آج ہم ملت اسلامیہ کے ایک عظیم المر تبت شخصیت کو یاد کر رہے ہیں ۔ ا س حوالے بات کر تے ہوئے میرا کم مایہ خامہ ا س آفاقی حقیقت کی طرف رُخ کررہاہے کہ تحقیق و تلاش کرنا انسان کا خاصہ ہے نئے چیزوں اور حقائق کو دریافت کرنا انسان کی ودیعت میں داخل ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے جب انسان کو پیدا کیا تو اس کی فطرت میں یہ بات رکھ دی کہ وہ تحقیق و تفتیش سے حقائق اور سچائی کو معلوم کرے ۔ اس فطری اصول سے جتنا استفادہ کیا جائے اتنا ہی انسان کی فلاح و بہبود اور اس کی ذہنی نشونماء کے لیے بہتر ہوگا اور جتنا وہ اس سے اعراض کرے گا اتنا ہی وہ اس کی ذہنی پستی کے ساتھ ساتھ اس کی مادی ترقی کے لیے بھی نقصان دہ ثابت ہوگا ۔ہر قوم تحقیق و جستجو سے ہی آگے بڑھتی ہے اور ترقی کے منازل نے طے کرتی ہے ۔تحقیق و جستجو کا ذوق ہونے کے ساتھ کسی بھی قوم وملت کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ اس کے پاس علمی ، تحقیقی اور فکری ادارے اور ان کو چلانے والی بلند پایہ شخصیات ہوں جو اس قوم یا ملت کی فکری بنیادوں کو مضبوط و توانا کریں ۔ یہ ادارے جتنے معیاری ہوں اتنا ہی وہ قوم و ملت کے لیے حیات بخش ثابت ہوتے ہیں ۔ مضبوط اور معیاری علمی اور فکری ادارے اقوام و ملل کی فلاح و ترقی اور ان کے عروج میں کلیدی رول ادا کرتے ہیں۔ ان کی عدم موجودگی یا ان کے غیر معیاری ہونے کی صورت میں قوموں اور ملتوں کو زوال کے شکار ہونے میںزیادہ دیر نہیں لگتی ہے ۔قوموں کو یہی ادارے اور شخصیات فکری بلندیوں تک پہنچا دیتی ہیں ۔ان ہی کے ذریعے نہ صرف افکار و نظریات توانا اور ترو تازہ ہوجاتے ہیں بلک ان اداروں کے توسط سے افراد اور اقوام کی ذہن سازی بھی ہوتی ہیں ۔ سر برا ٓوردہ مسلم مفکری و شخصیات نے ہر دور میں تحقیقی اور فکری اداروں کو قائم کرنے پر زور دیا ہے اور خود بھی ان اداروں کو قائم کرنے کی کوششیں کیں ۔زیر نظر مضمون میں دارالاسلام پٹھانکوٹ کے قیام ، مقاصداور اس کی افادیت پر گفتگو ہوگی ۔
دارالاسلام کے قیام کرنے میں علامہ اقبالؒ اور اس کو دوام بخشنے میں مولانا مودودی ؒنے اہم رول اد اکیا ہے ۔یہ ادارہ پٹھان کوٹ کے ایک ضلع گرداس پورسے متصل جمال پور میں واقع ہے ۔ دارالاسلام کے ساٹھ ایکڑ زمین چوہدری نیاز علی خان ؒ (وہ ایک مخلص مسلمان اور خدمت دین کا بے حد جذبہ رکھتے تھے ) نے محض خدمت دین کی غرض سے وقف کر ڈالی تھی لیکن اس کے پاس کوئی منصوبہ بندی نہیں تھی کہ کیا کرنا ہے؟ اور کس طرح سے کام کرنا ہے ؟اسی لیے وہ علامہ اقبال کے پاس پہنچے اور ان سے نہ صرف اس بابت مشورہ طلب کیا بلکہ اس وقف شدہ زمین کو سنبھالنے کے لیے بھی کہا ۔ علامہ اقبال ایک زمانہ شناس مفکر تھے اور در پیش چلینجز کو بخوبی سمجھتے تھے ۔ انھوں نے نہ صرف چوہدری صاحب کے اس جذبہ کی داد دی بلکہ اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ دینی مدارس کی تو کمی نہیں ہے ، بہتر ہوگا کہ اس وقف سے کوئی اور کام لیا جائے ۔ میرے نزدیک مسلمانوں کی سب سے بڑی ضرورت فقہ اسلامی کی تشکیل جدید ہے، بحالت موجود ہم روز بہ روز اسلام سے دور ہٹ رہے ہیں ،اس کی وجہ وہ سیاسی و اجتماعی مسائل ہیں جنھوں نے موجودہ دور میں ایک خاص شکل اختیار کر لی ہے ۔علامہ اقبال اس زمانہ میں فقہ اسلامی کے سلسلے میں تدوین جدید اور سلامی فکر کی تشکیل جدید کا کام کرنا ضروری سمجھتے تھے اور اس کو جدید تقاضوں کے مطابق مدون کرنے پر زور دیتے تھے ۔ آپ نے فرمایا ہے کہ’’ موجودہ دور میں اسلام کی سب سے بڑی ضرورت فقہ کی تدوین جدید ہے تاکہ زندگی کے سینکڑوں ہزاروں مسائل کا کا صحیح اسلامی حل پیش کیا جائے ‘‘ سید سلیمان ندویؒ کے نام ایک خط میں میں لکھتے ہیں کہ ’’ یہ میرا عقیدہ ہے کہ جو شخص اس وقت قرآنی نقطہ نظر سے زمانہ حال کے اصول قانون ((Jurisprudenceپر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ابدیت ثابت کردے گا وہی اسلام کا مجدد ہوگا اور بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم ہوگا ‘‘ اسی لیے علامہ موصوف نے اس ادارے سے اس عظیم کام کے لیے مناسب سمجھا تھا ۔ اسی لیے انھوں نے متعدد اہل علم و فکرکو اس کام کے روبہ عمل لانے کے لیے دعوت دی تھی کہ وہ فقہ اسلامی پر نئے زاویوں سے غور و فکرکریں جن میں بطور خاص علامہ شبلی نعمانی ؒ،سید سلیمان ندوی ؒ اور علامہ انور کشمیر ی ؒ شامل ہیں۔ علامہ اقبال نے جامعہ ازہر کے وائس چانسلرعلامہ مصطفی المراغیؒ کو بھی خط لکھا کہ کسی ایسے روشن خیال عالم دین کو ایک تحقیقی ادارے (دارالاسلا م) کے لیے بھیجیں جو جو علوم شریعہ اور تاریخ تمدن اسلامی میں کامل ابور رکھتا ہواور انہیں انگریزی زبان پر کامل قدرت حاصل ہو لیکن کہیں سے کوئی جواب نہیں ملا،اس کی وجہ یہ ہے اس دور میں علماء اپنے اپنے مکتبہ فکر کو تقویت پہنچانے میں مصروف تھے اور امت کی مستقبل کی صورت گری کے لیے ان کے پاس کوئی ٹھوس لائحہ عمل نہیں تھا، تو علامہ اقبال نے مولانا مودودی کا انتخاب کیا ۔ وہ مولانا مودودی کو ۱۹۲۹ء سے متعارف تھے ۔ انھوں نے چوہدری نیاز علی سے کہا کہ سردست میرے ذہن میں ایک نام آتا ہے ۔’’ حیدر آباد سے’’ ترجمان القرآن‘‘ کے نام سے ایک اچھا رسالہ نکل رہا ہے ۔ مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی اس کے مدیر ہیں۔ میں نے ان کے مضامین پڑھے ہیں۔دین کے ساتھ ساتھ وہ مسائل حاضرہ پر بھی نظر رکھتے ہیں ۔ ان کی کتاب ’’الجہاد فی الاسلام‘‘ مجھے بہت پسند آئی ہے ۔ آپ کیوں نہ انہیں دارالاسلام آنے کی دعوت دیں ؟ میرا خیال ہے کہ وہ دعوت قبول کر لیں گے ‘‘۔ ( علامہ اقبال اور مولانا مودودی ، ہفت روزہ ایشیا،اپریل ۱۹۷۱)اسی مقصد کے تحت علامہ اقبال نے مولانا سے خط و کتابت بھی کی ۔ان کی یہ خواہش تھی کہ مولانا مودودی اس ادارے میں منتقل ہوجائیں اور اپنی سہولت کے مطابق ادارے کے عظیم مشن کو چلائیں۔