سری نگر سنٹرل جیل میںعمرقیدکی سزاکاٹنے والے قیدی ڈاکٹرمحمدشفیع خان شریعتی ،ڈاکٹرمحمدقاسم فکتواورغلام قادربٹ کئی عوارض میں مبتلاہونے کی بناپر بسترعلالت پر پڑے ہوئے ہیںجن کی صحت کے بار ے میں متعلقین کی فکریں بڑھ رہی ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے بزرگ مزاحمتی قائدسید علی گیلانی اورسیدہ آسیہ اندرابی کی شدیدعلالت کی تشویش ناک خبریں بھی گشت کر تی رہیں لیکن اب بزرگ قائد کوصورہ انسٹی ٹیوٹ سے انتڑیوں کی جراحت کے بعد شفاخانے سے فارغ کر دیا گیا ہے ۔ 15؍جولائی 2010ء سے قائد حریت سید علی گیلانی اپنے دولت خانے میں مسلسل خانہ نظربندہیں ۔86؍سالہ معمر کشمیری قائدکے دل میں پیس میکرنصب ہے جب کہ ان کے دونوں گردے جزوی طورپر خراب ہیں اورکئی مرتبہ ان کا آپریشن کیا جاچکاہے۔سیدعلی گیلانی کشمیر کازکی پہچان ہے، ان میں تحریک کشمیرکے ساتھ والہانہ لگاؤ، جدوجہد کی مقصدیت کا گہرا شعور، کشمیر کاز کے نشیب و فراز کا ادراک اور حصول منزل کی فکر بدرجہ اتم موجود ہے ۔ دس پندرہ دن قبل شدیدعلالت کے باعث موصوف کو صورہ میڈیکل انسٹی چیوٹ میں داخل کیا گیا ۔ گیلانی صاحب کی طرح کئی دیگر عمررسیدہ بزرگ جیلوں میں علیل پڑے ہیں ، معقول علاج ومعالجہ ندارداوررہائی کا بھی کوئی امکان نہیں۔ کشمیرکی ایک اور اہم اسیر زندان خواتین تنظیم دختران ملت کی چپرٔ پرسن سیدہ آسیہ اندرابی ہیںجو آج کل امپھالہ جیل میں نظر بند ہیں ۔ انہوںنے کشمیری خواتین کی اصلاح وتزکیہ کے متعینہ کردارکے حوالے سے خود کو وقف کر دیا ہے۔ اپنے اس ہدف کوپانے کے لئے وہ استقامت اور نظریاتی کمنٹمنٹ میںکوہ گراں ثابت ہوئی ہیں، قیدوبندکی صعوبتیںاورظلم و جبر کے ہتھکنڈے انہیںخوف زدہ نہ کرسکے ۔ اخباری اطلاعات کے مطابق آسیہ انداربی جموں کے امپھالہ جیل میںشدید طورعلیل ہیں ۔گذشتہ دنوں جیل میں ان پردمے کاشدیددورہ پڑاکہ کئی روزتک زندگی اورموت کی کشمش میں رہیں لیکن اس کے باوجودانہیں مبینہ طور علاج ومعالجے کی معقول سہولت بہم نہیں پہنچائی گئی۔
کشمیرکاز کے دو کلیدی چہرے سید علی گیلانی اور سیدہ آسیہ اندرابی تاریخ کشمیر کی وہ منفرد سیاسی ونظریاتی شخصیات ہیں جوکشمیر مسئلہ کے حوالے سے اپنے موقف پر مستحکم، غیر متزلزل اور بے جھول (Non-compromising) پر کاربندہیں۔ ان دونوں کی خداداد صلاحیتوں سے کشمیرکاز کو محروم کر نے کئے لئے حریف خیمے نے کوئی دقیقہ فروگذاشت نہ کیامگر دونوں قرآن وسنت کی سکھلائی بے باکی اور ایمانی جرأت پر استوار ہونے کی وجہ سے اپنے اصولی موقف پر قائم ہیں ، بے ا نتہا مشکلات اور پیہم سختیوں کے باوجود یہ زہرہلالِ کو قند کہنے کے روادار نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ دونوںسے نہ صرف بیگانے ناخوش ہیں بلکہ بعض اپنے بھی خفا ہیں۔ دونوں کشمیرکاز پر بات کریں توواضح معانی کے ساتھ بات کرتے ہیںاورکسی الم غلم کے بغیربول پڑتے ہیں۔غیر مسلم حکمران ہوں یا مسلم ممالک پر مسلط حکمران ان کو جس کسی تک بھی کشمیرکازکے حوالے سے حقیقی بات پہنچانی ہو،بے لاگ اور اخلاق حمیدہ کے دائرے میں رہ کر انتہائی دل نشین انداز میں حق بات کہہ دیتے ہیں۔یہ ایک تسلیم شدہ حقیقت ہے کہ مبنی برحق تحریکوں کی ترقی میں شخصیات کا اہم کردار ہوتا ہے جب کہ آزادی کی تحریکوںمیں وہ رول ماڈل کی جیسی اہمیت کے حامل ہوتی ہیں۔ موزوں اور موافق شخصیات اصول و عدل کو تھامے ہوں تو تحاریک ہمہ جہت اور وسعت پذیری کاروپ دھارتی ہیں ۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ سید علی گیلانی مسئلہ کشمیر اورکشمیر کے صالح نسوانی جذبات کی ترجمان آسیہ اندابی کی روح کی گہرائیوں میں کشمیر کازکا درد کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا ہے۔ وہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے سنجیدگی سے سوچتے رہتے ہیں۔ اس لئے اپنے اور پرائے ان دونوں کا مسئلہ کشمیر کے بارہ میں ان کے اصولی موقف اور انتھک جدوجہد کے معترف ہیں ۔ کشمیر حل کے ضمن میں دونوں کا رویہ فداکارانہ ہونے کے سبب یہ کسی بھی مشکل اور خطرے کا سامنا کرنے کیلئے ہمیشہ تیار ی کی حالت میں دیکھے گئے ۔ دونوں کیلئے کشمیر کا تنازعہ سوہان روح کی حیثیت رکھتا ہے اور یہ اپنی ہر آہ میں اس دردوکرب کا اظہار کرتے ہیںاور اٹھتے بیٹھتے، جلوت و خلوت میں، اسارت اور رہائی میں، مسجد و محفل میں، عوام و خواص میں، حاکم اور محکوم کے سامنے، زبان اور قلم سے، شادی اور غمی میں، جنازے اور خطاب میں غرض ہر جگہ اور ہر حال میں دونوں اپنے اس درد کا اظہار کرتے ہیں۔ گویا تحریک کشمیر کے سارے درد کو انہوں نے اپنے حساس دل میں سمیٹ لیا ہے۔ کشمیرکازکے ساتھ دونوں کی انسیّت کا رنگ ان کی شخصیت کے ہر پہلو میں نمایاں طور جھلکتا ہے۔
یہ امر محتاج وضاحت نہیں کہ کشمیرکے بزرگ قائدسیدعلی گیلانی نے نوجوانی کے عالم میں جس وادی ٔ پُر خار کا انتخاب کیا تھا، وہ اس پیرانہ سالی میں بھی عز م وہمت کے ساتھ اس پر گامزن ہیں۔ آپ نے اس طاقت کے خلاف عزم و استقلال دکھایا، جس کے پاس اصولوں اور زمینی حقائق کی کوئی قدر وقیمت نہیں ۔ انہوں نے ہم سفروں اور پشت پناہوں کی رفاقت اور پشت پناہی سے محرومی تک کو خاطر میںنہ لاتے ہوئے آج تک اپنے اصولی موقف کی لاج رکھی۔ آپ حکمرانوں، شاہی درباریوں، اپنوں اور غیروں کے مطعون بھی ٹھہرے، لیکن آپ خاک و خون میں لت پت سر فروشوں، بے سہارے والدین، عصمت دریدہ خواتین، بے خانماں ستم رسیدوں، نوبیاہی بیوائوں، اسیروں، زخمیوں، مہاجروں، مظلوموں غرض ہماری مقدس تحریک کے حقیقی وارثوں کے شانہ بشانہ چلتے رہے۔ آپ نے ان کے آنسوؤں، ان کی آہوں اور سسکیوں کو زبان بخشنے اور ان کی ترجمانی میں کبھی کوتاہی نہیں کی۔ یہ آپ کی بے باکی کی واضح دلیل ہے کہ جب پرویزمشرف کے دور آمریت میں کشمیریوں کی جدوجہد کے بارے میں تاریخی موقف میں یکسر تبدیلی لائی گئی، اس قدآور قائد کو سائڈ لائین کرنے کی حماقت کی گئی، یہ صورت حال تحریکی کارکنان کیلئے غیر معمولی سیاسی اور سفارتی نوعیت کی آزمائش تھی، امریکی دبائو پرپرویز مشرف کا دہلی کے سُر میں سُر ملاتے ہوئے کشمیر کازکی فصیل میں نقب زنیاں کر کے کشمیری مسلمانوں کو تقسیم در تقسیم کرنے والوںکی حوصلہ افزائی کر رہے تھے مگر گیلانی نے اپنی خُو بدلی اور نہ وضع چھوڑی۔
بعینٖہ سیدہ آسیہ اندابی ہر کڑی آزمائش پر کھرا اُتریں ۔1985 ء میں انہوں نے دختران ملت کے نام سے ایک توانا اورمضبوط اصلاحی تنظیم کی بنیاد رکھی جو آنے والے چند سالوں کے دوران اسلام پسندکشمیری خواتین کی ایک متحرک ترین تنظیم بن گئی۔1987 ء مارچ میں جب انہوں نے کشمیرمیں عریانیت اور بنت حوا کے استحصال کے خلاف ایک زوردار مظاہرہ کیا تواس مظاہرے میں انہوں نے پسنجربسوں میں خواتین کی علیحدہ نشستوں کا مطالبہ بھی کیا۔