عبدالصمد۔مہاراشٹر
آج جس دورسےہم گذررہےہیں اس کامحل وقوع ہمارااپنا بنایاہواہے ہماری غلطیاں کوتاہیاں،بےایمانیاں ہماری حرص و ہوس و خطاوں میں روزافزوں اضافہ کااحساس نہیں اسی طرح اللہ تعالی کی عطاکردہ نعمتوں کا ہم کواحساس نہیں اسراف ہماری عادت ثانیہ بن چکی ہے۔یوں توصدقات,ذکات کی ادائیگی کامعاملہ غنیمت ہے لیکن طریقہ کاراور ہد ف کے تعین میں خامیاں ہےگویا ہماری ترجیحات غلط ہےیا شرعی تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں ہیں۔ذکات کےاجتماعی نظم کاتو تصورہی ختم ہوگیاہےجوچیزاسلام کومطلوب ہی نہیں اسمیں ضر ورت سےزیادہ توانائی صرف کرناہماراشیوہ بن گیاہے۔عیدین کے موقعوں پر تو ہم اسراف، دکھاوے ،انّا اور دوسرے غیر شرعی کاموں میں مشغول رہتے ہیں۔ جب رمضا ن کا مہینہ آتا ہےتو اس کی چکاچونددیکھ کرایسالگتاہےجیسےیہ مہینہ محض کھانےکھلا نےہی کےلیےآیاہے،اگرچہ یہ مہینہ دراصل تربیت کامہینہ ہوتا ہے،جس میںخدائی احکام ہم سےتقاضہ کرتےہیں کہ اورانسانوں کادُکھ درد،بھوک پیاس کاہم کواحساس ہو۔اب جبکہ عید الاضحیٰ کی آمد آمد ہے ،جوکہ ہمیں جذبۂ قربانی کا درس دیتی ہےاور احکام خداوندی کے آگے سرنگوں ہونا سکھاتی ہےلیکن اس خوشی کے موقعے پر بھی ہم وہی کچھ کرتے رہتے ہیں جو غیر مسلم اپنے تہواروں پر کرتے رہتے ہیں۔اسلام امر بالمعروف یعنی ہر عمل خیر کے کرنے کی ترغیب دیتا ہے اور نہی عن المنکر یعنی ہر عمل شر سے بچنے کی تعلیم دیتا ہے، انہی امر بالمعروف یعنی عمل خیر میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اگر کوئی شخص اپنا مال یا سامان کسی مسلمان کے پاس بطور امانت رکھنا چاہے تو اس کو چاہئے کہ اگر وہ اُس مال یا سامان کی حفاظت کرسکتا ہے تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ و سلم کی سنت کے مطابق اُس مال یا سامان کو بطور امانت رکھ کر اپنے بھائی کی مدد کرے۔
خصوصاً اس عید پر اپنے اُن غریب و مستحق بہن بھائیوں اور ہمسایوں کا خیال رکھیں جو مالی پریشانی ،تنگ دستی یا بیماری کے باعث مایوسی کے عالم میں جی رہے ہیں۔ظاہر ہے کہ عبادتیں تووہی ہوتی ہیںجوہم کوتاحیات کرناہوتی ہیں۔لیکن عبادتوں کا اَجربھی بندوں کےواجب الاداحقوق کی ادائیگی سےمشروط ہے۔چنانچہ حکم ہےکہ میراشکراداکرنےکےلیےعیدگاہ آنےسےپہلےمحتاجوں اورمسکینوں کاحق اداکرناہوگا،اور قربانیاں بھی تبھی قبول ہوں گی جب حقوق العباد کا خیال رکھا ہوگا،ورنہ آپکی شکرانےکی نماز اور قربانی قبول نہیں ہوگی۔ اسی طرح اپنی حیات رہتےہوئےآپ کے ذمہ واجب الاداحق ادانہیں کیاگیا،ناانصافی کی ہو،ظلم کیاہو،کسی کوناحق دُکھ پہنچایاہو،پھرچاہےآپ کتنےہی عابد ہو،زاہدہو،تہجدگزارہواورحج وعمرہ کیاہو۔اگروراثت کی تقسیم اللہ کےحدودکےمطابق نہ کی ہو،بخشیش سےآپ محروم رہیںگےتاوقتیکہ فریقین نےآپ کومعاف نہ کردیاہو،ورنہ آپکی تمام نیکیاں فریقین میں تقسیم کردی جائیںگی اورآپکوجہنم کےحوالےکردیاجائے گا۔سوچئے !ہم اپنی اولادکےسکھ چین کےلیےکتنی تگ ودوکرتےہیں ،اپناپیٹ کا ٹ کردوسروں کاحق مارکراپنی اولادکےلیےپونجی جمع کرتےہیں،اس کےبدلےمیں ہم جہنم کاایندھن بنتےہیں۔اللہ تعالی قران شریف میں ارشادفرماتاہے:کوئی کسی کابوجھ نہیں اٹھائے گالیکن حقوق العبادکی عدم ادائیگی ایساگناہ ہے،ہم تومرنےکےبعدجہنم کاایندھن بنیںگےہی، ہماری اولاد دراولاد دنیامیں بھی بھگتےرہےگی ،وہ بھی سکون سےنہیںرہےگی ،آپکی عبادتوں کاخداتعالیٰ بزرگ وبرترمحتاج نہیں ہیں۔ غارحرامیں پہلی وحی نازل ہونےکےبعدنبی اکرم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گھرتشریف لائے، وحی کےبوجھ سےآپ پر خوف طاری تھا، تھوڑاافاقہ ہو توآپؐ نےحضرت خدیجتہ الکبری ؓکوواقعہ سناکرکہاکہ میں اپنےنفس پربوجھ محسوس کررہاہوں۔ ام المومنین حضرت خدیجہؓ نےآپ کوتسلی دیتےہوےفرمایاآپ گھبرائےنہیں! اللہ آپ کوضائع نہیں کریگا ،آپ تو لوگوںکےغمگسارہیں،غریبوں،بےکسوں اوربیواوں،مسافروں کی مددکرتےہیں،امانتدارہیں۔ یہ نہیںکہاکہ آپ رات دن خداےواحدذلجلال کی عبادت کرتےہیں۔ اس سےہمیں یہ درس ملتاہےکہ صلہ رحمی کرنااورلوگوں کےحقوق اداکرنےکی اسلام میں کیااہمیت ہے، ان کی ادئیگی درست ہےتوعبادت بھی درست اورقبول ہے۔ اللہ ہمیں ان اوصاف کاحامل بنائے اور احکام خداوندی اور سنت رسولؐ کے مطابق چلنے کی توفیق عطا کرے۔ آمین
[email protected]>