ہفتہ عشرہ قبل ریاست کے گورنر ستیہ پال ملک نے خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا کہ جب سے اُنہوں نے ریاستی گورنر کا عہدہ سنبھالا ہے تب سے لے کر اب تک 40؍جنگجو جاں بحق ہوئے۔جنگجوؤں کو وہم گمان سے باہر آنا چاہیے کہ اُن کی زندگی طویل ہوگی ۔انہوں نے یہ بھی کہا کہ ریاست کا نوجوان نہ صرف دلی سے بلکہ پاکستان ،مقامی سیاسی جماعتوں اور حریت نواز وں سے بھی خفا ہیں ۔ گورنر ملک نے یہ دعویٰ بھی کیا کہ کشمیر میں اس وقت 400؍جنگجو سرگرم ہیںاور بھارت جیسے ملک کے سامنے400جنگجوؤں کا صفایا کرنا کوئی بڑی بات نہیں، مگر مسئلہ جنگجوؤں کا نہیں بلکہ اصل معاملہ جنگجوئیت کاخاتمہ ہے ۔اسی طرح کا ایک اوربیان ناگپور میں آر ایس ایس کے مرکزی دفتر پرسنگھ کے 93؍ویں یومِ تاسیس پر منعقد ہ ایک تقریب میں آر ایس ایس کے سربراہ موہن بھاگوت نے اپنی تقریر میں دیا کہ کشمیر میںہمیں عسکریت ہر حال میں کچلنی ہوگی۔اس نوعیت کے بیانات اہل کشمیر کو وقفے وقفے سے سننے کو ملتے رہتے ہیں ۔ ان میں کہاں تک صداقت اور تدبر جھلکتا ہے ،اس نقطے سے قطع نظر جب ہم کشمیر کی مظلومانہ تاریخ کے اشک اشک اوراق پر نظر ڈالیں تو اس بدقسمت ریاست کے بارے میں معلوم ہوگا کہ 1931ء سے یہاں صرف خون خرابہ اور توڑ پھوڑ ہی دیکھنے کو ملی ہے۔ ا س تاریخ کا غیر جانب دارانہ تجزیہ کیجئے تو محسوس ہوگا کشمیر کا ہر دن کربلا اور ہر شام شام ِغریباںبنتی رہی ہے۔ہم یہ بھی دیکھیں گے کہ جموں میں 1947ء میں کس طرح لاکھوں نہتے کلمہ خوانوں کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کر تاریخ کا سیاہ ترین باب رقم ہوا۔اسی طرح سنہ 90سے آج تک کشمیر میں ہزاروں بیواؤں اور لاکھوں یتیموں کی فوج تیار ہوگئی اور یہ سلسلہ کہیں رکنے کا نام نہیں لیتا۔اس خونین داستان کے خاتمہ بالخیر کے نام پر وقت وقت کی انڈو پاک لیڈر شپ نے کشمیر کا مذاکراتی حل اور امن و انصاف کے جھوٹے دلاسے دئے ۔ اس جھوٹ کا بھرم رکھنے کے لئے قومِ کشمیر سے وقتاً فوقتاً ووٹ بھی ما نگے گئے۔ ہم زیادہ دور کیوں جائیں ،2014ء میں پی ڈی پی نے ریاست میں بی جے پی کے ایڈوانس مارچ کو ریاست بھر میںروکنے کے عنوان سے کشمیری عوام کو باعزت امن ، زخموں پر مرہم اور گولی نہیں بولی کے وعدے دے کر ان کے ووٹ بٹورے مگر وقت آنے پر وشواس گھات کر کے سنگھ پریوار کے ساتھ ساجھی سرکار کو ہی اپنا کعبہ ٔ مقصود بنایا۔ اس نے اقتدار سنبھال کر مزے لوٹ لئے مگرکشمیر کو جھلستی آگ میں کھلم کھلاپھینکتے ہوئے ۔ آج کی تاریخ میں جب کرسی پی ڈی پی سے چھین لی گئی ہے تو اسے کشمیری قوم ا س درجہ یاد آرہی ہے کہ این سی کی طرح بلدیاتی اور پنچایتی الیکشن کابائیکاٹ کر گئی۔ حالانکہ ا صل میں یہ دونوں جماعتیں کشمیری عوام کا آمنا سامنا نہیں کر سکتیں کیونکہ وہ قبریں تازہ اور وہ کفن خون سے ابھی بھیگے ہوئے ہیںجو انہوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں دلی کی وفا میں کشمیری قوم کے نام کردیں ۔