اس مظاہرے کے بعدپہلی دفعہ سری نگرمیںدختران ملت کے دفاتر سیل کردئے گئے اورتنظیم کے تمام دستاویزات حکومتی تحویل میں لے لیے گئے،پولیس کی جانب سے ان کے والدین اوربھائیوں کو دھمکیاں ملنی شروع ہوگئیںاور ان کے خلاف سازشیں تیارہوئیں،اس صورت حال کودیکھ کراورگرفتاری سے بچنے کے لئے21 ؍روز تک آسیہ اندرابی روپوش ہوگئیں۔کشمیرمیں 1988 ء میں سیاسی جدوجہد شروع ہوئی تودختران ملت ،کشمیری خواتین پرمشتمل وہ پہلی تنظیم تھی جس نے ڈنکے کی چوٹ پراورنہایت مبرہن اندازمیں اس کی حمایت کا اعلان کیا۔کشمیرکی مسلح جدوجہد کی حمایت کرنے اوراس کا ساتھ دینے کے الزام کے سلسلے میں آسیہ جی کی تنظیم کو1990 ء میں کالعدم قرار دیاگیا۔اگرچہ بنیادی طورپر دختران ملت ایک اصلاحی تنظیم کے طور پرمعرض وجودمیں آئی تھی تاہم کشمیرکاز کی جدوجہدشروع ہونے کے بعد سے اس تنظیم نے اپنے دائرہ کارکو واضح طورتوسیع دی اورکشمیرکی تحریک کی اب یہ ایک باضابطہ اکائی کے طورپرکام کررہی ہے ۔دختران ملت کے اسی کرداروعمل کے باعث گذشتہ پچیس برسوں سے اب دہلی اورریاستی سرکاردختران ملت کو ایک سخت گیر تنظیم کے طورپرپیش کر تی رہی ہیں۔دختران ملت کی مہمات کی پاداش میںآسیہ جی کو کئی دفعہ گرفتارکیاگیااورآج تک انہیں کئی مرتبہ جیل جاناپڑا۔1993ء میں آسیہ اندرابی کو ان کے شیر خوار بچے محمد بن قاسم سمیت13 ؍ماہ تک سری نگرسنٹرل جیل میں قید رکھا گیا۔ اس کے بعد ان کی بار بار گرفتاری کا سلسلہ جاری رہا ہے گویاان کاجیل آنا جانا بھی لگا رہتا ہے اورانہوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ جیلوںکی اذیتیں برداشت کرتے گزرا ہے لیکن اس کے باوجود ان کے عزم و حوصلہ میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی اور نہ جادۂ حق پران کے قدم ڈگمگائے۔وہ اس بات پر پکا یقین رکھتی ہیں کہ دلی کے نہ چاہنے کے باوجود کشمیریوں کواستصواب کاحق مل کررہے گا، کشمیرکاز سے ان کی کمٹمنٹ بے لوث ہے، وہ اسلامی اتحاد پر یقین رکھتی ہیں۔ان کایہ دوٹوک موقف ہے کہ کشمیرحل کیلئے کشمیری نوجوانوں نے اپنی اٹھتی جوانیوں کوجس عظیم مقصدکے لئے قربان کیا ہے ،وہ قربانیاں رائیگان کبھی نہ ہوںگی،اس لئے کشمیریوں پر یہ فرض ہے کہ ان قربانیوں کے امین بن کر شہداء کے ادھورے مشن کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔اس موقف اوراس نظریے کے ساتھ آسیہ جی ایمان کی حد تک لگائورکھتی ہیں،اس حوالے سے وہ فوجی دباؤ یا سیاسی گھٹن سے بھی خوف زدہ نہیں ۔ انہیں اس بات پرفخرحاصل ہے کہ انہیں بنیاد پرست قرار دیاجاتاہے کیونکہ اسلام کے بنیادی اصولوں پروہ کامل ایمان رکھتی ہیں۔ دختران ملت کے افکارو نظریات سے سری نگرسے دلی تک کے تمام سیاسی گلیاروں میں ہلچل مچی ہوئی ہے ،بھارت کا متعصب میڈیا اورہندو انتہا پسند جماعتیں ان کے خلاف آگ بگولہ ہیں۔وہ آسیہ اندرابی کی آواز کی بندش کے ضمن میں ہر زہ سرائی اور کذب بیانی کا نہ تھمنے والاسلسلہ چلارہے ہیں، جس کے باعث آسیہ جی کوباربار ’’اجتماعی ضمیر کی تشفی ‘‘میںجیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیلا جاتاہے اور ہربارانہیں سری نگرہائی کورٹ سے رہائی کے احکامات کے تحت رہائی مل جاتی ہے تاہم اس بارانہیں جموں کے امپھال جیل میں مقیدکررکھاگیاہے جہاں وہ متعددعلالتوں کے باعث پیچ وتاب میں ہیں۔دیکھنا یہ ہے کہ کشمیر کا زکے ان دو اہم کرداروں کے لئے آنے و الے ماہ وسال اپنے ساتھ کیا کیا تکلیفیں اور آزمائشیں اپنی جلو میں لاتے ہیں ۔