتشار پیدا نہ کر پائیں۔
والدین کیلئے یہ بات سمجھنا بہت ضروری ہے کہ صرف نصیحتیں کافی نہیں ہوتیں، بلکہ ان کا اپنا طرزِ عمل بچے کیلئے سب سے بڑی نصیحت ہوتا ہے۔ بچے اکثر وہی کرتے ہیں جسکا وہ خود مشاہدہ کرتے ہیں ۔
اس بات کا بھی خیال رکھنا ضروری ہیں کہ اولاد اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت ہے، اور اس کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ یہ دنیاوی زندگی میں زینت کا سامان ہے ۔
“المال والبنون زینۃ الحیاۃ الدنیا”
لیکن اس نعمت سے دنیا و آخرت میں فائدہ اٹھانے کے لیے ان کی “صحیح تربیت” کرنا بہت ضروری ہے۔ اگر تربیت غفلت، لاپرواہی یا دنیاوی دوڑ دھوپ میں دب جائے، تو یہی اولاد انسان کے لیے آزمائش بن جاتی ہے۔
یہ سب دیکھ کر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بچوں کی “صحیح تربیت” کس طریقے سے کی جاتی ہے؟ اگر ہم عمومی طور پر دیکھیں تو ہر ماں باپ کی کوشش یہی ہوتی ہے کہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت میں کوئی کسر باقی نہ رکھے، اور یہ بھی چاہتے ہیں کہ ان کے بچے معاشرے میں ایک مثالی کردار ادا کریں۔ لیکن پھر بھی معاشرہ بغاوت، نشہ آوری، قتل و غارت اور اخلاقی بے راہ روی جیسی تباہکاریوں کے مناظر دکھاتا رہتا ہے — ایسا کیوں؟
میں نے اوپر بھی اس بات کا ذکر کیا کہ آج سوشل میڈیا نے سب کو مغلوب کیا ہے اور اس کا سب سے زیادہ اثر نوجوان نسل پر پڑ رہا ہے، جو کہ اب بے قابو ہوتا جا رہی ہے۔ وہ ایسے مواد کے زیرِ اثر آتے ہیں جو ان کے ذہنوں کو الجھا دیتا ہے، ان کے نظریات کو بدل دیتا ہے اور ان کے اندر بغاوت، خودنمائی، بے حیائی اور مادہ پرستی کے جراثیم پیدا کرتا ہے۔علم تو خوب حاصل کیا جاتا ہے، لیکن ضمیر دھیرے دھیرے اندھیروں میں ڈوب جاتا ہے۔ والدین کی تربیت اور نصیحتیں بھی اس شور میں کہیں دب جاتی ہیں۔
ایسے حالات میں اگر کوئی راہِ نجات نظر آتی ہے تو وہ ہے قرآن سے وابستگی! بچوں کو صرف نورانی قاعدہ پڑھانا کافی نہیں، بلکہ انہیں قرآن کے معنی و مفہوم سے روشناس کرانا، اور اس کے اخلاقی و عملی پیغام سے جوڑنا نہایت اہم ہے۔ خاص کر ان آیات سے متعارف کروانا ضروری ہے جو ہمارے مقصدِ حیات کو واضح کرتی ہیں، کیونکہ قرآنِ کریم صرف معلومات نہیں دیتا، بلکہ انسان کی سوچ، اخلاق اور عمل کا رخ بھی درست کرتا ہے۔یہی قرآن ہمیں یہ سکھاتا ہے کہ کامیابی صرف دنیاوی رتبہ حاصل کرنے میں نہیں، بلکہ ایمان، تقویٰ، سچائی اور خدمتِ خلق میں ہے۔
یہ چیزیں اگر بچے کو شروع سے سمجھا دی جائیں تو وہ آگے چل کر انہیں قرآنی اصولوں کو اپنے کردار کی بنیاد بنا لے گا۔ وہ اپنی زندگی بھی نہایت خوشگوار طریقے سے بسر کرے گا، اور معاشرے میں رہنمائی کا چراغ بن کر ابھرے گا۔ اور سب سے اہم ،اپنے ماں باپ کیلئے صدقے جاریہ!!
[email protected]