ایران کا ایک بادشاہ ہوا کرتا تھا، جس کا نام آریہ مہر تھا۔ اس کے خوف سے رعایا کانپتی تھی۔ بادشاہ ایک مرتبہ اپنے تیروں سے نشانہ بازی کی مشق کررہا تھا۔ اس نے ایک معصوم خوب صورت بچہ کو اپنے تیروں کا نشانہ بنایا۔ بچہ تیر کھا کر گرگیاا، خاک و خون میں تڑپتاہوا بالآخر مرگیا۔ بچہ کے مظلوم باپ نے دربار میں حاضرہوکر اس ظالم بادشاہ کو بہترین نشانہ بازی پر مبارک باد دی۔ تاریخ اپنے آپ کو دہرارہی ہے۔ اب گویا آریہ مہر کے تخت پر سامراجی قوتیں(امریکہ ،روس،اسرائیل اور بھارت)جلوہ افروز ہیںاور وہ بچہ جو تیر کا نشانہ بنایا گیا تھا شام،فلسطین اور کشمیر ہے اور انہیں مبارک باد پیش کرنے والے باپ پورا عالم عرب اور عالم اسلام ہے۔
عہد حاضر میں اُمت مسلمہ کے نحیف و نزار وجود سے درد و کرب کی ٹیسیں مسلسل اُٹھ رہی ہیں۔مسلمانوں کا شاید ہی کوئی ملک ایسا ہے جس میں فتنہ و فساد کی آگ کسی نہ کسی حیثیت سے سلگائی نہ جارہی ہو۔مصر،تیونس،یمن،لبنان، عراق،افغانستان، پاکستان ،فلسطین،کشمیر اور شام غرض مسلمان ممالک خون آشامی کا منظر پیش کررہے ہیں۔ بالخصوص ملک شام میں اس وقت کہرام مچا ہوا ہے۔قاتل بشار الاسد،روسی افواج اور ایرانی ملیشیا سے مل کر مظلوم شامی مسلمانوں پر آگ و آہن کی بارش برسا رہے ہیں۔شام میں ہر طرف لاشیں بے گور و کفن بکھری پڑی ہیں،عظیم الشان عمارتیں کھنڈرات میں تبدیل ہوچکی ہیں۔ابھی چند روز قبل درندہ صفت اسدی فوج نے معصوم مسلمانوں پر کیمیائی گیس استعمال کرکے شیر خوار بچوں سے لے کر بزرگوں تک کو تڑپا تڑپا کر شہید کردیا۔اس حملے کی جو تصاویر اور ویڈیوز فیس بک پر اپلوڈ کی گئیں ،اُنہیں دیکھ کرہر دردِ دل رکھنے والے انسان کی چیخیں نکل جاتی ہیں۔غرض شام جیسا حسین وجمیل ملک اس وقت تباہی و بربادی کی بد ترین تصویر بنا ہوا ہے۔فلسطین کے نہتے مسلمانوں کو، امریکہ کی ناجائز اولاد اسرائیل میزائیل داغ کر موت کے گھاٹ اُتاررہا ہے جس کا الٹا الزام فلسطینیوں پر عائد کررہا ہے ۔ہم اپنے کشمیر کی جب بات کریں جو کہ اُمت امسلمہ ہی کا ایک انگ ہے، یہ سر زمین ظلم وتشدد کے چنگل میں ہر اعتبارسے ماتم کناں ہے۔یہاں بھی ہر روز نوجوانوں کے جنازیں اُٹھ رہے ہیں،عفت مآب خواتین کی سر چادریں سرک رہی ہیں۔کالے قوانین بنا بناکر یہاں کے لوگوں کو زیرِ عتاب رکھا جارہا ہے۔۱۴ ؍سال کے بچے سے لے کر ۹۰؍ سال تک کے بزرگ تک جیل خانوں میں مقید رکھے جارہے ہیں ۔کہنے کا مطلب یہ ہے کہ پوری اُمت مسلمہ اس وقت کٹھن دور سے گزر رہی ہے۔ ناگفتہ بہ واقعات اس سرعت سے پیش آرہے ہیں کہ جو حساسیت ان روح فرسا واقعات سے پیدا ہونی چاہیے ،پے در پے سانحات سے وہ اب ختم ہوچکی ہے۔ابھی اُمت ایک مسئلہ پر غور و خوض مکمل نہیں کرپارہی ہوتی ہے کہ درجنوں المیے اس کے سامنے پھن اُٹھائے کھڑے ہوجاتے ہیں۔