امتیاز خان
وادی کشمیر میں خودکشی کا بڑھتا ہوا رجحان ایک سنگین مسئلہ بنتا جا رہا ہے۔ آئے روز اخباروں یا سوشل میڈیا پر یہ خبریں ملتی ہیں کہ ایک نوجوان لڑکے یا لڑکی نے جہلم میںچھلانگ لگاکر،گلے میں پھندا ڈال کر یا زہریلی شے کھا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کردیا ۔عالمی ادارئہ صحت (ڈبلیو ایچ او)کے مطابق دنیا میں ہر سال کم و بیش آٹھ لاکھ افراد خودکشی کرتے ہیں یعنی اوسطاً ہر 40 سیکنڈ میں ایک شخص اپنی زندگی کا چراخ اپنے ہی ہاتھوں بجھا دیتا ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق خودکشی کا سب سے زیادہ رجحان روس، مشرقی یورپ، بھارت اور چند مغربی افریقی ممالک میں زیادہ ہے جہاں اوسطاً ایک لاکھ افراد میں 15 یا زائد افراد ہر سال خودکشی کرتے ہیں۔تشویشناک معاملہ یہ ہے کہ نوجوانوں میں تشویشناک حد تک تیزی آ گئی ہے جو اس سائنسی اور سمٹتے فاصلوں کے دور میں حیرت انگیز بلکہ لمحہ فکریہ ہے۔
نیشنل کرائم ریکارڈس بیورو(این سی آر بی)کے مطابق ہندوستان میں سالانہ ایک لاکھ 65ہزار افراد کے قریب لوگ خودکشی کرتے ہیں۔اگرچہ وادی کشمیر میں اس انتہائی اقدام کی مثالیں ماضی میںکم دیکھنے کو ملتی تھیں لیکن گزشتہ برسوں میںیہاں بھی خودکشی کے ایسے واقعات دیکھنے کو ملے ہیں جو معاشرے کو جھنجوڑنے کے لیے کافی ہیں۔
اکثر خودکشی کرنے والوں کے بارے میں قیاس آرئیاں کی جاتی ہیں کہ وہ کسی پریشانی کا شکار تھا یا اسے کوئی کوئی سنگین مسئلہ درپیش تھا جس کی وجہ سے اس نے زندگی کو خیر باد کہہ دیا حالانکہ محققین ایسی قیاس آرائیوں کو غلط قرار دے رہے ہیں۔ہمارے پاس متعدد ایسے لوگوںکی مثالیں ہیں جنہیں زندگی کی تمام سہولیتیں میسر تھیںلیکن انہوں نے بھی خود کشی کی تو مطلب یہ ہوا کہ زندگی کے تکالیف اور مصائب کا خود کشی سے اتنا گہرا تعلق نہیں جتنا عمومی طور پرجوڑا جاتا ہے۔
نوجوانوں میں پروان چڑھتے خود کشی کے رجحان کی تشویش نہایت اہم مگر یہ ایک متزلزل اور کمزور معاشرے کی علامت ہے۔ معاشرہ چاہے ٹیکنالوجی اور معیشت کے لحاظ سے کتنا ہی ترقی یافتہ کیوں نہ ہو لیکن اگر کسی طبقہ کیلئے معاون نہیں تو یہ ایک عیب اور خلاء ہے جسے پر کیا جانا لازمی ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ نوجوانوں میں خودکشی کا رجحان ہر معاشرے میں پروان چڑھ رہا ہے جبکہ سہولیات، جدت اور پہنچ سب کیلئے ممکن ہو رہی ہے تو پھر ایسا کیوں ہے؟
مشاہدے سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ آج کا نوجوان جو پیدائشی طور پر بہت ذہین لیکن مناسب ہمہ گیر شخصی تربیت اور سوچ کے صحت مند تنوع میں معاونت سے یکسر نہیں تو بہت حد تک محروم ہے، جس کی برابر ذمہ داری والدین و اساتذہ کے ساتھ خود نوجوان طبقہ پر بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کا نوجوان پچھلی نسل کے مقابلے میں نصائح، تربیت اور تجربات کے بجائے صرف ذاتی مشاہدے کے زیر اثر پروان چڑھ رہا ہے۔ ظاہر ہے اگر اکثریت مناسب تربیت اور رہنمائی سے محروم ہوگی تو ہر ایک اپنی استعداد اور بساط کے مطابق اور حالات و واقعات کے تحت حقیقتوں کو سمجھے گا جو اس بڑھتی عمر میں اس کا’یقین‘ ثابت ہوگا۔یقین بنیادی سوچ کا وہ محور ہے جو بہت سے محرکات کا منتج ہوتا ہے۔ یہ بہت سی جگہوں پر معاون بھی ہوتا ہے لیکن اس کی ایک خرابی اس کا بے لچک ہونا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ کسی واقع یا کسی خاص مشاہدے کے نتیجہ میں پروان چڑھنے والے یقین کے سہارے زندگی بسر کرنے والے عموماً فیصلہ کے معاملہ میں عجلت پسندی کے قائل ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کی اکثر بے بنیاد باتوں پر بھروسہ کرتے ہیں اور انہی پر فیصلے بھی کرتے ہیں جس کے باعث جب یہ اپنے آپ کو بند گلی میں محسوس کرتے ہیں تو اسی عجلت پسندی کے سبب خود کشی پر مائل ہو جاتے ہیں۔
خودکشی کرنے والا اپنے بعد ایک سوال ضرور چھوڑ جاتا ہے کہ آخر اس نے خود کشی کیوں کی؟کیا وہ زندگی سے اس قدر تنگ اور مایوس تھا یا اس کے حالات ایسے تھے کہ اس نے موت کو ہی گلے لگا لیا۔معاشی اور سماجی ماہرین خود کشی کے واقعات کے بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ مہنگائی، معاشی مسائل، وسائل کا مخصوص طبقات تک ارتکاز، ملازمتوں کے مواقع کم ہونے اور مجموعی اقتصادی صورتحال کو قرار دیتے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ مسائل چاہے سماجی یا معاشی ہوں یا خاندانی، خودکشی جیسے انتہائی اقدام کرنے والے پہلے ڈپریشن کا شکار ہوتے ہیں۔ وہ امید اور کوشش کو چھوڑ چکے ہوتے ہیں اور افسردگی کو طاری کر لیتے ہیں۔ ڈپریشن میں پہنچ کر ایسے افراد کو کوئی حوصلہ نہیں ملتا۔ آخر میں ان کے پاس خود کشی کے علاوہ کوئی اور راستہ نہیں ہوتا۔
زندگی حقیقت میں سانپ سیڑھی کا کھیل ہے جس میں پل میں خوشی تو پل میں صدمہ کا سامنا ہوتا ہے۔ انسان صدموں کا مسرتوں کی طرح منتظر نہیں رہتا جبکہ دونوں صورتیں امکان اور اختیار دونوں لحاظ سے متماثل ہیں۔ عموماً زندگی کے یہی زیر و بم جب تلاطم کی شکل اختیار کرتے ہیں تو ذہنی خلفشار کو جنم دیتے ہیں، یہی وہ وقت ہوتا ہے جب خطرے کی گھنٹی بجتی ہے لیکن اسے سننے یا اس پر متوجہ ہونے والے کم ہی ہوتے ہیں تاوقتیکہ یہ خلفشار غیر متوقع اور ناپسندیدہ نتائج و حالات کے سبب ذہنی دبائوکی شکل اختیار کرلیتا ہے جو بالآخر مایوسی کے دلدل میں دھکیل دیتا ہے۔
خودکشی کرنے والا آسانی سے اس کا ارتکاب نہیں کرتا بلکہ وہ سخت تکلیف میں مبتلا ہوتا ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزشن کے مطابق دنیا بھر میں تقریباً 28کروڑ سے زائد افراد ڈپریشن کا شکار ہیںجن میں چین، بھارت، امریکہ ،برازیل اور بنگلہ دیش سرفہرست ہیں۔ عالمی سروے کے مطابق ہر چوتھا شخص اور ہر دسواں بچہ ذہنی صحت کے مسائل کا شکار ہے۔ خود کشی کرنے والوں کی ذہنی صحت بھی متاثر ہوتی ہے۔
