جموں کشمیر ریاست کی مخصوص شناخت کا بچا آخری ستون آرٹیکل ۳۵( الف)[ یعنی غیر پشتینی باشندوں کو ریاست جموں کشمیر میں بسانے پر پابندی کا قانونی ضابطہ ] بہت پہلے سے متنازعہ بنانے کی کوششیں ہوتی رہی ہیں مگر بی جے پی مرکز میں برسراقتدار ہوجانے اور ریاست میں پی ڈی پی کے ساتھ اقتداری شراکت داری کے دنوں سے اب تک ریاست کی انفرادیت کے اس نشان کو مکمل طور زمین بوس کرنے کا منصوبہ اب روبہ عمل لانے کی تیاری ہورہی ہے۔ اس معاملے کو ۶؍ اگست کو پھر سے سپریم کورٹ میں زیر بحث لانے کی خبروں سے جموں کشمیر ریاست خصوصاً کشمیری عوام زبردست ذہنی کشاکش میں پڑگئے ہیں ۔ اس کادفاع کرنے کے حوالے سے حقیقت حال یہ ہے کہ مرکزی حکومت نے کسی خاص مصلحت کے تحت اپنی آئینی ذمہ داری پوری کرنے سے اپنے ہاتھ کھینچ لئے ہیں۔ ریاست میں آئینی طور منتخب کوئی سرکار موجود نہیں ہے ۔ اس سے بھی بڑھ کر ’’عوام کے نامی گرامی لیڈر‘‘ کہلانے والے افراد موت و زیست جیسے اہم معاملے پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ ملانے کیلئے تیار نہیں ہورہے ہیں۔ کچھ لوگوں کا پہلے سے ہی یہ خیال رہا ہے کہ پی ڈی پی کا وجود ہماری اس ریاست کے ماتھے پر ایک بد نما داغ ہے۔ اب کوئی شک باقی نہیں بچا ہے کہ کشمیریوں کے وجود کو مٹانے کے درپے اغیار کی آلہ کار یہ جماعت اس قوم کی بربادی کا جڑ ثابت ہو گئی ہے۔ اول تو پی ڈی پی کے معرض وجود میں آنے پر کشمیریوں کے ووٹ کا بٹوارا ہوگیا تھااور لوگوں کے درمیان سیاسی نفرت کی دیواریں اونچی ہو گئیں۔ اسی منا فرت کو لے کر لاکھ سمجھانے کے با وجود بھی اس جماعت کے قائدین نے ۲۰۱۴ء کے اسمبلی نتایج کے نشے میں چُور اپنوں کو ٹھکراکر بی جے پی کو اپنا ساتھی چن لیا تھا لیکن حکومت کی باگ ڈور سنبھالتے ہی بی جے پی نے ریاست کی انفرادیت کے آئینی نشان ریاستی پرچم کو متنازعہ معاملہ بناڈالا ۔ پھر پی ڈی پی کی لفاظی شان’’ ایجنڈا آف الائینس‘‘ کو فراموشی کے بستے میں گم کردیا گیا ۔ ملی ٹیسی کے گراف کو پھر سے اُوپر لے جانے کی اور کشت و خون کابازار گرمانے کی تمام تر ذمہ داری بھی اسی اقتداری گٹھ جوڑ کی کرشمہ سازی ہے۔ وادی کے حالات کو اب اس حد تک خراب کیا گیا ہے کہ مزاحمتی قیادت نے ۳۵؍ الف معاملے کو کشمیریوں کیلئے موت و حیات قرار دیتے ہوئے ۵ ؍اگست سے دو دن کیلئے ہمہ گیر ہڑتال کرنے اور سول کرفیو کی کال دی ہے۔ کتنا بڑا مذاق ہے کہ اقتدار سے محروم ہوجانے کے بعد اب محبوبہ مفتی نے ۳۵؍ الف کے معاملے میں مشترکہ دفاع کرنے کی ضرورت پر زور دیا ۔ بہت سارے لوگ محبوبہ جی کے اس بیان میں یقین ہی نہیں رکھتے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ اقتدار سے علحیدگی محض ایک ڈرامہ ہے اور پی ڈی پی ۳۵ ۱لف کا ڈرامہ ختم ہوجانے کے ساتھ ہی پھر سے پرانی تنخواہ پر عہدہ سنبھالنے پر تیار ہے۔ اُدھر’’ کشمیر اکنامک الائینس ‘‘نے ۶ ؍اگست کو الگ سے مکمل ہڑتال کرنے کا پروگرام آگے کردیا ہے۔ریاستی کانگریس نے بھی اس خصوصی دفعہ کے خلاف کاروائی ہوجانے کی صورت میںایجی ٹیشن چلانے کی وارننگ دی ہے۔ انفرادیت کی بحالی کے لئے سر چڑھ کر بیانات جاری کرنے کی عادی نیشنل کانفرنس بھی گاہے گاہے ۳۵؍ الف دفعہ کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کا رونا روتی آئی ہے۔ سال گزشتہ کے دوران ۲۳؍ اگست کو ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے ۳۵ ؍الف کے تحفظ کے لئے متحد طور جدوجہد کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔اُن کا ماننا ہے کہ اس دفعہ کے خلاف کوئی بھی اقدام بہت بڑے طوفان کا پیش خیمہ بن سکتا ہے اورریاست بھر میں بھاری تباہی کی وجہ بن سکتا ہے۔ پچھلے سال ۲۳؍ اگست کو سول سوسائٹی کے ساتھ ملاقات کرنے کے دوران فاروق عبداللہ نے کہا تھا کہ ۳۵؍ الف پر ایک منظم تحریک شروع کرنے کیلئے تینوں خطوں کے لوگوں کومتحرک ہوجانے کی ضرورت ہے۔ ڈاکٹر فاروق نے سول سوسائٹی ممبران پر واضح کیا تھا کہ جموں کشمیرکی خصوصی پوزیشن کو چلنج کرنا کسی ایک پارٹی یا فرقہ کا مسٔلہ نہیںبلکہ یہ ایک قومی مسلٔہ ہے جس کے دفاع میں سب کو متحد ہوکر رہنا ہوگا۔ ظاہر ہے کہ کشمیرکے سیاسی قائدین اور سیاسی جماعتوں کے الگ الگ بیانات کی اہمیت گھٹ کر رہ جاتی ہے۔ کشمیری عوام کو تباہ حالی سے روکنے کیلئے حریت کانفرنس اور مین اسٹریم سیاسی جماعتوں کو اختلافات کی کتاب کو بند کرکے اس اہم تر مسئلے پر غیر متزلزل مشترکہ موقف اپنانا ہوگا ۔ پچھلے سال جو کچھ بھی کیا جاسکا تھا اور کہا گیا تھا، اُس کے مقابلے میں اس وقت صورت حال یہ ہے کہ فاروق عبداللہ اور پارٹی کے نائب صدر عمر عبداللہ کے اکثر بیانات میں زیادہ زور پی ڈی پی سے نفرت اور راہل گاندھی کے سر پر تاج دیکھنے سے جڑے معاملات پر دیا جارہا ہے۔ یک نفری، دو نفری جماعتیں بھی اپنی فکر مندی کا اظہار کرتی ہیں لیکن اس فکر مندی میں بھی زیادہ فکر اقتدار کے لئے باندھی گئی پوٹلیوں سے ہوکر گزرتی ہے۔وہ سجاد غنی لون اور انجنئیررشید بھی اقتدار کے لئے ہی کچھ کچھ بے قرار نظر آتے ہیں۔ سب کے سب سیاست دانوںکا ظاہر و باطن کشمیری عوام کے اہم ترکاز کیلئے کس حد تک ساتھ دے گا، ابھی اس بارے میں کچھ بتانا مشکل لگتا ہے۔ سجاد، رشید اور بیگ کے زیر اثر کچھ لوگ اقتدار کو سنٹرکشمیر سے سائوتھ لے جانے کے بعد اب اس کا رُخ نارتھ کی طرف موڑنے کی باتیں کر نے لگے ہیں۔ ایسے عناصر کو بخشی اور محبوبہ جیسے حادثاتی لیڈروں کی عاقبت کا کچھ خیال کرنا چاہیے اور جان لینا چاہیے کہ اقتدار کبھی بھی ہاتھ لگ سکتا ہے، لیکن وطن عزیز کی خدمت کرنے سے بڑھ کر دوسری کوئی اور شئے بڑی نہیں۔ ابھی تو تمام تر فکر دفعہ ۳۵ الف پر مرکوز رکھنے کی بہت بہت اشد ضرورت ہے۔ لہٰذا سب کے سب لیڈران پر ذمہ داری ہے کہ وہ اس نازک مرحلے پر اپنے ذاتی و جماعتی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر مطلوبہ آئینی دفعہ کو تحفظ فراہم کرنے کی حکمت عملی طے کریںاور عملی اقدام بھی کریں۔چونکہ یہ ایک آئینی نوعیت کا معاملہ ہے، لہٰذا سب سے موثر اقدام کشمیر بار ایسوسی ایشن کی ذمہ داری بن جاتا ہے۔ اس سلسلے میں تمام سیاسی جماعتوں کو بار ایسوسی ایشن کے ساتھ ہنگامی سطح پر میٹنگ منعقد کرکے مناسب اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ علحیدگی پسند وں اور باقی سیاسی جماعتوں پر یہ بھی لازم بنتا ہے کہ وہ اپنے حصے کے عوامی اعتماد کو فی الحال بار ایسوسی ایشن کی جھولی میں ڈال دیں تاکہ دفاعی اقدامات کو بہت زیادہ مشترکہ قوت مل سکے ۔
بہت سارے لوگوں کا یقین ہے کہ کشمیر ریاست کو حاصل مخصوص حقوق منجمد کرنے کیلئے عدالت عظمیٰ میں دائر زیر بحث کیس میں کوئی دم نہیں ہے۔ گزشتہ برس عدالت عظمیٰ میں کام کرنے والی کسی خاتون ایڈ وکیٹ نے آرٹیکل ۳۵؍ الف کو اس بنیاد پر چلنج کیا تھا کہ وہ خود ریاست کی باشندہ ہے۔ چونکہ اُس نے ایک غیر ریاستی باشندے کے ساتھ شادی رچائی ہے، جس بات کو لے کر ۳۵؍ الف کے تحت وہ خاتون ایڈوکیٹ اپنے پشتینی حقوق سے محروم ہوجاتی ہے۔ بقول موصوفہ متعلقہ قانونی شق کا آئین ہند کی دفعہ ۱۵؍ کے ساتھ ٹکرائو پیدا ہوجاتا ہے،تب سے یہ معاملہ عدالت عظمیٰ کے سامنے پڑا ہوا ہے۔ اسی عدالت نے ماضی میں ایک سے زائد مرتبہ اسی نوعیت کی عرضیاں کارروائی کئے بغیر خارج کردی ہیں۔ اس مرتبہ مرکزی سرکار کے ایڈوکیٹ جنرل نے سپریم کورٹ میں حاضری نہیں دی ہے، جس کو دیکھتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ مرکزی سرکار اس دفعہ کا دفاع کرنے کی ذمہ داری سے الگ ہوگئی ہے۔ تاہم مرکز سے بھی زیادہ ذمہ داری ریاستی سرکار کے کندھوں پر آن پڑتی ہے۔ اُمید کی جاتی ہے کہ گورنر انتظامیہ ریاست کے آئین کا بول بالا باقی رہنے دے گا۔ ریاست جموں کشمیر کے آئین اس قدر طاقت موجود ہے کہ دفعہ ۳۷۰ اور ۳۵ الف کے خلاف کسی بھی کاروائی کو کسی بھی عدالت میں کالعدم قرار دیا جاسکتا ہے۔
پس تحریر:سی پی آئی ایم!تیرا شکریہ کہ عدالت عظمیٰ میں دفعہ ۳۵؍ اے پر سماعت روکنے کے لئے عین وقت پر سپریم کورٹ میں پٹشن دائر کردی۔