دنیا کے متعدد خطوں میں اس وقت مسلح تنازعات چل رہے ہیں۔جموں وکشمیر، فلسطین، افغانستان، عراق ، کانگو، سومالیہ ، یمن وغیرہ ایسے ممالک ہیں جہاں مسلح تصادم آرائی کے سب سے زیادہ شکار بچے ہی ہوئے ہیں۔اب تک لاکھوں کی تعداد میں بچے ان تصادمات کے شکار ہوئے ہیں۔ہزاروں جاں بحق ہیں اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں اور ہزاروں بچے بے گھر ہوئے ہیں۔ان مسلح جدوجہد وں نے یہاں رہ رہے ہیں بچوں کو نفسیاتی طور پر متاثر کیا ہے۔وہیں دوسری طرف غربت اور دوسری مجبوریوں نے ان بچوں کو نئے نئے استحصال کا شکار بنایا ہے۔
فلسطین اسرائیل تنازعہ میں اب تک ہزاروں بچے مارے گئے ہیں اور ہزاروں ہی زخمی ہوئے ہیں۔ہزاروں اپنے گھروں سے بے دخل ہوگئے ہیں۔فلسطین کے ۱۹۸۷ء کے پہلے انتفادہ میں بچوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انتفادہ کے ابتدائی دو برسوں میں اسرائیلی کاروائی میں ۲۵ ہزارسے ۳۰ ہزار بچے زخمی ہوئے ۔ان بچوں میں ایک بڑی تعداد ۱۰ سال سے کم عمر والے بچوں کی تھی۔اسرائیل نے وقفے وقفے فلسطینی آبادیوں پر بمباری کی جس میں بستیوں کی بستیاں ہی تباہ کی گئی۔ہزاروں بچوں کو یتیم اور بے گھر کیا گیا۔۲۰۱۴ء میں اسرائیل نے انتقامی کاروائی کے تحت فلسطینی علاقے غزہ پر شدید بمباری کی جس کے نتیجے میں ہزاروں گھر تباہ ہوگئے اور ہزاروں لوگ مارے گئے۔مرنے والوں میں بچوں کی ایک بڑی تعداد بھی شامل ہے۔اسی سال ۱۵ مئی کے ’’یوم نکبا‘‘ جو فسلطینی کو ۱۹۴۸ء میں اپنی زمین سے بے دخل کرنے کی یاد میں منایا جاتا ہے، کے موقعے پر دو فلسطینی بچے ندیم صیام اور محمد محمود شہید کئے گئے۔دونوں بچوں کے سینوں پر گولیوں چلائی گئی تھیں۔اسی طرح۱۹؍ مئی کو سی سی ٹی وی کیمرہ میں قید دو فسلطینی بچوں کو سڑک پر چلنے کے دوران اچانک گولیوں کا نشانہ بناگیا اور سڑک پر گر کر وہیں ان کی موت واقع ہوئی۔اسی طرح ۲۰۱۳ء میں فرضی فسلطینی اسرائیلی سرحد پر سمیر اواد پر فائرنگ کی گئی اور اس کی ٹانگ میں گولی لگ گئی اور وہ واپس بھاگنے لگا لیکن گھات میں بیٹھے اسرائیلی فوجیوں نے اس کو پکڑ لیا اور جب وہ ان کے ہاتھوں سے بھی بھاگ نکلا تو اسرائیلی فوجیوںنے اس بچے کے کمر اور سر پر پیچھے سے گولیاں چلائیں۔اپنی کالی کرتوتوں کو جواز بخشنے کے لیے اسرائیلی میڈیا بھارتی میڈیا کی ہی طرح الٹا بچوں پر ہی سب الزام لگاتی ہے کہ محض چھوٹی کنکریاں پھینکنے پر ان کو گولیوں کا نشانہ بنایا جارہا ہے۔
اسی طرح ۲۰۰۰-۲۰۰۴ء کے دوسرے انتفاضہ کے دوران اسرائیلی فوج نے ۵۰۰؍ فلسطینی بچوں کوجاں بحق اور ۱۰۰۰۰؍ کو زخمی کر ڈالا۔دوسرا انتفاضہ فلسطینی بچے محمد اَلدُراح کی شہادت کے ساتھ ہی شروع ہوا اور اس بچے کی یہ ہلاکت ویڈیو پر ریکارڑ کی گئی تھی۔۲۰۰۶ -۲۰۰۷ء کے فلسطین مخالف کاروائیوں میں ۱۴۶ فسطینی بچے جاں بحق ہوگئے۔اسی طرح دسمبر ۲۰۰۸ اور جنوری ۲۰۰۹ء کے بیچ گازا آپریشن میں ۱۶۰۰ فلسطینی مارے گئے جن میں ۳۱۲ بچے بھی شامل ہیں۔ افغانستان میں بھی پچھلے تیس سالہ جنگ نے یہاں کے عوام کی زندگی کو دوزخ بنادیا ہے۔ اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ کے مطابق ۲۷ صوبوں ایک لاکھ سے زیادہ افغان شہری اپنے گھروں سے بے دخل ہوئے ہیں۔ان میں نصف تعداد بچوں پر مشتمل ہے۔مسلح تصادم آرائی کے چلتے ہر گزرتے دن کے ساتھ بچوں کی شہادتوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔۲۰۱۵ء کی اقوام متحدہ کی رپورٹ کے مطابق اس سال ۷۳۳ بچے جان بحق ہوئے اور دوہزار سے زیادہ زخمی ہوئے ۔ہر ہفتے لگ بھگ ۵۳ بچے مارے جاتے یا زخمی ہوگئے۔اقوام متحدہ کی ایک بیان کے مطابق افغانستان بچوں کے رہنے کے لیے سب سے زیادہ خطرناک ملک ہے۔اسی طرح اقوام متحدہ ۲۰۱۶ء کی رپورٹ کے مطابق ۲۰۱۶ء میں بچوں کی ہلاکت میں سب سے زیادہ اضافہ ہوا۔اس کے مطابق ۲۰۱۶ء میں افغانستان میں ساڑھے گیارہ ہزار افراد ہلاک ہوئے جن میں ۹۰۰ سے زیادہ بچے تھے۔شام کی جنگ میں حال ہی میں کیمیائی ہتھیاروں کا استعمال کیا گیا جن میں سینکڑوں افراد کی موت واقع ہوئی جن میں درجنوں بچے بھی شامل ہیں۔ان میں کچھ شیر خوار بچے بھی شامل ہیں۔ایک اندازے کے مطابق شام کی جنگ میں اب تک تقریباََ ۱۵ہزار بچے جاں بحق ہوگئے ہیں۔اسی سال کے ابتدائی چھ مہینوں میں شام میں تقریباََ بارہ سو بچے جاں بحق ہوگئے ہیں۔روانڈا میں خانہ جنگی کے دوران تین لاکھ بچوں کو جاں بحق کیا گیا۔ان میں اچھی خاصی تعداد نو زائدوں کی بھی تھے۔اور یہ تاریخ کی ایک بڑی نسل کشی ہے۔
جموں وکشمیر میں پچھلے ستائیس سال سے کشمیر کا زکے تعلق سے مسلح جدوجہد چل رہی ہے۔ان ستائیس سالوں میں یہاں ایک لاکھ سے زیادہ لوگ مارے گئے جن میں بچے، بزرگ، عورتیں سبھی شامل ہیں۔بھارتی افواج اور جنگجوؤں کے درمیان آپسی تصادم میں کئی بار بچے بھی گولیوں کا نشانہ بن گئے ،وہیں دوسری طرف ہزاروں بچے یتیم ہوگئے جن کے والد یا سر پرست اس مسلح تصادم میں جان بحق ہوگئے اور کچھ فورسز کے ذیعے لاپتہ کیے گئے۔اس دوران کشمیر میں سینکڑوں یتیم خانے آباد ہوگئے ہیں جہاں اس مسلح تصام سے متاثرہ بچے پرورش ، تعلیم وغیرہ پاتے ہیں۔حالیہ برسوں میں فوج اور پولیس نے جس سنگ دلی کے ساتھ بچوں پر پلیٹ اور گولیاں برسائی ہیں اس کی مثال جموں وکشمیر کی تاریخ میں پہلے نہیں ملتی۔عوامی مظاہروں کے دوران میں ہزاروں کی تعداد میں بچوں کوپیلٹ اور گولیوں کا تشدد بنایا گیا جن میں سینکڑوں کی تعداد میں اموات واقع ہوئیں اور سینکڑوں بینائی کھو گئے ۔۔۵ مئی ۲۰۰۳ء میںسمیر غفار نامی ایک بچہ اپنے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر اپنے دوستوں کے ساتھ کھیل رہا تھا ۔اس دوران اس نے اچانک میدان میں کچہرے کے ایک ڈھیر میں ایک ہتھ گولا دیکھ لیا اور بغیر جانے کہ یہ کیا ہے اس نے اس ہتھ گولے کو ہاتھ میں اٹھالیا اور اس کے ساتھ کھیلنے لگا کہ اچانک زور دار دھماکے کے ساتھ یہ پھٹ گیا اور سمیر احمد کی وہیں موت واقع ہوئی۔