زندگی کے بنیادی مسائل نوجوانوں کے مزاج پر تیزی سے اثر انداز ہو رہے ہیں۔ ایک جانب اس سے نمٹنے کے لیے اہم ذمہ داری جہاں خاندان کی ہے وہیں ریاست کی بھی ذمہ داری بنتی ہے۔نوجوانوں کی صحت، تعلیم، روزگار اور دیگر بنیادی مسائل کے حل کیلئے مؤثر انتظامات اور مواقع فراہم کرنے پر توجہ مرکوز کی جائے۔ خودکشی کا عمر سے کوئی تعلق نہیں لیکن خودکشی کی وجوہات ضرور ہوتی ہیں۔دیکھا گیاہے کہ موجودہ دور میں اکثر لوگ بے حس بن چکے ہیں۔احساس سے کھوکھلا سماج ہم سب کو دیمک کی طرح کھانے لگا ہے اور ہم اپنی معمول کی زندگی میں اتنے مگن ہیں کہ خوشی سے اس دیمک کی کھاد بنتے جا رہے ہیں۔ حالیہ برسوں میں خودکشی کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے جو کہ ہم سب کیلئے ایک خطرناک سائرن ہے۔ ہمیں ہوش کے ناخن لینے کی اشد ضرورت ہے۔ ہمیں اپنے بچوں سے لیکر گھر کے تمام افراد تک سب کو ایک دوسرے سے قریب رہنے کی ضرورت ہے۔ یہ واحد قربت ہے جو چھوٹے چھوٹے اختلافات دور کرنے میں مدد کر سکتی ہے اور ہر مسئلے کا واحد حل گفتگو ہے۔ جہاں گفتگو ہوتی ہے وہاں مسائل کم ہوتے ہیں اور جہاں انا ضد اور پھر اختلافات کی بنیاد پر دوریاں بڑھ جاتی ہیں وہاں مسائل مزید بڑھ جاتے ہیں جو کہ ہمارے معاشرے کا بہت بڑا المیہ ہے۔
اسلام کی نظرمیں خودکشی ایک سنگین جرم ہے؟ یہ در اصل زندگی کے مسائل اور مشکلات سے راہِ فرار اختیار کرنا ہے اورآزمائشوں اور اپنی ذمہ داریوں سے بھاگ نکلنے کی ایک غیر قانونی اور ایک غیر انسانی تدبیر ہے۔درحقیقت انسان کا اپنا جسم اور زندگی اس کی ذاتی ملکیت اور نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی عطا کردہ امانت ہے۔یہ ایک ایسی عظیم نعمت ہے جو بقیہ تمام نعمتوں کیلئے اساس کی حیثیت رکھتی ہے۔ اسی لئے اسلام نے جسم و جاں کے تحفظ کا حکم دیتے ہوئے اس امر کا پابند کیا ہے کہ وہ بہرصورت زندگی کی حفاظت کریں۔
لوگ خود کشی کیوں کرتے ہیں ؟یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا سامنا ہم سب کو کبھی نہ کبھی کرنا پڑتا ہے۔ہم سب خودکشی کی خبریں سن کر افسوس اور وایلا ضرور کرتے ہیں لیکن اس انتہائی اقدام کے وجوہات کا پتہ لگانے میں دلچسپی لینے کی کوشش نہیں کرتے ہیں۔ضرورت اس بات کی ہے کہ خودکشی کے اخلاقی اور سماجی نقصانات لوگوں کو بتائے جائیں، سماج میں لوگوں کی تربیت کی جائے کہ وہ تنگدستوں اور مقروضوں کے ساتھ نرمی اورتعاون کا سلوک کریں، گھر اور خاندان میں محبت اور پیار کی فضا قائم کریں ، رسم و رواج کی جن زنجیروں نے سماج کو زخمی کیا ہوا ہے، ان کو کاٹنے کی کوشش کریںاور جو لوگ ذہنی تنائو سے دو چارہوں یا مشکلات میں ہوں، ان میں جینے اور مسائل و مشکلات سے نبرد آزما ہونے کا حوصلہ پیدا کریں۔