بہت کم لوگ اس بات سے واقف ہوں گے کہ آج سے صرف تین سو سال قبل ویسٹ انڈیز کے جزیرے جمائیکا ؔ کی راجدھانی کنگسٹنؔ کے قریب ایک اور بڑا جزیرہ پورٹؔرائیل کے نام سے سطح سمندر پر پوری آن بان اور شان و شوکت کے ساتھ موجود تھا مگر اب وہاں فقط سمندر ہے ،نیلے پانیوں کا راج اور اُڑتے پرندوں کا غوغا ۔البتہ غور سے دیکھنے پر شفاف پانی میں تہ ِآب کچھ عمارات کے کھنڈر اور گرجا گھروں کے کلس اب بھی نظر آتے ہیں جن میں دنیا کے عظیم ترین خزانے محفوظ ہیں مگر جن کو نکالنے کی کوششیں ناکام ہوچکی ہیں، اگر چہ کچھ غوطہ خوروں کو تھوڑا بہت مختلف موقعوں پر ہاتھ لگا ہے ۔
سترہویں صدی عیسوی میں بیشتر مغربی ممالک سمندروں پر بلا شرکت غیرے اپنی اجارہ داری قائم کرنے کے لئے ایک دوسرے کے ساتھ برسر پیکار رہا کرتے تھے ۔اس مقصد کے لئے وہ ہر جائز و ناجائز حربہ استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔چنانچہ اس ضمن میں فرنگی تاجروں نے اپنا مال بچانے کی خاطرسمندری لٹیروں کی پشت پناہی کرنا شروع کردی۔یہ لٹیرے اپنے کام کے علاوہ ہسپانوی ؔ، فرانسیسی ؔ اور ڈچؔ جہازوں پر ڈاکہ ڈال کر اور اُن پر قبضہ کرکے عملے کو سنگ دلانہ طریقے سے تہ ِتیغ کرتے یا غلام بناتے تاکہ اُن کو غلاموں کی منڈیوں میں بیچ کر اُن سے دھن کمایا جاسکے ۔وہ دولت،ہیرے جواہرات اور قیمتی سازوسامان لوٹ کر پورٹؔ رائیل میں جمع کرتے ،جہاں صرف طاقت کی حکومت تھی اور قانون عنقا تھا ،عزت نفس تھی نہ سماجی زندگی ۔فقط ایک غول بیابانی تھا جو ہر آئین و اصلاح سے بالاتر تھا ۔طاقت کا راج تھا اور پیسے کی حکومت تھی اور جس کے پاس یہ دونوں تھے وہی پورٹ رائیلؔ کا حکمران تھا ۔اُس زمانے کے مشہور مگر درندہ صفت بحری قزاقوں جیسے مورگنؔ،ہاکنسؔ،کولسنؔ،چارلسؔروبرٹ وغیرہ کے ناموں اور سیاہ کارناموں سے متعدد کتابیں بھری پڑی ہیں ،یہ ڈاکو کئی ممالک کے شاہی درباروں تک رسائی رکھتے تھے۔
پورٹؔ رائیل پر چھوٹے بڑے جہاز، دن بھر لنگر انداز ہوتے رہتے تھے جن میں مال و دولت ،ہیرے جواہرات ،نفیس شراب ،اعلیٰ قسم کے تمباکو ،انواع و اقسام کی کپڑے اور پارچہ جات ،مغرب کی حسین و جمیل لڑکیاں اور نیگرو قیدی و غلام بندر گاہ پر اُتارے جاتے تھے۔شہر کی تنگ گلیوں میں ہر وقت دوزخ کا سمان نظر آتا تھا کیونکہ ہر طرف گالی گلوچ ، عریاں کلامی ،عورتوں کی چیخ و پکار ،لڑائی جھگڑے ،جھڑپیں اور فحش گانے سنائی پڑتے تھے ۔ایک ایک اور دو دو ہزار گیلن والی شراب کی ٹنکیاں ہر شراب خانے میں رکھی نظر آتی تھیں جب کہ ہر دکان پر شراب کے مشکیزے اور اعلیٰ قسم کی تمباکو ہر وقت دستیاب رہتی تھی ۔ہر مکان ،ہر چوبارہ ،ہر گلی اور ہر ایک کونہ کھدرا فحاشی اور بے راہ روی کا اڈہ تھا ۔عورتیں بازار ی جنس کی طرح بیچی اور خریدی جاتی تھیں اور جن کے مالک بھی بہت جلد بدلا کرتے تھے ۔اس کے علاوہ بھی کچھ عورتیں بغیر مالک کے ہوتی تھیں جن سے بے حجابانہ عوامی جگہوں اور شاہراہوں پر اختلاط کرنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی جاتی تھی۔کبھی کبھی کوئی بدمست اور جاہل ملاح اپنے پستول کا دہانہ آزاد چھوڑ دیتا تھا تو گلیوں میں قتل عام شروع ہوجاتا تھا ،اس معصیت اور رقصِ ابلیس کے باوجود تعجب خیز بات یہ ہے کہ وہاں گرجا گھروں کی کثرت تھی۔لوٹ کے مال کا ایک بڑا حصہ ان گرجا گھروں کی تعمیر میں صرف کیا جاتا تھا اور راہب بھی حرام کی وہ دولت دو دو ہاتھوں سے لوٹ کر نجی تجوریاں بھرتے تھے ۔