در اصل اُمت مسلمہ کا یہ المیہ رہا ہے کہ دشمنوں سے زیادہ ہم نے اپنی صفوں کے جعفروں اور صادقوں سے نقصان اُٹھا یا ہے۔تاریخ کے فیصلہ کن موڑ پر ہمارے ـ’’اپنے قدآوروں‘‘سے ایسی فاش گناہ سرزد ہوئے جن کا خمیازہ پوری اُمت کو اُٹھا نا پڑ رہاہے۔تاریخ ایسی مثالوں سے بھری پڑی ہے۔ اگر ہم اپنی چاک گریباں تاریخ کا بہ نظر غائر مطالعہ کریں تو اغیار سے زیادہ اپنوں کی ’’کرم فرمائیاں ‘‘ صاف نظر آئیں گی۔مولانا علی میاں ندویؒ اپنے ایک بیان میںاس چیز کی نشان دہی کرتے ہوئے کہتے ہیں’’تاریخ اسلام کا سب سے بڑا لمیہ نفسانیت کا وہ کھیل ہے جو ہمیشہ اپنا تماشہ دکھاتا رہا ،ہم نے کبھی اپنے دشمنوں سے شکست نہیں کھائی،تاریخ عالم اور تاریخ اسلام پر نظر رکھنے والے ایک طالب علم کی یہ بات سن لیجیے اور اس کو اپنے دلوں اور دماغوں میں امانت رکھ لیجیے کہ ہم نے کبھی اپنے دشمنوں سے شکست نہیں کھائی ہے،ہم نے اپنے اندرونی اختلافات سے شکست کھائی ہے،اسی نفسانیت کی بدولت ہم نے سلطنتیں کھوئی ہیں، ہمارے ملکوں کے چراغ گل ہوگئے ہیں، اور اسلام بعض اوقات پورے کے پورے ملکوں سے خارج کردیا گیاہے۔اس کی میں صرف ایک مثال دوں گا وہ مثال اسپین کی ہے ، اسپین سے اسلام کو نکالنے والی سب سے بڑی طاقت نفسانیت اور باہمی خانہ جنگی ہے۔میں اسے تسلیم نہیں کرتا کہ تنہا عیسائی طاقت نے اندلس سے اسلام اور مسلمانوں کو نکالا اور ان کا چراغ گل کردیا، اس میں بہت کچھ دخل تھا شمالی عربوں، حجازیوں،یمنی عربوں کی باہمی آویزش اور داخلی نزاعات کا جو عرصہ سے چل رہے تھے،یمنی اور حجازی،،ربیعہ اور مصر کی باہمی جنگ سے یہ نوبت آئی کہ اسلام اسپین سے آخری طور پر نکال دیا گیا اور یہ ملک اقبال کے الفاظ میں اذانوں سے محروم ہوگیا ۔یہی داستان اکثر اسلامی ملکوں کی ہے، برصغیر ہند میں مغلوں کا شیرازہ بکھیرنے والی ،مسلمانوں کو اقتدار سے محروم کردینے والی اور ان کی طاقت کا چراغ گل کردینے والی چیز یہی نفسانیت تھی‘‘۔
عالم ِعرب ان سنگین حالات میں قائدانہ رول ادا کرسکتا تھا بلکہ اولین ذمے داری اسی پر عائد ہوتی تھی کیوں کہ رسول اللہ ؐکی بعثت عرب میں ہوئی،عربی زبان میں قرآن پاک نازل کیا گیا جو عربوں کی مادری زبان تھی اس حوالے سے قرآن کی حیات بخش تعلیمات کو سمجھنے میں ترسیل معنی کا بُعد نہ تھا۔پھر آج کی دنیا کی سب سے قیمتی مادی چیز تیل(black gold )کے ذخائر عربوں کے پائوں کے نیچے ہیں۔محض تیل کی مادی طاقت کو ہی اگر صحیح منصوبہ بندی سے عرب استعمال کرتے تو وہ سامراجی قوتوں سے برابری کی بنیاد پر ڈیل کرتے اور فلسطین اور باقی مظلوم مسلمانوں پر ہورہے ظلم پر ظالم طاقتوں کے خلاف مضبوط اور موثر کردار نبھاتے لیکن ہائے افسوس!کہ بوجوہ نفسانیت اور سیاسی بے شعوری کے عرب حکمرانوں کے اڑنے و الے پَر اس طرح تراشے گئے ہیں کہ وہ مظلوموں کے حق میں کوئی بھی عملی اقدام کرنے سے قاصر ہیں۔