سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی قیادت والی مخلوط حکومت کے خاتمے کے بعد کئی سیاسی طوفان اُٹھے اور تھم گئے۔ کئی لہریں اُٹھیں اور شانت بھی ہوئیں ۔ پی ڈی پی میں بغاوتوں نے سر اُٹھایا لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا ۔ حکومت بنانے کیلئے کسی جوڑ توڑ کی کوئی صورت ابھی تک نہیں نکل پائی ۔کوئی اتحاد نہیں بن پایا اور کسی اشتراک کی صورت پیدا نہیں ہوسکی ۔گورنر راج کے چند روز پرسکون رہے اور پھر وہی حالات اُبھر کر آئے جو مخلوط سرکار کی نیندیں حرام کرچکے تھے ۔ایسے میں یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ مخلوط حکومت کو کیوں گرایا گیا اور اس کے بعد کیا ہونے والا ہے ؟
قابل غور بات یہ ہے کہ پی ڈی پی صدر محبوبہ مفتی نے حکومت گرجانے کے بعد جب پہلی بار منہ کھولا تو کئی سرکاری راز بھی افشاء کرڈالے، انہوں نے انکشاف کیا کہ مرکز ان پر جماعت اسلامی کو ختم کرنے کیلئے دباؤ ڈال رہا تھا اور اس کے لئے 81 افراد کی ایک فہرست بھی روانہ کی گئی تھی جو جماعت اسلامی کے اہم افراد پر مشتمل تھی ۔حالانکہ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرنے کیلئے کہا گیا تھا لیکن یہ سمجھ میں آنے والی بات ہے ۔ محبوبہ مفتی کاکہنا ہے کہ انہوں نے ایسا کرنے سے انکار کردیا ۔اس انکشاف میں کتنی سچائی ہے یہ کہنا بہت مشکل ہے کیونکہ محبوبہ جی اور ان کی پی ڈی پی اس وقت جس صورتحال سے دوچار ہے اس کے پیش نظر جماعت اسلامی کی ہمدردیاں حاصل کرنے کیلئے بھی یہ بات کہی جاسکتی ہے تاکہ انہیں ایک مضبوط قوت کی حمایت حاصل ہوسکے تاہم جیسا کہ نئی دہلی کا طریقہ کار رہا ہے اس کے پیش نظر یہ الزام درست بھی ہوسکتا ہے اور اگر یہ درست ہے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ مرکز کے پالیسی سازوں کی سوچ کس قدر گھٹیا ہے کہ وہ ایک ایسی قوت کے اہم افراد کو راستے سے ہٹا کر اس کے ختم ہونے کا یقین کرتے ہیں جس کی جڑیں بہت گہری ہیںاور جسے سرگرم اور اہم افراد کو ختم کرنے سے اکھاڑنا ممکن نہیں ہوسکتا ہے ۔
جماعت اسلامی حالات کی اُبھاری ہوئی کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ ایک نظریاتی جماعت ہے اور یہ اس وقت کشمیر کی واحد جماعت ہے جس کا بہت پھیلا ہوا مضبوط اور منظم جماعتی ڈھانچہ ہے ۔ایسی جماعت کے سینکڑوں افراد کو بھی ختم کیا جائے تب بھی اسے ختم کرنا ممکن نہیں۔ایک نظریاتی جماعت کا مقابلہ ایسے گھٹیا حربوںکے بجائے نظریات سے ہی کیا جاسکتا ہے ۔ شیخ محمد عبداللہ خود ایک مضبوط نظریاتی قوت رکھتے تھے ۔