ہر بدکاری ،ہر معصیت اور ہر طرح کے گناہوں میں ملوث یہ مکروہ بستی 7جون 1692ء کے روز صبح آفتاب چڑھے اپنے نئے دن کے نئے شیطانی ہتھکنڈوں اور مکروہ کارِ شیطانی کے بارے میں پلان کررہی تھی اور سوچ ہی رہی تھی کہ بندر گاہ پر کچھ جہاز لنگر انداز ہوئے ۔اُن جہازوں میں دور دراز ملکوں کی خوبصورت لڑکیاں اور عورتیں ،منشیات، لہوو لعب اور عیاشی کا سازوسامان برائے فروخت آیا تھا ۔نیا مال اور تازہ سٹاک دیکھنے کی غرض سے لوگ بہ اشتیاق جوق در جوق بندر گاہ کی جانب رواں دواںتھے کہ یکایک ایک خوفناک گڑگڑاہٹ کی آواز سنائی دی ۔تمام لوگ ایک دوسرے کی طر ف دیکھ کر خوف و حیرت سے گڑگڑاہٹ کا سبب تلاش کرنے لگے ۔آواز زمین کے بطن سے آرہی تھی جو لمحہ بہ لمحہ تیز اور بلند ہوتی جارہی تھی۔اس سے پہلے کہ کوئی کچھ کہتا یا اپنی بساط کے مطابق کوئی انومان ،کوئی اندازہ لگا تا کہ دیکھتے ہی دیکھتے سخت زمین کا سینہ کئی جگہ سے شق ہوگیا اور پلک جھپکتے ہی بلند و بالا عمارتیں ،پُر شکوہ قلعے اور عالیشان گرجا گھر زمین بوس ہوگئے ۔بیشتر لوگ زمین میں ہی دھنس گئے اور باقی بچے لوگ ابھی حیرت و استعجاب کے عالم میں ہی بین کررہے تھے کہ یک بار گی سمندر سے اٹھنے والی ایک عظیم لہر نے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے گناہوں کی اس دس ہزار افراد پر مشتمل بستی کو نیست و نابود کردیا ۔پانی کی سطح پھر برابر ہوگئی البتہ بُلبلے کافی دیر تک پانی کی سطح پر آتے رہے ،بُلبلے جو اُس آبی مقبرے سے برآمد ہورہے تھے، وہ اس بات کی علامت تھے اور یہ پیغام دے رہے تھے کہ گناہوں کا بیڑہ ایک دن ضرور بہ ضرور غرق ہوکے رہتا ہے اور وہ اس امر کی بھی نشاندہی کر رہے تھے کہ بقول ساحر ؔ لدھیانوی ع
ظلم پھر ظلم ہے بڑھتا ہے تو مٹ جاتا ہے
قانون فطرت یہی ہے ۔قرآن کریم میں اس بارے میں کئی مثالیں موجود ہیں۔حق بات تو یہی ہے کہ جب حالات ایسی صورت اختیار کرلیتے ہیں تو یقیناً رب کی لاٹھی برس پڑتی ہے جو دکھائی تو نہیں دیتی مگر محسوس ضرور کی جاتی ہے ۔قرآن کریم میں ارشاد ربانی ہے :-
’’اور آپ کے رب کی پکڑ ایسی سخت ہے جب وہ کسی بستی والوں پر داروگیر کرتا ہے جب کہ وہ ظلم اورکفر کیا کرتے ہوں ،بلا شبہ اُس کی دارو گیر اور پکڑ بری سخت اور الم رساں ہے ۔‘‘(سورہ ہودؔ۔آیت 102)
آ ج بھی پورٹ ؔرائیل کے اطراف و اکناف میں تاریک راتوں کی خاموشی میں کبھی کبھی اچانک گرجا گھروں کی گھنٹیوں کی آوازیں سنائی دیتی ہیں،آہ و فغاں کا شور بلند ہوتا ہے اور عورتوں کی دلدوز چیخیں سنائی دیتی ہیں ۔اُن صاف صاف آوازوں اور دل شکن ملتجی فریادوں کو آس پاس سے گزرنے والے ملاح ،مسافر یا سیلانی واہمہ یا ابلیس کی کارستانی نہیں مانتے ہیں بلکہ مظلوم روحوں کی فریاد سمجھتے ہیں ؎
ظلم کی بات ہی کیا ظلم کی اوقات ہی کیا
ظلم بس ظلم ہے آغاز سے انجام تلک
ساحرؔ
رابطہ:- پوسٹ باکس :691جی پی او رینگر-190001،کشمیر
موبائل نمبر:-9419475995