مرتضیٰ گاش
’’یہ وہ نالہ ہے جہاں میں کھیلتا تھا، مچھلیاں پکڑتا تھا، اور فطرت کے ساتھ سانس لیتا تھا۔مگر آج وہ سانسیں رکتی جا رہی ہیں۔‘‘کشمیر کی حسین وادیوں میں ایک نالہ بہتا ہے، جسے لوگ محبت سے دودھ گنگا کہتے ہیں۔یہ نالہ شینکر بلبل کے برفانی پہاڑوں سے جنم لیتا ہے اور اپنی ٹھنڈی، شفاف لہروں کے ساتھ وادی کے کئی گاؤں، کھیتوں اور دلوں کو سیراب کرتا ہوا آخرکار جہلم میں جا ملتا ہے۔یہ وہی نالہ ہے جہاں میرا بچپن گزرا —،جہاں میں مچھلیاں پکڑتا تھا، پانی میں نہاتا تھااور ہر دن فطرت کے ساتھ ایک نیا رشتہ بنتا تھا۔وہ منظر آج بھی یاد ہے جب سورج کی کرنیں نالے کی سطح پر پڑتی تھیںاور لہروں میں چاندنی سی جھلک اٹھتی تھی۔ایسا لگتا تھا جیسے فطرت خود مسکرا رہی ہو۔وہ منظر جو اب خواب بن چکا ہے،مگر آج جب میں وہاں جاتا ہوں تو دل دکھ سے بھر جاتا ہے۔نالے کا پانی اب مٹیالے رنگ کا ہے،مچھلیاں غائب ہیں، اور کناروں پر درختوں کی جگہ بھاری مشینوں کا شور سنائی دیتا ہے۔یہ وہی مشینیں ہیں جو وہاں غیر قانونی ریت و بجری کی کھدائی (Illegal Mining) میں مصروف ہیں۔
یہ مائننگ اس قدر بڑھ چکی ہے کہ نالے کے کنارے کمزور ہو گئے ہیں،اس کا بہاؤ بدل چکا ہے،اور ہر بارش کے بعد آس پاس کے گاؤں کو سیلابی خطرہ لاحق رہتا ہے۔
جہاں کبھی بچوں کی ہنسی گونجتی تھی، وہاں اب دھول، شور، اور افسوس کی خاموشی ہے۔دودھ گنگا — جو کبھی شفاف، دودھ جیسی سفید لہر بن کر بہتی تھی —،آج انسان کے لالچ، لاپرواہی اور ماحولیاتی جرم کا شکار ہے۔ یہ صرف پانی کا نقصان نہیںبلکہ پوری ایک تہذیب، ایک ماحول اور ایک یاد کا زوال ہے۔یہ نالہ کبھی مقامی لوگوں کے لیے روزگار، سکون اور قدرتی حسن کا ذریعہ تھا۔اب وہاں مٹی، شور اور ٹوٹے ہوئے کنارے ہیں۔میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ راتوں رات کس طرح لاریوں کے قافلے نالے سے ریت اور بجری نکال کر لے جاتے ہیں۔کچھ خاموش تماشائی ہیں، کچھ لاپرواہ اور کچھ ایسے بھی جو اس تباہی کو معمول سمجھ چکے ہیں۔لیکن جو لوگ یہاں پیدا ہوئے جو اس نالے سے جڑے ہیں،ان کے لیے یہ منظر کسی روحانی المیے سے کم نہیں۔
میں حکومتِ جموں و کشمیر، محکمہ ماحولیات اور ضلعی انتظامیہ سے دل کی گہرائیوں سے اپیل کرتا ہوں کہ:(۱) نالہ دودھ گنگا میں جاری غیر قانونی مائننگ پر فوری پابندی عائد کی جائے۔(۲) پورے نالے کی ماحولیاتی بحالی (Restoration) کے لیے ایک خصوصی ٹیم تشکیل دی جائے۔(۳) دودھ گنگا کو Eco-Sensitive Zone قرار دیا جائے تاکہ مستقبل میں کوئی مشین یا ٹرک وہاں داخل نہ ہو سکے۔(۴) اس علاقے میں Community Awareness Drives چلائی جائیں تاکہ لوگ خود بھی فطرت کے محافظ بن سکیں۔(۵) فطری حسن کی بحالی کے لیے مقامی نوجوانوں پر مشتمل ایک ’’دودھ گنگا پروٹیکشن کمیٹی‘‘ بنائی جائے۔یہ وقت خاموش رہنے کا نہیں،بلکہ عمل کرنے کا وقت ہے۔اگر آج ہم نے اپنی ندیوں کو نہ بچایا تو کل ہمارے پاس صرف ان کی تصویری یادیں رہ جائیں گی —اصل نالے نہیں۔ میرے لیے دودھ گنگا ایک نالہ نہیں،بلکہ میری شناخت، میری زمین، اور میرا سکون ہے۔یہ وہ جگہ ہے جہاں میرا بچپن گزرا،جہاں میں نے فطرت کے معنی سمجھے،جہاں میں نے زندگی کے پہلے سبق سیکھے۔آج جب میں اس کی تباہی دیکھتا ہوں تو ایسا لگتا ہے جیسے میرا بچپن مجھ سے چھن گیا ہو۔میں صرف یہی کہنا چاہتا ہوں کہ —دودھ گنگا کو بچانا صرف پانی کو بچانا نہیں، بلکہ ہماری روح کو بچانا ہے۔’’وقت بدلا، لوگ بدلے، مگر دودھ گنگا اب بھی بہہ رہی ہے —،بس فرق اتنا ہے کہ اب وہ زمین پر نہیں، میری آنکھوں میں بہتی ہے۔‘‘
����������������