کشمیر کاز ایک مبنی برحق سیاسی مسئلے کی دین ہے ،اس کی پشت پر اقوم متحدہ کی قراردادیں ہی نہیں بلکہ تین ہند پاک جنگیں، جنگ بندیاں ، روس اور امریکہ کی مصالحتیں ،متعدد معاہدے، سمجھوتے ، اعلامیے اور مذاکرات کی ایک لمبی چوڑی تاریخ کے ساتھ ساتھ کشمیری قوم کی بے تحاشہ قربانیاں اور ان پر پڑے بھاری نقصانات ہیں۔ تاریخ کے اس ناقابل تردید سچ کو بزورِ بازو یاسامان ِ حرب و ضرب کے بل پر کتنا بھی نکارا جائے پھر بھی یہ چمکتے سورج کی طرح ایک سیاسی حقیقت ہے کہ کشمیرایک حل طلب مسئلہ ہے جس کے تین فریق ہیں : اول ریاستی عوم، دوم انڈیا،سوم پاکستان۔ آج نہیں تو کل ان تینوں کو مل بیٹھ کر اور سر جوڑ کر خلوص نیت ، انصاف ،عقل اور برصغیر کی تعمیر وترقی کے جذبے سے ہارجیت کی نفسیات سے اوپر اٹھ کر اس مسئلے کو حل کر ناہوگا۔ اصول یہ ہے کہ یکسان جوہری طاقت والے دوہمسایہ ملکوں میں جنگ وجدل اور تحریب کاری کی نہیں بلکہ بقائے باہم ، افہام وتفہیم اور حُسن تدبر کی ضرورت ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ سیاست دان جانتے بوجھتے اپنے ووٹروں کا موڈ اچھا رکھنے کے لئے کشمیر پر ایسے ایسے بد دماغ بیانات دے رہے ہیں جو مسئلہ کشمیر کو سلجھانے کی بجائے اُلجھا رہے ہیں ۔
افسوس اس بات کا ہے کہ دلی کے حکمرانوں نے ہمیشہ اپنی سیاسی اور معاشی کارگزاریوں کے تعلق سے بُری طرح کی ناکامیاں قوم کے روبرو چھپانے کے لئے کشمیر کوایک کارڈ کے طور استعمال کیا۔اس کارڈ کو کھیل کھیل کر انہوں نے ایک ایسا لاوا نما مائنڈ سیٹ تعمیر کیا کہ کشمیر کے درد سر سے چھٹکارا پانے کے لئے وہ آؤٹ آف بوکس حل یا بیچ کی راہ نکالنے کی پوزیشن میں ہی نہیں، نتیجہ یہ کہ اب دکھاوے کی بات چیت سے بھی پر ہیز ہے بلکہ آر پار کو جیو اور جینے دو بھی ملک سے جفا کاری لگتی ہے ۔ یہ آج کی ہی بات نہیں بلکہ پہلے بھی حکمرانوں نے کشمیر کے بارے میں صرف اپنی خود غرضیاں عزیز رکھ کرمعاہدوں کی مٹی پلید کردی ، وعدوں کو توڑ ا ، قول وقرارسے انحراف کیا۔اس طر زعمل سے کشمیر میں بسنے والے لاکھوں انسانوں سمیت برصغیر میں غیر یقینیت اور مایوسی کے بادل چھائے ہوئے ہیں ۔ طرفہ تماشیہ یہ ہے کہ کشمیرظلم و جبر کی چکی میںسترسال سے پس رہاہے اور دلی جمہوریت کا تماشہ بناکرکشمیر میں الیکشن ڈھونگ رچاتی جارہی ہے تاکہ دنیا کو تاثر ملے کہ کشمیر میں جمہوریت اور امن ہے لیکن جب اصل حقیقت کا پردہ سرک جاتا ہے تو دنیا کویہاں چنگیزیت اور بربریت ہی نظر آ تی ہے۔ اتنا ہی نہیں بلکہ ایک منظم پیٹرن کے تحت خصو صاً کشمیری کو کشمیری کے ساتھ لڑایا جا رہا ، اس دو طرفہ آویزش میں چاہے کوئی پولیس اہل کار ہلاک ہو ، کوئی عام شہری یا عسکریت پسندکشمیری مائیں بہنیں ہی لاچارہو جاتی ہیں ، یہاں کے بچے ہی تو یتیم ویسیرہو رہے ہیں ، سیاست دانوں کا کیا بگڑتا ہے؟ وہ کشمیر میں ’’سب کچھ ٹھیک ہے ، امن ہے ، نارملسی ، سیاحت ہے ، تعلیم و تدریس ہے جیسے دعوؤں سے اپنی عیاشیاں اور خاندانی راجوں کی تعمیر کر تے جارہے ہیں۔ بلاشبہ ا فسپا کے زور پر اور سات لاکھ فوج کے بل پر ساری کشمیر آبادی یرغمال بنی ہے اور حالت یہ ہے کہ کسی کوپتہ نہیں اگلے لمحہ ا س کے گردوپیش میں کیا ہو گا ، کب کون سی بستی فوجی محاصرے میں آئے گی ، کب گولیوں کی گھن گرج سے جانی اتلاف اور بربادیوں کی کہانی لکھی جائے گی ، کب جنازے اٹھیں گے ، کب مظاہرے ہوں گے ، مطلب یہاں ہر ایک کی گردن بندوق کے نشانے پر ہے۔ بنابریںیہاں موت اتنی سستی ہو گئی ہے کہ اب بے گناہوں کا بغیر کسی جواز کے قتل کیا جا رہا ہے ، صنف ِنازک عدم تحفظ کے سائے میں جی رہی ہے اور عام لوگ بے کیف زندگیاں گزار رہے ہیں۔ 19؍ اکتوبر کو ایسی ایک اور ناگفتہ بہ مثال شادی مرگ پلوامہ میں قائم ہوئی۔ عسکریت پسندوں کی طرف سے فوجی کیمپ پر مبینہ حملے کے بعد فائرنگ میں 6ماہ کی حاملہ ایک خاتون جاںبحق ہوئی۔مقامی لوگوں کے مطابق اس روز قریب 7بج کر10منٹ پر انہوں نے شادی مرگ کیلر روڑ پر واقع 44آر آر کیمپ کی طرف ایک دھماکے کی آواز سنی جس کے فوراًبعدفورسز نے اندھا دھند فائرنگ کی کہ پورے علاقے میں خوف و دہشت کا ماحول قائم ہوا۔ عینی شاہدین کے مطابق فردوسہ اختر زوجہ خورشید احمد اپنے مکان کے صحن میں ا س وقت نلکے پر برتن دھو رہی تھی کہ فوج کی ایک گولی راست اس کی گردن میںپیوست ہو ئی ، خون سے لت پت فردوسہ ضلع اسپتال پہنچائی جہاںسے اس حاملہ خاتون کی لاش ہی لوٹی ۔اسی طرح کا ایک اور الم ناک واقعہ 17؍ اکتوبر کو شہر خاص فتح کدل سرینگر میں وقوع پذیر ہو ا۔ یہاں فوج اور عسکریت پسندوں کے مابین ایک خونین معرکے میں دوعسکری نوجوان معراج الدین بنگرو اور اس کا ساتھی فہد احمد وازہ کے علاوہ مکان مالک کا بیٹا رئیس احمد بر سر موقع جاں بحق ہو گئے۔ جوان سال رئیس احمد نے اپنے پیچھے بیوہ کے علاوہ اپنے واحد کم سن بیٹے کو چھوڑ ا۔ اگر چہ رئیس احمد عام شہری تھا مگرپولیس کا دعویٰ ہے کہ وہ عسکریت پسندوں کے ساتھ کام کرتا تھا، اس کے لواحقین اس پولیس تھیوری کو ردکرتے ہوئے کہتے ہیں کہ رئیس احمد کا کسی بھی عسکری جماعت سے کوئی تعلق نہ تھا۔رئیس کی والدہ کا دعویٰ ہے کہ ا س کے جگرگوشے کو فورسز نے شدید ٹارچر کا نشانہ بنا کر ابدی نیند سلا دیا۔ ناقدین کہتے ہیں کہ اس قسم کے دل دہلا دینے والے واقعات حادثاتی نہیں بلکہ ایک منظم سوچ کے تحت کشمیریوں کو جان بوجھ کر مارا جا رہا ہے۔اس کی ایک واضح مثال 21؍ اکتوبر کی صبح کو لارو کولگام کا معرکہ بھی ہے ، یہاں عسکریت پسندوں اور فوج کے مابین جھڑپ میں تین مقامی عسکریت پسند جاں بحق ہو گئے۔بعدازاں لوگوں کا ایک ہجوم زور دار احتجاج کرتے ہوئے جھڑپ کی جگہ پرپہنچاہی تھا کہ جائے وقوعہ پر ایک زور دار شل پھٹ جانے سے 8؍مزید کشمیری نوجوان موقع پر ہی جاں بحق اور درجنوں زخمی ہو گئے ۔اس دلدوز سانحہ اور کرب انگیزمنظر پر پورا کشمیر سوگوار ہو ا۔
کشمیرمیں شاید ہی کوئی دن ایسا ہو جب یہاں کوئی نہ کوئی دلخراش خونی واقعہ رونما نہیں ہوتا۔ اب تو کشمیر کا مزاج ہی کچھ ایسا بنا ہے کہ جس دن اخبارات میں کسی دلخراش واقعے کی خبر نہیں ہوتی ،اس دن لگتا ہے کہ ہم کشمیر میں نہیں، کسی اور ہی ملک میں ہیں۔ بڑے دُکھ کی بات ہے کہ کشمیر میں قتل وغارت کا یہ تانڈو ناچ اور شبانہ روز روح فرسا واقعات اندھی دنیا کو نظر نہیں آرہے ہیں۔بے شک اس طرح کے خون آشام واقعات ملک ِشام میں دیکھے جاتے ہیں جہاں قاتل بشارالاسد کی ظالم فوج بم اور بارود برسا کر معصوم بچوں کے چیتھڑے ہو امیں اُڑاتی پھر رہی ہے ، انسانی کھالیں اڈھیڑنے کے وحشیانہ چھل کپٹ فلسطین میں اسرائیل کے ہاتھوں ہوتے ہوئے دیکھے جارہے ہیں ، دنیا افغانستان میں امریکہ کے زیر کمان نیٹو فوج کا قہر بھی دیکھ رہی ہے ،اراکان اور شیشان میں معصوم انسانوں کی چیڑ پھاڑ بھی نوٹ کی جا رہی ہے ،عراق میں مساجد و مدارس کی خاکستری بھی دیکھی جارہی ہے۔غرض دنیائے انسانیت نے دنیا میں انسانی روح کو بے چین کر نے والے تمام شرم ناک اور ناقابل برداشت مناظر دیکھے جارہے ہیں مگر دنیا کو اگر کچھ نظر نہیں آتا تووہ کشمیر کاالمیہ ہے ۔اس کی بہت ساری وجوہات میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عالمی میڈیا کشمیر کی دلدوز کہانی کوتوجہ اور سنجیدگی سے پیش ہی نہیں کرتا، جب کہ ہندوستانی میڈیا اس جہنم کو جنت کے روپ میں اور یہاں کی سیاسی بے چینی کو سر حد پار دہشت گردی کے عنوان سے رائے عامہ کو غلط خطوط پرا ستواراکر تاجاتاہے ۔ اس کور دماغ اور یک چشمی میڈیاکوامریکہ،فرانس اور روس میں ہورہے حالات اور واقعات کے پل پل کی خبر ہوتی ہے مگر کشمیر میں انسانیت کو تڑپتے اور مرتے ہوئے درد ناک مناظر اسے نظر ہی نہیں آتے ۔ حق مخالف میڈیا کی من گھڑت خبروں اور رپورٹوں کا ہی شاخسانہ ہے کہ ہندوستان میں کشمیری طلبہ وطالبات اورتاجروں کے آئے روزجان کے لالے پڑتے ہیں اور ان کی زندگیاں عذاب بنا دی گئی ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ اگر کوئی صحافی اور دانش ور حب الوطنی کے اَتھاہ جذبے سے کشمیر کاز کوبے باکانہ طریقے پرسچائی لوگوں تک حقیقت پہنچانے کی کوشش کرے تو وہ اپنی موت کو گویادعوت دیتا ہے، انتہا پسند جماعتیں اُسے دھمکیاں دیتی ہیں، نفرت کے سوداگر اس کی ہندوستانیت پر انگلی اٹھاتے ہیں ۔ ہمارے سامنے کھٹوعہ کیس کی ایک چشم کشامثال ہے ، کشمیر کی ایک مایہ ناز پنڈت بیٹی ایڈوکیٹ دیپکا سنگھ رجاوٹ کی زندگی پر خطرات کے بادل ہمہ وقت منڈلا تے رہتے ہیں کیونکہ وہ آصفہ کا مقدمہ لڑرہی ہیں، ان کو دھمکیاں ، گالیاں ، طعنے سب کچھ سننا اور سہنا پڑتے ہیں اور کورٹ کچہری میں ہی نہیں بلکہ گھر کی چار دیواری میں بھی وہ خود کو غیر محفوظ سمجھتی ہے ، انہیں اپنی چار سال بیٹی کے مستقبل کی فکر کھائے جارہی ہے۔ قصور یہ ہے کہ وہ مذہب سے بالاتر ہو کرحق وانصاف کی بازی جیت کر ایک مظلومہ بچی کو انصاف دلانا چاہتی ہیں ۔ ہمارے سامنے گوری لنکیش جیسی حق گو خاتون صحافی اور پروفیسر کلبرگی جیسے مثالیں موجود ہیں ۔
ایسے عالم میں ایک امید یہی ہوسکتی ہے کہ عالمی ادارہ آگے آئے مگر ناقابل تردید سچ یہ ہے کہ اقوام متحدہ اور دنیا کے دیگر سرکردہ ممالک کشمیر کو جان بوجھ کر نظر انداز کر کے اس جُرمِ عظیم میں شریک کار ہیں جن کا کشمیر یوں کو سامنا ہے ۔یہ نہیں چاہتے کشمیرکا مستقل بنیادوں پر کوئی متفقہ اور آبرو مندانہ سیاسی تصفیہ ہو کیونکہ اگر ایسا ہو اتو اسلحہ سازی کی اُن کی منافع بخش صنعت کو کوئی تھوکے گا بھی نہیں ۔ یہی چیزیں ان کی معاشی خوش حالی اورعالمی چوھراہٹ کی ضامن ہیں ۔ بایں ہمہ دنیا کی تاریخ بتلاتی ہے کہ کس بھی قوم اور ملک کی سیاسی آرزؤں کو طاقت کے بل بوتے پر زیادہ دیر دبایا نہیں جاسکتا،ظلم کی رات کتنی بھی گھور اندھیرہو اُسے بالآخر سپیدہ ٔ صبح کے سامنے فنا ہونا ہی پڑتا ہے ۔کشمیر کے حوالے سے دلی کی پالیسیاں منفی ہونے میں دورائے نہیں لیکن مسئلہ کشمیر کے اہم فریق پاکستان کی لیڈر شپ بھی جلسے جلوسوں میں کشمیر کشمیر چلّاتی رہتی ہے ، دھواں دار تقریریں بھی جھاڑتی ہے اور المیہ یہ ہے کہ اقتدار کی مصلحتوں اور امریکہ کی پشتینی غلامی کے سبب پاکستانی حکومت کشمیر پر زبانی جمع خرچ سے آگے نہیں بڑھتی ۔ وہاں کا میڈیا بھی ٹھوس طریقے سے دنیا کے سامنے کشمیر میں بشری حقوق کی بگڑتی صورت حال کو اُجا گر کر نے میں تساہل یا تجاہل برت لیتا ہے ۔ مختصراًدونوں حکومتوں کو چاہیے کہ اگر وہ واقعی تعمیر وترقی اور نیک ہمسائیگی چاہتے ہیں اور اپنے کروڑوں لوگوں کو بھکمری ، بیماری اورناخواندگی سے نجات دلاناچاہتے ہیں تو پہلی فرصت میں کشمیر کا مسئلہ ٹھوس طریقے سے بات چیت سے حل کریں تاکہ بر صغیر میں نفرت وعناد کے شعلے خدانخواستہ ایٹمی جنگ کا روپ دھارن کر کے دونوں ملکوں کوصفحہ ہستی سے مٹانے کا باعث نہ بنیں۔