خط و کتابت کے دوران ہی مولانا مودودی نے تحقیقی کام کرنے کا ایک خاکہ تیار کرکے علامہ اقبال کوبھیجا جس کو پڑھ کر انھوں نے اطمینان کا اظہار بھی کیا تھا ۔ مولانا مودودی کا کہنا ہے کہ علامہ اقبال نے اس بات کا مجھ سے وعدہ کیا کہ اگر تم دارالاسلا م آکر کام شروع کر دو تو میں بھی تمہارے ساتھ سال میں چھہ ماہ تمہارے ساتھ دارالاسلا م میں قیام کروں گا ۔ مولانا مزیدکہتے ہیں کہ میرے اور ڈاکٹر اقبال کے درمیان جو بات طے ہوئی وہ یہ تھی کہ چند مستعد نوجوانوں کو اسلامی قانون پر تحقیق کی تربیت دی جائے اور پھر تدوین جدید کا کام شروع کردیا جائے ۔ پٹھانکوٹ پہنچ کر میں ضروری انتظامات کرنے کے بعد ان کی دعوت پر لاہور جاکر ان سے ملنے کی تیاری ہی کر رہا تھا کہ ان کا انتقال ہوگیا ۔(مکاتیب سید ابواعلیٰ مودودی جلد اول ص:۲۰۶)مولانا مودودی کو علامہ اقبال کی انتقال پرملال پر بے حد افسوس ہوا کیوںکہ وہ اقبال کو اپنا فکری سہارا قراردے چکے تھے۔ا س کا اندازہ نذیر نیازی کے نام ان کے ایک خط سے ہوتا ہے ، لکھتے ہیں : ’’جب علامہ اقبال کے انتقال کی خبر پہنچی،دفعتا دل بیٹھ گیا ۔سب سے زیادہ رنج مجھے اس بنا پر ہوا کہ کتناقیمتی موقع میں نے کھو دیا اور میں اس کو اپنی انتہائی بد نصیبی سمجھتا ہوںکہ اس شخص کی آخری زیارت سے محروم رہ گیا جس کا مثل شاید اب ہماری ہماری آنکھیں نہ دیکھ سکیں گی ۔اب میں ایسا محسوس کر رہا ہوں کہ طوفانی سمندر میں ، میں بالکل تنہا رہ گیا ہوں ۔دل شکستگی اپنی آخری حد کو پہنچ گئی ہے ۔‘‘علامہ اقبال نے بھی علالت کے آخری ایام میں مولانا مودودی سے ملنے کی شدید خواہش ظاہر کی تھی ۔ علالت کے انہی ایام میں انہوں نے سید نذیر نیازی کے ہاتھوں مولانا مودودی کے نام خط لکھوایا جس کا متن یہ ہے :’’ڈاکٹر صاحب کی طبیعت سخت خراب ہے اور وہ آپ سے ملنے کی شدید خواہش رکھتے ہیں۔ آپ کے لیے ممکن ہو تو فورا تشریف لائیں ‘‘لیکن بد قسمتی سے اس خط کے تیسرے روزیعنی ا۲؍ اپریل ۱۹۳۸ء میں دانائے راز اورمرد قلندر خالق حقیقی سے جا ملے۔انا للہ و انا الیہ راجعون ۔
یہ ایک بہت بڑا سانحہ تھا کہ مولانا مودودی اور علامہ اقبال ایک ساتھ فکر اسلامی کی تشکیل جدید کے تعلق سے کام نہیں کرسکے ۔مولانا مودودی نے علامہ اقبال کو ایک بڑا اسلامی مفکر قرار دیا اور ان کے فکری سرمایہ اور کارناموں کو خوب سراہا ۔مولانا مودودی کا کہنا ہے کہ سب سے اہم کام جو علامہ اقبالؒ نے انجام دیا وہ یہ تھا کہ انھوں نے قومیت و وطنیت پر کاری ضرب لگانے کے ساتھ ساتھ مغربیت اور مغربی مادہ پرستی پر پوری قوت کے ساتھ ضرب لگائی ۔یہ ایک بہت بڑی بات ہے کہ دونوں مفکرین ایک دوسرے کے کام کو سراہتے اور Acknowlege کرتے تھے لیکن آج علماء اور مفکرین میں یہ بات مفقود ہوتی جارہی ہے۔