سرینگر// متعدد اضلاع میں دانشگاہوں کے مسلسل بند رہنے پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے جنرل سیکریٹری علی محمد ساگر نے کہا ہے کہ حکومت کی غلط پالیسیوں سے ہماری نئی نسل کے مستقبل کیساتھ کھلواڑ کیا جارہاہے۔ انہوں نے کہا کہ کشمیر دشمن عناصر نے روز اول سے کشمیر کو اقتصادی طور چوٹ پہنچانے کیلئے سازشیں رچی اور ساتھ ہی یہاں کی نئی نسل کو اندھیروں میں دھکیلنے کیلئے ناپاک منصوبے بنائے۔ اگرچہ ماضی میں یہ سازشیں کامیاب نہیں ہوئے لیکن موجودہ مخلوط پی ڈی پی حکومت کی کشمیر مخالف پالیسیاں اختیار کرکے ان منصوبوں کو کامیاب ہونے کی راہ فراہم کیا۔ ساگر پارٹی ہیڈکوارٹر پر مختلف تجارتی انجمنوں کے نمائندوں اور طالب علموں کے وفود کے ساتھ تبادلہ خیالات کررہے تھے۔ ساگر نے کہا کہ موجودہ حکومت کے غلط فیصلوں اور غیر سنجیدگی کے نتائج سے عوام باخبر ہیں اور حکومتی غلطیوں سے یہاں کے حالات بد سے بدتر ہوتے جارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جس طرح سے آج مسلسل طور پر دانشگاہیں بند ہیں ایسی مثال ماضی میں کہیں نہیں ملتی۔ کشمیر حالات کی خرابی کے سبب کبھی بھی دانشگاہوں کو بند نہیں کیا گیا۔ ساگر نے کہا کہ اگرحکومت نے پلوامہ ڈگری کالج میں فورسز کی یلغار پر بروقت کارروائی کی ہوتی تو وادی کے تمام دانشگاہوں کو بند کرنے کی نوبت نہ آتی۔ حکومت نے اگرچہ پلوامہ ڈگری کالج پر ہوئے یلغار کی تحقیقات کے ڈھنڈورے بھی پیٹے لیکن ابھی تک کوئی بھی اس بارے میں کوئی بھی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی ، جس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ تحقیقات صرف زبانی جمع خرچ تک ہی محدود تھی۔ کشمیر کے اقتصادی بحران پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ساگر نے کہا کہ بار بار کرفیو کے نفاذ، بندشوں، انٹرنیٹ اور مواصلاتی بریک ڈاﺅن سے حکومت براہ راست سیاحوں کو کشمیر نہ آنے کی صلاح دے رہی ہے اور ساتھ ہی کشمیری تاجروں کی روزی روٹی پر بھی شب خون مارا جارہاہے۔ انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہورہا ہے کہ کشمیر کے بارے میں بیرونِ ریاست منفی پیغام پہنچانے کا کام حکومت نے خود اپنے سر لے لیا ہے۔ سیاحوں کی ہوٹل اور ٹرانسپورٹ بُکنگ آج کل مکمل طور پر انٹرنیٹ پر منحصر ہوتی ہے ، یہاں تو انٹرنیٹ پر ہی پابندی عائد کی جاتی ہے۔ایک طرف سیاحت کو بڑھاوا دینے کیلئے بڑی بڑی میٹنگوں کا انعقاد کیا جارہا ہے اور دوسری جانب انٹرنیٹ اور مواصلاتی نظام پر پابندی عائد کرکے سیاحوں کے یہاں آنے کے ذرائع ہی بند کردیتے ہیں۔ ساگر نے کہا کہ گذشتہ سال بھی یہاں کے تاجروں ،سیاحت سے وابستہ ،کامگار لوگوں اور طالب علموں کو زبردست نقصان سے دوچار ہونا پڑا۔