عالم ِ عرب کو کیونکر بے وقعت کیا گیا؟ پروفیسر محسن عثمان ندوی صاحب رقم طراز ہیں ’’امریکہ اور یورپ کی اسرائیل نوازی کی وجہ سے ۱۹۷۳ء میں جب عربوں نے تیل کو مغربی طاقتوں کے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا تھا، اسی وقت سے عرب دنیا کو بے دست و پا بنادینے کی سازش شروع ہوچکی تھی۔یورپ کے ملکوں میں پہلی بار تیل کی کمی کی وجہ سے لوڈشڈنگ ہوئی تھی۔شہر اندھیروں میں ڈوب گئے تھے۔ تیل کو بچانے کے لیے یہ قانون بنا تھا، کوئی شخص تنہا کار میں سفر نہیں کرسکتا ہے کہ یہ پٹرول کا زیاں ہے۔ اسی وقت امریکہ اور یورپ نے مل کر عربوں کو غلام بنالینے اور اس کے اتحاد کو پارہ پارہ کرنے کی سازش کی تھی۔ تیل کا متبادل تلاش کیا جانے لگا۔ دنیا کا ساٹھ فی صد تیل عربوں سے ہی ملتا تھا۔ سازش کا یک حصہ تو یہ تھا کہ یہ فیصلہ کیا گیا کہ دنیا کے مالیاتی ذخائر سونے کے بجائے ڈالر سے ناپے جانے لگے۔ سونے کے سارے ذخائر عربوں کے پاس تھے۔ سازش کا دوسرا جز یہ تھا کہ عربوں کے لیے یورپ اور امریکہ اسٹاک ایکس چینج میں سرمایہ کاری کے لیے کشش پیدا کی گئی۔ تیسرا جز یہ تھا کہ امریکہ اور یورپ کے ملکوں میں بڑی بڑی جائیدادوں کو خرید نے کی عربوں کو ترغیب دلائی گئی۔ چناں چہ عربوں نے یورپ اور امریکہ کے شہروں میں اربوں کھربوں ڈالر کی زمینیں اور محلات خرید لئے۔ نہ صرف شاندار محل بلکہ عیش گاہیں اور جوئے خانے اور ڈسکو کلب بھی۔ چوتھا جزیہ تھا کہ ان سے کہا گیا کہ وہ اپنی تیل کمپنیوں کا سارا انتظا م بیرونی ماہرین کے حوالے کردیں، اور اس کے بدلہ میں مخصوص رقم لیتے رہیں۔ عرب ملکوں کو بظاہر یہ سودا سود مند نظر آیا ، لیکن وہ اس طرح تیل کی قوت سے ہاتھ دھو بیٹھے،اور سارا منافع یورپی اور امریکی بینکوں میں جاتا رہا۔ سازش کا پانچواں جز یہ تھا کہ تیل کے صارفین کی انجمن بنادی گئی اور تیل کی قیمتوں پر کنٹرول انہیں حاصل ہوگیا۔ مجموعی صورتِ حال یہ ہوئی کہ جب کوئی اسٹاک ایکسچینج دیوالیہ ہوتا ہے تو اس کا نقصان عربوں کو اٹھانا پڑتا ہے کیوں کہ حصص کے سب سے بڑے مالک وہی ہیں ۔ یہاںتک کہ ورلڈ ٹریڈ سنٹرس کی چالیس بڑی کمپنیوں کے اصل مالک بھی عرب شاہی خاندان کے لوگ ہی تھے۔ اس پر حملہ کا بھی بڑا نقصان عربوں کو اٹھانا پڑا۔ان سازشوں کے نتیجہ میں عربوں کی ساری دولت یورپ اور امریکہ میں پھنس چکی ہے اور جب عربوں نے اپنا سرمایہ یور پ اور امریکہ کے بینکوں سے نکالنے کا ارادہ کیا تو اس شرط کے ساتھ انہیں نکالنے کی اجازت ملی کی نئی سرمایہ کاری امریکہ ہی میں اور یورپ میں کی جاسکے گی۔ اس سے صورتِ حال یہ ہوگئی ہے کہ امریکہ اگر کسی عرب ملک کو تباہ و برباد کردے اور اسرائیل فلسطین میں لاکھوں کو شہید کردے تو عرب امریکہ اور اسرائیل کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہیں۔ کوئی اقدام نہیں کرسکتے ہیں، جب تک کہ یورپ اور امریکہ میں پھنسی ہوئی تمام دولت سے دست بردار نہ ہوجائیں، اور عرب ایسا کرنے کی ہمت نہیں کرسکتے ہیں‘‘۔