ایسے سینکڑوں واقعات ہیں جن میں کشمیری بچے جاں بحق ہوگئے ۔اس واقعے سے متاثر ہوکر ماجد امتیازنے ایک انعام یافتہ مختصر فلم بھی بنائی ہے ۔۲۰۰۸ ء کے جون میں امرناتھ شرائن بورڑ کو زمین دینے کے سلسلے میں پورے جموں و کشمیر میں عوامی مظاہرے شروع ہوئے ۔ان عوامی مظاہروں میں ، بزرگوں ، عورتوں، نوجوانوں اور بچوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی اور اس دوران مظاہروں پر فوج وپولیس کی فائرنگ سے کئی نوجوان اور بچے جاں بحق ہوگئے۔۲۰۱۰ء میں یہ خبر سامنے آنے کے بعد کہ فوج نے مژھل میں فرضی جھڑپ کے دوران تین عام شہریوں کو مار ڈالا تو کشمیر میں پھر سے عوامی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔جون میں ایک سکولی بچے طفیل متو کو سکول جاتے ہوئے فوجیوں نے اس پر گولیاں چلاکر شہید کردیا۔طفیل کی شہادت کے ساتھ ہی عوامی مظاہروں نے زور پکڑ لیا اور فوج و پولیس کی فائرنگ میں ۱۱۰؍ سے زیادہ عام شہری مارے گئے جن میں نوجوانوں کے ساتھ ساتھ کچھ بچے بھی شامل ہیں۔رواں سال ۱۵ مارچ کوکپواڑہ میں ایک فوج اور جنگجووں کے مابین مسلح تصادم آرائی میں ایک ۶؍ سالہ بچی جاں بحق ہوئی۔عینی شاہدین اور بچی کے رشتہ داروں کے مطابق فوج نے بنا کسی وارننگ کے اندھا دند فائرنگ کر ڈالی اور اس دوران اس مکان پر بھی گولیاں برسائی جہاں یہ ننھی سی بچی تھی۔فوجی کانوائی کے دوران بھی بہت سے سکولی اور راہ چلتے ہوئے بچے فوجی گاڑیوں کی زد میں آکر جاں بحق ہوگئے ہیں۔۲۰؍جولائی کو شوپیاں میں اسی طرح کے ایک واقعے میں ایک ۹ سالہ سکولی بچی عروبا فاروق جاںبحق ہوگئی۔ اسی طرح کشمیر کے باقی اضلاع بالخصوص سوپور و بارہمولہ میں ۹۰ء کی دہائی ایسے سیکڑوں واقعات پیش آئے ہیں جب یہاں عسکری پسندی عروج پر تھی پولیس و فوج نے بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا اور گاڑیوں سے ٹکر مار کر جان بحق کر ڈالا۔ دنیا کے ان متعدد متنازعہ اور پرتشدد علاقوں میں جہاں ہر روز ،ہزاروں کی تعداد میں معصوم بچے بنا کسی خطا کے موت کے میں چلے جاتے ہیں وہیں ان علاقوں میں رہ رہے بچے دیگر نفسیاتی بیماریوں میں بھی مبتلا ہوگئے ہیں اور بچوں کی تعلیم بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے ۔ ہمیں یہ بھی نہ بھول جانا چاہیے کہ جو سامراجی طاقتیں منافقت کا یہ کھیل کھیل رہی ہیں ،وہ دنیا کی بیشتر بچوں کے ان سے بچپنا چھین لینے کی ذمہ دار ہیں۔چاہے وہ افغانستان ہو، عراق ہو ، فلسطین ہو یا پھرکشمیر ۔ بجائے اس کے کہ جنگ روکنے کے لئے سیاسی تنازعات کو حل کیا جائے، عالمی طاقتیں اپنے سامراجی مفادات کے لئے آدمیت کے اصولوں کو پاؤں تلے روندکر خطہ ہائے مخاصمت میں ظلم کے پر ستاروں کی کھلم کھلاپیٹھ ٹھونکتی ہیں ۔
جواہر لال نہرویونیورسٹی، نئی دہلی
ای میل[email protected]