بلاشبہ اسرائیل کا ایران پر حملہ، ایران کے لئے غیر متوقع تھا کیونکہ ایران کی امریکی صدرڈونالڈ ٹرمپ کے ساتھ بات چل رہی تھی۔مگر ایران نے اپنے آپ سنبھالنے میںدیر نہیں لگائی اور جیسے کو تیسا کے طرز پر بالکل مناسب جواب دیا، جو اب بھی جاری ہے بلکہ شدید ہوتا جا رہا ہے۔یہ بات اب کسی سے ڈھکی چھپی نہیں رہی ہے کہ پچھلے کچھ عرصے کےدنیا بھر میںمیڈیا کا ایک بڑا حصہ اپنے مفادات ،مصلحت اور اپنے آقائوں کے خوف سے اپنا وقار اور اعتبار کھو چکا ہےاور وہ سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنانے کا ہُنر سیکھ چکے ہیں،جس کے نتیجے میں حق بات عوام الناس تک نہیں پہنچ پارہی ہے۔پھر بھی مرکز اطلاعات فلسطین اور الجزیرہ کا اعتبار ابھی باقی ہے ۔دونوں ہی کی خبروں کے مطابق ایران کے میزائل اسرائیل کے دفاعی نظام کو نقصان پہنچانےمیں کامیاب رہے ہیں۔تل ابیب سمیت ایران کے میزائل اسرائیل کے ایک بڑے حصے پر مار کر رہے ہیں ۔اگرچہ اسرائیل کے حملوں سے بھی ایران میںبھی مختلف تنصیبات کو نقصان پہنچا اور مالی و جانی نقصان سے دوچارہوا، تاہم ابھی تک ایران کے جوہری پلانٹ کو کوئی قابل ذکر نقصان نہیں پہونچا ہے ۔مرکز اطلاعات فلسطین کہتا ہے کہ اسرائیل پر ایران کے میزائل حملے جاری ہیں اور ڈونالڈٹرمپ جو مذاکرات کی خبریں پھیلا رہا ہے، وہ جھوٹی ہیں۔ایک نقطہ ء نظر یہ بھی ہے کہ اسرائیلی صدرنتن یاہو نے یہ جنگ داخلی حفاظت کے غرض سے چھیڑی ہے،یعنی اپنی ہی عدالت سے بچاؤ کے لئے۔لیکن اسرائیل کا جو ناقابل تسخیر ہونے کا گھمنڈ تھا، وہ ایران نے پاش پاش کردیا ہے ۔ریٹائرڈ کرنل ،تجربہ کار جنگجواور عسکری امور کے ایک امریکی ماہر نے اپنے مضمون میں ،ایران نے اسرائیل کے خلاف جو اقدامات کئے ہیں اس پر بڑی تفصیل سے روشنی ڈالی ہے اور ایران کی بہت تعریف کی ہے۔انہوں نے انکشاف کیا ہے کہ اب نتن یاہو امریکہ سے جنگ میں شامل ہوکر اسرائیل کو بچانے کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ چالاک اور شاطر دشمن صرف ایک سمت سے ،ایک سطح سے اور ایک میدان میں وار نہیںکرتا۔وہ ہر گیا گزرا وار کرنے کو تیار ہوتا ہے ۔چنانچہ جب سے اسرائیل ایران کی یہ جنگ شروع ہوئی ہے،اسرائیل کی خفیہ ایجنسی موسادنے مسلمانوں میں مسلکی جنگ کو بھی زندہ کرنے کی کوششیں کی ہیں۔ یقینا ًمسلمانوں کے درمیان موجو د یہودیوں کے ایجنٹ ہی ہیں جو مسلکی تنازعات کو ہر وقت ہوا دیتے رہے ہیں اور اس جال میں سادہ لوح مسلمان کو پھنسانے کی کوشش کررہے ہیں۔بغور جائزہ لیا جائے تو ا یران عالم اسلام کا سب سے زیادہ تعلیم یافتہ ملک ہے۔ہمارے نزدیک یہی بہت غیر معمولی بات ہے کہ گزشتہ قریباً پانچ عشروںسے ساری دنیا کی مخالفت کے باوجودوہ نہ صرف زندہ ہے بلکہ دشمنوں کے سینوں پر مونگ دَل کے پُر امن مقاصد کے لئےاپنا جوہری پروگرام کو آگے بڑھا رہا ہے اور اس بات کا ثبوت دے رہا ہے کہ ایران نے خود پر پابندیوں کو زحمت نہیںرحمت بنا لیا ہے۔ایران نے عربوںکے برعکس یہ پالیسی اپنائی کہ ہمیں تلوے نہیں چاٹنا ہے بلکہ ہر شعبے میں خود کفیل بننا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج ایران کے تعلیمی ادارے دنیا کے بہترین تعلیمی اداروں میں گنے جاتے ہیں،جہاں غیر ملکی طلبا بھی تعلیم حاصل کرنے آتےہیں۔ایران کی یہ پالیسی یا یہ ترقی بھی اسلام دشمم قوتوںکو راس نہیں آتی اور وہ اسے ملیا میٹ کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ اُمّتِ مسلمہ بارہا دشمن کی چالوں کا شکار ہوئی اور ہر بار اس کی شکست کی بنیاد اندرونی کمزوری بنی۔ اندلس کا زوال ہو یا خلافتِ عثمانیہ کا سقوط، فلسطین کی تقسیم ہو یا عراق و شام میں بغاوتیں، ہر جگہ دشمن باہر سے نہیں، پہلے اندر سے آیا ہے ۔ اب مسلمانوں کو سمجھنا چاہئےکہ تاریخ صرف ماضی نہیں بلکہ ایک آئینہ ہے۔ اس میں جو خون بہا، جو دیواریں گریں، جو خواب بکھرے، وہ سب اُمت مسلمہ کو خبردار کرتے ہیں کہ دشمن کی کامیابی ہمیشہ مسلمانوں کی ناسمجھی، تفرقہ بازی ،غفلت اور خاموشی کا نتیجہ رہی ہے۔ اگر آج مسلم امہ نے اپنے داخلی اختلافات، ذاتی مفادات اور معمولی ترجیحات کو قوم و ملّت سے بلند رکھا، تو وہ موساد جیسے دشمنوں کی خوراک بن جائیں گے۔ لیکن اگر انہوںنے اپنے اندر بیداری پیدا کی، عقل و ایمان کے ساتھ اتحاد قائم کیا اور باہمی احترام و اخوت کی فضا استوار کی تو پھر کوئی ایجنسی، کوئی طاقت، کوئی سازش، اُمّت کی روح کو مجروح نہیں کر سکتی۔ اب فیصلہ مسلمانوں کا کام ہے کہ وہ دشمن کا آسان ہدف بنیں یا اُمّتِ محمدیہؐ کے نگہبان؟