ذراہم اپنے وطن عزیز کشمیر پر نگاہ ِ توجہ مر کوزکرکے دیکھیں کہ ہم گزشتہ ۷۰؍ سال سے قربانیاں دے دے کرحق خودارادیت کے حصول کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔اگرچہ تاریخ میں ۷۰؍ سال کا دورانیہ کوئی بہت زیادہ طویل دورانیہ نہیں ،ہندوستان نے بھی کم از کم ۰۰ا؍ سال سے زائد عرصہ بعد برطانوی استعمار سے آزادی حاصل کی۔اس تناظر میں ہمارے لیے یاس و قنوطیت کی کوئی وجہ نہیںلیکن اس ۷۰؍ سالہ تاریخ پر بھی اگر ہم نظر دوڑائیں تو کئی اہم موڑ ایسے ملیں گے جب ہم اپنی منزل کے بالکل قریب پہنچ گئے تھے لیکن اغیار سے زیادہ ’’اپنوں‘‘ کی ناعاقبت اندیشی اور خود غرضی سے ہماری منزل دور سے دورتر ہو تی گئی۔بھارت کی فوج کا اس سرزمین پر اُترنے سے قبل ہی ہمارے ’’اپنوں‘‘نے لمحوں کی خطا کی جس کی سزا ہمیں دہائیاں گزرنے کے بعد بھی بھگتنا پڑ رہی ہے۔نمونے کے طور پر یہاں تاریخ ِ کشمیر سے ایک مثال کی جارہی ہے۔ معروف کالم نگارمحترم حسن زینہ گیری صاحب لکھتے ہیں’’ڈوگرہ فوج اور ہندو فرقہ پرست تنظیموں کی طرف سے جموں میں مسلمانوں کو خون میں نہلانے اور عصمتوں پر ڈاکہ ڈالنے کے لرزہ خیز واقعات سے سرحد کے قبائل کی رگِ حمیت پھڑکی اور انہوں نے ڈوگرہ راج سے خطہ جموں و کشمیر کو آزاد کرانے کے لیے کشمیر کا رخ کیا۔ ڈوگرہ فوج کوکاٹتے مارتے اور اُکھاڑتے ہوئے یہ لوگ بارہ مولہ تک آ پہنچے۔ یہاں سے صرف چند گھنٹوں میں وہ سری نگر کے آئر پورٹ تک پہنچ جاتے اور اس پر قبضہ کرتے جس سے بھارت کی فوج کا آئر پورٹ پر اترنا ناممکن ہوجاتا۔ این سی کے کارکنوںنے پارٹی ہدایات پر ان کا راستہ بدل دیا۔یوںFreedom at Midnightکے مصنفین Larry CollonsاورDominque Lapierreeکے بقول چوبیس گھنٹوں کی اس تاخیر نے کشمیر کی تقدیر بد دی‘‘(دیباچہ۔ولر کنارے) بہر کیف اُمت مسلمہ کی موجودہ ناگفتہ بہہ صورت ِ حال ہماری قیادت سے لے کر عوام الناس تک کودعوتِ فکرو عمل دے رہی ہے۔مدتِ مدید سے اُمت مسلمہ پر غفلت کی نیند طاری ہے، ہمیں بہر صورت اس خوابِ غفلت سے بیدار ہونا ہوگا۔دوستوں اور دشمنوں میں تمیز کرکے قرآن و سنت کے اصولوں پر متحد ہوکر کھلے دشمنانِ اسلام کی سازشوں اور اپنے صفوں میں اغیار کے علانیہ چہیتوں سے چوکنا رہنا ہوگا۔جس دن ہم اپنے مقام ِ بندگی ٔ خدا اور خودی سے آشنا ہوگئے اور ہم میں فرد اً فرداً ا حسا س ذمہ داری پیدا ہوا ،اسی گھڑی سے امت مسلمہ اپنے درخشندہ ماضی اور تاباں مستقبل کی طرح پورے کرۂ ارض پر شوکت و سطوت کے ساتھ منصب ِا مامت وہدایت کی شاہراہ پر متمکن ہو گی۔ اور وہ دن زندہ ضرور آئے گا ع کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
9858735895