کام دھندے کے سلسلے میں کبھی کبھار ممبئی آنا جانا ہوتا ہے۔گزشتہ برس میرا قیام ایک دوست کے ہاں ایک پنجابی فیملی میں ہوا ۔اتفاق سے جس دن میں پہنچا ،میرے میزبان مسٹر ورماؔ بھی اُس شام کو ذرا جلد ہی گھر آگئے کیونکہ اگلی صبح ساری فیملی کو شرڈھی ؔ میں بابا کے استھان پر جیوتی درشن کے لئے جانا تھا اور وہیںسے چند روز چھٹیاں منانے گوا جانا تھا ۔انہوں نے شرمندگی کا اظہار کیا اور مجھ سے معذرت کی اور یہ بھی کہاکہ اگر ٹکٹ اور ہوٹل وغیرہ کی ایڈوانس میں بکنگ نہ ہوئی ہوتی تو وہ اپنا پروگرام موخر بھی کرسکتے تھے۔رات کو اُن کا ملازم دوکان کی چابیاں لے کر آیا ۔ورما صاحب نے تعارف کرایا ۔میں نے مصافحہ کے لئے ہاتھ آگے بڑھایا مگر ملازم نے ہاتھ کھینچ کر بڑی حقارت کے ساتھ کہا:’’لانڈیاں لوگاں کے ساتھ ہاتھ نہیں ملانے کا ۔کیا ؟‘‘
(ممبئی میں متعصب ہندوؔ خاص کر شِو سینک مسلمانوں کو ہزلاً لانڈیاں (مختون)کہتے ہیں)
ورماؔ صاحب بہت سٹپٹائے اور نہ جانے کیا قدم اٹھاتے مگر اُس سے پہلے ہی میں نے اُن کو ہاتھ کے اشارے سے خاموش رہنے کی استدعا کی۔اگلی صبح سفر پر نکلتے وقت تک مسٹر ورما کچھ شرمندہ سے دکھائی دے رہے تھے مگر میں نے اُن کو الوداع کہتے وقت کہا کہ وہ اپنا موڈ خراب نہ کریںبلکہ خوش و خرم ہوکر یاترا کریں۔انسان بُرا نہیں ہوتا بلکہ اُس کو ماحول خراب کرتا ہے ۔بُری صحبت اور بُری باتیں خراب کرتی ہیں۔ذہن گندہ نہیں ہوتا بلکہ اُس میں گندگی ڈالی جاتی ہے۔میں اکثر سفر میں ہی ہوتا ہوں اس لئے فکر کی کوئی بات نہیں ہے میںنبھا (Manage)لوں گا ۔میرے لئے کوئی چنتا کرنے کی ضرورت نہیں۔
شام کو دوکان کا ملازم جس کا نام شوا ؔناڈیکر تھا ،دوکان کی چابیاں لے کر آیا اور بڑے تحکمانہ لہجے میں کہا کہ دوکان کی چابیاں سنبھال کر رکھنا ،اگلی صبح کو وہ انہیں لینے کے لئے پھر آئے گا ۔کھانا پکانے والی بائی صبح سات بجے آتی ہے اور میں اپنی پسند کی چیزیں اُس سے پکوا سکتا ہوں ،حالانکہ یہ بات مسٹر ورما نے مجھ سے پہلے ہی کہی تھی، اور ہاں! میٹ مچھلی پکواکر کچن کو گندہ نہیں کرنے کا وغیروغیرہ۔میں نے بڑی شائستگی کے ساتھ بات کا اقرار کیا اور اُس کے بعد جس طرح وہ توپ کی طرح آیا تھا اُسی طرح گولے کی طرح واپس چلا گیا ۔
دو دن تک بڑی خاموشی کے ساتھ میں اُسے پڑھتا رہا ۔اگلے روز جب وہ حسب معمول چابیاں دینے کے لئے آگیا تو بغیر کچھ کہے جونہی وہ جانے کے لئے مڑا ،تو میں نے بڑی نرمی کے ساتھ اُسے کہا :
’’شِوا جی آپ تھکے ہارے آرہے ہیں ،کیا ایسا نہیں ہوسکتا کہ آپ چائے کا ایک کپ پی کر جائیں ۔ہاں! چائے میں نہیں آپ بنائیں گے ۔‘‘
اُس نے میری طرف گھور کر دیکھا ،پھر پتہ نہیں کیا سوچ کر وہ کچن میں چلا گیا ۔میرے لئے کپ میں اور اپنے لئے گلاس میں چائے لے کر آگیا ۔ہم خاموشی کے ساتھ چائے سِپ کرتے رہے ۔چائے پی کر جب وہ جانے لگا تو میں نے اُس سے کہا :’’تھوڑی دیر بیٹھو، جلدی کیا ہے ؟کم از کم سگریٹ تو پی لو۔‘‘میں نے سگریٹ کے پیکٹ کی طرف اشارہ کرکے کہا :’’یہ پیکٹ میں نے کھولا ہے ،سگریٹوں پر میری انگلیا ں لگی ہوں گی ۔مسلمان گندہ ہوتا ہے نا؟ جیسا آپ لوگ مانتے ہیں ،اس لئے تم یہ نیا پیکٹ کھولو۔اس کے ساتھ نیا ماچس بھی رکھا ہوا ہے ۔‘‘
