ہلال بخاری
خوف کے علاوہ کونسی چیز ہے جو انسان کو اسکی موت سے پہلے ختم کر سکتی ہے؟ خوف، ایک قدرتی چیز ہے، ہم اس سے بالکل بے نیاز ہوکے زندگی شاید ہی گزار سکتے ہیں۔ مقبول انگریزی شاعر ولیم ورڈسورتھ نے کہا تھا کہ خوبصورتی اور ڈر فطرت کے دو اہم جز ہیں۔انسان کی فطرت میں ہے کہ وہ خوبصورتی کی طرف کھنچا چلا جاتا ہے اور ڈر سے ہمیشہ بھاگتا رہتا ہے۔ ڈر یا خوف ایک ہی قسم کا نہیں ہوتا۔ بچپن میں ہم جن چیزوں سے ڈرتے ہیں ،جوان ہوکر ہم کو لگتا ہے کہ ہمارا ڈر کتنا احمقانہ جذبہ تھا۔ جب میں چھوٹا تھا تو ایک دن کسی مجبوری کے سبب اپنے گھر سے تھوڑے ہی فاصلے پر شام کے بعد مجھے کچھ کام آن پڑا۔ ایک ندی کے پاس ایک گہری کھائی سے میں بہت خوف زدہ ہوا۔ وہاں کچھ نہ تھا مگر میرے اندر کے ڈر نے مجھ پر غلبہ پالیا، اور سردی کے باوجود بھی میں پسینے میں بیگھنے لگا۔ کیونکہ ڈر ہمارے اندر سے ہی اکثر ایسا ماحول پیدا کرتا ہے جو باہر کے ماحول سے زیادہ خوفناک اور ناقابل برداشت ہوجاتا ہے۔ اُس شام جب میں بہت ڈر چکا تھا، تو مجھے یاد ہے کہ میں نے ایک ہوائی جہاز کی آواز سنی۔ پہلے مجھے یہ آواز بھی آسیب زدہ لگی مگر پھر میرے ذہن نے سنبھلنے کی ٹھان لی۔ ڈر کے وقت اکثر جب ہمارا ذہن کام کرنا ترک کرتا ہے تو ہم خوف کے سامنے بے بس ہوجاتے ہیں۔ مجھے یہ احساس ہوا کہ یہ کوئی بھوت نہیں بلکہ ہوائی جہاز ہے، جو آسمان کی بلندیوں میں تیر رہا ہے۔ پھر مجھے اپنی سادگی کا اندازہ ہوا۔ میں نے سوچا کہ میں گھر سے صرف چند فاصلے پر نکل کر کتنا ڈر رہا ہوں اور وہ خدا کا بندہ جو سینکڑوں میل ہم سے دور ہوائی جہاز چلا رہا ہے، کتنا بے خوف و خطر اپنی اڑان میں مست ہے۔ اکثر ہمارے ڈر کے موجد ہم خود ہوتے ہیں۔ اس پر قابو کرنا بھی ہمارا ہی کام ہوتا ہے۔
ڈر جس قسم کا بھی ہو ہم کو پست ہمت اور بے بس کر دیتا ہے۔ طلاب اکثر امتحان سے ڈرتے ہیں۔ اگر ایک طالب علم ہمت سے کام لے تو دنیا کا کوئی امتحان ایسا نہیں، جس میں کامیابی ناممکن ہو۔کچھ لوگ بر وقت فیصلہ کرنے سے ڈرتے ہیں حالانکہ ہم جانتے ہیں کہ قسمت ہمیشہ ان لوگوں کا ساتھ دیتی ہے جو بہادر ہوں اور بر وقت فیصلہ کرنے کے قابل ہوں۔ڈر ہر کسی کو آتا ہے لیکن دنیا میں کامیابی صرف ان لوگوں کے قدم چومتی ہے ،جو ڈر کے بھی آگے بڑھتے ہیں۔ اگر ڈر آپکو روک لے تو جان لو کہ ڈر کے رُکنے والوں کا انجام پستی اور ڈر کے آگے بڑھنے والوں کا انجام بلندی ہے۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ ڈر کے آگے ہی جیت ہے۔ کامیابی اصل میں اپنے ڈر اور خوف پر غلبہ پاکر آگے بڑھ جانے کا دوسرا نام ہے۔زندگی ڈر ڈر کے جینے کا نہیں بلکہ ڈر کے آگے بڑھ کے ہر خوف سے ہمت سے لڑنے کا نام ہے۔دنیا میں کوئی ایسا خوف نہیں جس پر ہم غلبہ پانے کے اہل نہ ہوں ۔ہم کو یونہی اشرف کا خطاب نہیں ملا ہے، اور یہ خطاب ہم سب کا یکساں ہے۔ اس میں مذہب ، ذات، رنگ یا جنس میں کوئی فرق نہیں۔اگر خوف ہمارا فطری جذبہ ہے تو ہمت اس سے کچھ کم نہیں ہے۔
خوف ہے اک مہمان تو ہمت کر انسان
ڈر ہی ڈرجائے گاتو اپنی قیمت جان
9622791038
<[email protected]>