ایک دوسرے کے کام کو سراہنا اور تعاون کرنا تو دور کی بات ہے ان کوتو ایک دوسرے پر تنقید اور رد کرنے کے سواکوئی کام ہی نہیں رہا ہے ۔بہر حال علامہ اقبال ؒکے خوابوں کا مرکز ومحور ’’دارالاسلا م‘ ‘ کا قیام ۱۲ ؍اکتوبر۱۹۳۸ء کو پٹھانکوٹ میں عمل میں آیااور مولانا مودودی اس کے صدر مقرر ہوئے ۔ مولانا مودودی نے تن تنہا کام کرنا شروع کیا اور چند مہینوں میں ہی اس ادارے کی علمی ،فکری اور عملی فضا ہموار کر دی ۔ دار الاسلام ایک علمی اور فکری ادارہ تھا اور اس کے مقاصد کافی اہمیت کی حامل تھے۔ بقول ثروت صولت اس کی حیثیت ایک علمی اور تحقیقی اکیڈیمی اور تربیتی ادارہ کی تھی جس کا مقصد ایک طرف اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہرشعبہ زندگی میں مسلمانوں کی نظریاتی رہنمائی کرنا تھا اور دوسری طرف لوگوں کو تربیت دے کر ایسے افراد کو تیار کرنا تھاجو اسلامی انقلاب کی رہنمائی کرسکیں ۔ دارالاسلا م علامہ اقبال کا تصور ، چوہدری نیاز علی خان کا ایثار اور مولانا مودودی کے فکری اجتہاد کا ایک حسین امتزاج تھا ۔دارالاسلا م ایک مقام بھی تھا ایک تصور کی عملی تشکیل بھی اور جماعت اسلامی کا خشت اول بھی ۔ (اختر حجازی ، دارالاسلام ، ادارہ ترجمان القرآن ، لاہور) کے قیام کے دوران مولانا کا روز کا معمول مطالعہ کتب اور تحقیق و تصنیف تھا اور اسی دو ر میں انھوں نے کئی اہم تقریریں کیں جو اسلامی نظام زندگی،خطبات اور تعلیمات میں محفوظ ہیں ۔ ’’مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش ‘‘اسی دور کی تصنیف شدہ کتاب ہے ۔ان کے علاوہ اور بھی کچھ تصانیف اور مضامین لکھے تھے ۔غرض کہ مولانا دارالاسلام کے سب سے زیادہ متحرک کارکن تھے اور ہمہ وقت افراد سازی میں مصروف رہتے تھے۔ مولانا اس ادارے میں ایسے ذہین و فطین نوجوانوں کو لانا چاہتے تھے جو جدید و قدیم علوم کے فارغ التحصیل ہوں تاکہ ان کو علم و تحقیق اور عمل پیہم کے ذریعہ سے اسلامی احیاء کے نصب العین کے حصول کے لیے تیار کیا جاسکیں۔ مولانا آغاز ہی سے افراد سازی کے تعلق سے سنجیدہ تھے۔ انھوں نے مستقبل کی صورت گری کے کے خود کو بھی وقف کیا اور دوسروں کو بھی اس میدان میں تیار کر نا چاہتے تھے کیوں کہ وہ مستقبل میں پیش آنے والے چلینجز سے بخوبی واقف تھے ۔ان کو اس بات پر یقین محکم تھا کہ اگر اسلام کو صاحبان صلاحیت و عزیمت افراد مل جائیں تو یہ دین نہ صرف اپنا رنگ دکھا سکتا ہے بلکہ غالب بھی ہوسکتا ہے ۔
آج بھی’’ دارالاسلام‘‘ جیسے تحقیقی اداروںکو قائم کرنے کی اشد ضرورت ہے ۔جو ادارے قائم ہیں لیکن زبوں حالی اور زوال کی شکار ہیں، ان کو متحرک اور فعال بنانے کی ضرورت ہیں تاکہ ان اداروں سے ایسے باصلاحیت افراد تیار ہوجائیں جوزمانہ کے تقاضوں کے تحت علمی ، تحقیقی اور فکری کام انجام دے سکیں۔ یہی علامہ اقبال کے ملت پر عظیم احسانات کے قرضوں کی تھوڑی بہت ادائیگی کی ایک صورت ہوسکتی ہے۔
………………………….
رابطہ9045105059
������