سیکولر ازم پر ان کا اٹل یقین تھا اور جب سعد الدین تارہ بلی نے کشمیر میں جماعت اسلامی کی بنیاد ڈالی تو انہوں نے اپنے نظریات کیلئے خطرے کی گھنٹی کو سنا اور سب سے پہلا کام یہ کیا کہ سعد الدین کو جو ایک سرکاری استاد تھے نوکری سے برطرف کردیا ۔سعد الدین اس وقت تنہا تھے چند افراد ہی ان کے ساتھ تھے لیکن شیخ محمد عبداللہ اپنی بے پناہ قوت کے باجود جماعت اسلامی کے پھیلاو کو کسی طرح بھی روک نہیں سکے ۔ ستر کی دہائی کے آتے آتے وہ ایک مضبوط قوت بن چکی تھی اور پھر کانگریس نے اس قوت کا شیخ محمد عبداللہ کیخلاف اس وقت استعمال کیا جب محاذ رائے شماری کی تحریک انتخابی بائیکاٹ کی حکمت عملی پر عمل پیرا تھی ۔ جماعت اسلامی نے انتخابات میں حصہ لیااور چھ نشستیں اس کے حصے میں آئیں حالانکہ مسئلہ کشمیر سے متعلق اُس وقت بھی جماعت اسلامی کا موقف وہی تھا جو آج ہے۔
شیخ محمد عبداللہ بھی اقوام متحدہ کی قراردادوں پر ہی زور دیتے تھے اور محاذ رائے شماری تحریک مزاحمت کی سب سے مضبوط سیاسی تحریک تھی لیکن جماعت اسلامی شیخ محمد عبداللہ کے نظریات کو اپنے نظریات کی ضد سمجھتے ہوئے اس کا مقابلہ کرنے کیلئے ہر طرح کی حکمت عملی اور کوشش پر یقین رکھتی تھی ۔شیح محمد عبداللہ جماعت اسلامی کی بڑھتی قوت سے خائف تھے اور انہوں نے اقتدار میں آنے کے بعد جب ہندوستان میں ایمرجنسی نافذ ہوئی کشمیر میں جماعت اسلامی کے دفاتر بھی بند کرائے ۔مین سٹریم میں آنے کے بعد جماعت اسلامی کو اپنے ادارہ جاتی نظم کو مضبوط کرنے اور پھیلانے کا بھرپور موقع ہاتھ آیاتھا اور جس وقت تک شیخ محمد عبداللہ دوبارہ مین سٹریم میں آئے جماعت اسلامی کشمیر کی منظم اور معتبر قوت کے طور پر ابھر چکی تھی ۔
1987ء کے انتخابات میں نیشنل کانفرنس اور کانگریس کے اتحاد کے مقابلے میں مسلم متحدہ محاذ کے پیچھے جماعت اسلامی کی ہی طاقت تھی اور یہاں سے ہی ’’ شیر کشمیر کا کیا ارشاد ہندو مسلم سکھ اتحاد‘‘ کے مقابلے میں نظام مصطفیٰ ؐ کا نعرہ گونجا۔اس انتخاب میں ریکارڈ توڑ دھاندلیوں نے نوجوانوں کو عسکریت کا راستہ اختیار کرنے پر آمادہ کیا ۔عسکری تحریک لبریشن فرنٹ کے جھنڈے تلے شروع ہوئی لیکن بہت کم عرصے میں حزب المجاہدین نے اس کی جگہ لی ۔ اس کے بعد جماعت اسلامی تحریک مزاحمت کا سب سے بڑا ستون بن گئی ۔شاید تحریک مزاحمت میں اتنی جلد اور اتنی زبردست قوت پیدا نہ ہوتی اگر جماعت اسلامی اس میں شامل نہیں ہوتی ۔اس کا جماعت اسلامی کو بے پناہ خمیازہ بھی بھگتنا پڑا لیکن یہ اس کی نظریاتی اور تنظیمی قوت ہی ہے جس نے اس کوکسی بھی مرحلے پر کمزور نہیں ہونے دیا ۔ نئی دہلی کو معلوم ہے کہ یہ جماعت اسلامی ہی ہے جو اس کیلئے سب سے بڑا روڑا ہے اور وہ اس روڑے کو راستے سے ہٹانے کیلئے وہی تدبیریں اختیار کرنا چاہتی ہے جو پہلے ہی ناکامیوں سے دوچار ہوچکی ہے ۔