اُس نے ایک میکانکی انداز میں میرے کہنے پر عمل کیا اور میں اُس کے اس رد عمل سے حیران ہوتا رہا ۔تین دن یہی سلسلہ چلتا رہا اور چوتھے روز میں نے اُس سے کہا :’’نانڈیکر !ہاتھ ،پائوں ،کان ،ناک اور باقی چیزوں میں ایک مسلمان اور ایک شِو سینک میں کیا کوئی فرق ہوتا ہے ؟یا اگر ہم دونوں کو زخم لگ جائے تو کیا دو میں سے کسی کے خون کا رنگ مختلف ہوگا ؟‘‘اُس نے نفی میں گردن ہلائی۔
’’ٹھیک ہے تو پھر یہ بتادو کہ تم مسلمان کے ساتھ اس قدر نفرت کیوں کرتے ہو؟کیا مسلمان ہونا ہی پاپ ہے؟‘‘
’’مسلمان پاکستان چاہتا ہے ،دنگا کرتا ہے ،ہندو کو مارتا ہے اورمندر گراتا ہے ۔‘‘اُس نے بے دھڑک کہا ۔
’’ٹھیک ہے مانو مت مگر۔۔۔۔۔۔ذرا سوچو ،جو مسلمان پاکستان چاہتے تھے وہ کب کے پاکستان چلے گئے ،جو یہاں رہتے ہیں وہ ہندوستانی مسلمان ہیں۔وہ صرف ناگرک ادھیکار (شہری حقوق)اور جان و مال کی حفاظت چاہتے ہیں ۔انہوں نے کبھی کسی الگ پرانت کی مانگ نہیں کی ۔دنگا ہندو ؔکرتا بھی ہے اور کراتا بھی ہے ۔اُس کی مثالیں رانچی،احمد آباد ،مراد آباد ،میرٹھ،علی گڑھ ،تھانے،گجرات ،ہاشم پور اور ایسی ہی بیسوں جگہیں ہیں اور کچھ عرصہ قبل آپ کے پرانت کی مثال سامنے ہے ۔سب جگہوں پر مسلمان ہی مارے گئے ،بچے روندھے گئے ،استریوں کا بلات کار ہوا۔رہی مندر گرانے کی بات ،بلا بتائو تو سہی کہاں،کس جگہ مسلمانوں نے مندر گرائے یا اُن کو نقصاں پہنچایا ؟ایک ہی مثال بتائو ،زبانی جمع خرچ اور سنی سنائی باتیں صرف باتیں ہیں۔۔۔۔۔باتوں سے کچھ نہیں ہوتا ۔اس کے برعکس تم لوگوں نے بابری مسجد گرائی اور گجرات میں صرف چند گھنٹوں میں دو سو سے زیادہ آثا رو آستان اور مساجد کو ملیا میٹ کیا ،اور جب ہم نے اُس پر کچھ کہنا چاہا ،احتجاج کرنا چاہا تو تم لوگوں نے چالوں،جھونپڑیوں اور بستیوں کا صفایا کردیا ۔خود ہی بتائو کتنے مسلمانوں کو زندہ جلادیا گیا۔اُن کی آہ و زاری اور درد پر آپ لوگوں کو ذرہ بھر بھی دَیا نہ آئی ۔پولیوزدہ عبدالمنان اور اَسی سالہ نعمت خاتون کو زندہ جلا دیا گیا ۔کیا وہ بھی فسادی تھے ؟کیا وہ بھی دنگا کرتے تھے ؟اور پاکستان چاہتے تھے یا مندر گراتے تھے؟جتنے بھی مسلمانوں کو آپ لوگوں نے لوٹا ،قتل کیا اور زندہ جلا دیا ،اُن کا کیا قصور تھا ؟تم لوگ کتنے سنگدل ہو۔‘‘
نانڈیکر ؔ تھوڑی دیر تک کسی سوچ میں غرق رہا اور اُس کے بعد کچھ بجھے بجھے سے لہجے میں کہنے لگا ۔صاحب ! ہم عام آدمی ہیں ۔ہمیں تو کچھ بھی نہیں معلوم ۔یہ شاکھا پرمکھ ہمیشہ لانڈیا کے خلاف بولتا رہتا ہے ۔‘‘
اگلے روز وہ خود نہیں آیا بلکہ کسی اور کے ہاتھ دوکان کی چابیاں بھجوادیںاور مجھے دھتکارنے کے ٹھیک آٹھ روز بعد جب کہ ورما صاحب بھی بس پہنچنے ہی والے تھے ،وہ آیا مگر بدلا بدلا سا لگ رہا تھا ۔آتے ہی بولنے لگا ،مگر اُس کی آواز میں ایک ٹھہرائو اور تناسب جھلکتا تھا ۔’’سچی کہوں میاں جی!میری اماں بھی ایسا اِچ بولتی ہے ۔یہ شاکھا والے اَپُن کو بھڑکاتے ہیں ۔اَپُن کا من بھر گیا ہے ،اب ادھر نہیں رہنے کا۔اَپُن ناسکؔ یا بلساورؔ میں کام دھندہ کرے گا ۔ادھر ِاچ رہے گا اور پاپوں کا پرائسچِت کرے گا۔‘‘
یہ کہتے ہوئے اُس کی آنکھیں رم جھم برسنے لگیں۔میں نے گلے لگا کر اُسے رخصت کیا ۔سچ ہے ؎
دل ہی تو ہے سنگ و خشت
درد سے بھر نہ آئے کیوں
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او سرینگر-190001،کشمیر،
موبائل نمبر:-9419475995