حقیقت میں جماعت اسلامی تحریک مزاحمت کی قیادت کررہی ہے اور عوام اس کے پیچھے کھڑے ہیں ۔اس مرحلے پر جماعت اسلامی کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کے منصوبے کام نہیں کرسکتے ۔نئی دہلی کے پاس کوئی چارہ نہیں اس کے برعکس کچھ سوچنے کا ۔ پی ڈی پی کے پاس بھی کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے جماعت اسلامی کی حمایت پر دار و مدار رکھنے کا۔ اس جماعت کی کوئی اپنی بنیاد نہیں ہے، اس نے جماعت اسلامی کے بھروسے پر ہی اپنی ناؤ کو چھوڑ رکھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ محبوبہ مفتی نے حکومت سے محروم ہونے کے بعد پہلا کام اس اعتبار کو بحال کرنے کا کیا جو تین سال میں ختم ہوچکا ہے ۔مین سٹریم اور مزاحمتی تنظیموں میں اگر کوئی ایک تنظیم سب سے زیادہ مضبوط اور منظم ہے تو وہ جماعت اسلامی ہی ہے اس لئے اس بات میں شک و شبے کی کوئی گنجائش نہیں کہ مستقبل میں کوئی بھی فیصلہ اس کی رضامندی کے بغیر کامیاب نہیں ہوسکتا لیکن مشکل یہ ہے کہ مسئلہ کشمیر سے متعلق جماعت اسلامی کا موقف اس کے نظریات کا حصہ ہے جس میں کسی طرح کی سیاسی لچک کی کوئی گنجائش نہیں ہے ۔ جماعت اسلامی ہند کے ساتھ اس نے کوئی واسطہ نہیں رکھا ہے تاہم جماعت اسلامی پاکستان کے نظریات کے ساتھ اس کی ہم آہنگی ہے ۔جماعت اسلامی پاکستان کا ایک عالمی ایجنڈا ہے جس میں کشمیر بھی شامل ہے ، فلسطین بھی اور افغانستان بھی ۔ اس میں امریکہ اور یورپ کے متعلق بھی ایک سوچ ہے اور عرب ممالک کے متعلق بھی ۔حالانکہ پاکستان میں منظم اور مضبوط جماعت ہونے کے باوجود اسے انتخابات میں خاطر خواہ کامیابی حاصل نہیں ہورہی ہے تاہم ہر حکومت کے قیام میں اس کا بڑا اہم کردار ہوتا ہے اور پاکستان میں کشمیر سے متعلق پالیسی میں بھی جنرل ضیاء الحق کے اقتدار میں اس کا عمل دخل شروع ہوا جو اب بھی جاری ہے ۔
اس تناظر میں جماعت اسلامی کشمیر کو مسئلہ کشمیر اور ہند پاک تعلقات میں بہت اہم حیثیت حاصل ہوچکی ہے ۔ اس کی یہ حیثیت مسئلہ کشمیر کے حل میں بھی اہم کردار ادا کرسکتی ہے ، ہندپاک تعلقات کی بہتری میں بھی اور کشمیر کے حالات میں مثبت تبدیلی کے لئے بھی ۔حکومت ہند اگر حقائق کو جو اس کے لئے کتنے ہی ناپسندیدہ کیوں نہ ہوں، تسلیم کرکے ان خطوط پر سوچے تو بہتر نتائج بھی حاصل کرسکتی ہے جو جماعت اسلامی کو بیخ و بن سے اکھاڑنے کی سوچ سے زیادہ بہتر ہوسکتے ہیں ۔جماعت اسلامی کا نظام کسی ایک قائد کے فیصلوں کامحتاج نہیں ہے بلکہ اس کا ایک شورائی نظام ہے جو فیصلے کرتا ہے، اس لئے اس بات کی گنجائش بہت کم ہے کہ سیاسی داؤ پیچ سے اس جماعت کا رُخ موڑا جاسکے تاہم بہتر سوچ کے ساتھ اسے اپروچ کیا جاسکتا ہے ۔
( ماخذ: ہفت روزہ نوائے جہلم سری نگر)