صداقت علی ملک
جموں کی رات دھند میں لپٹی ہوئی تھی۔ سردی کی شدت باوجود ریلوے اسٹیشن کے ایک کونے میں دو لڑکے بستے کندھوں پر لٹکائے کھڑے تھے۔ ان کے چہروں پر تھکن نمایاں تھی، لیکن ان کی آنکھوں میں ایک خاص چمک تھی۔ یہ چمک ان خوابوں کی تھی جو ان کے دلوں میں پل رہے تھے۔ یہ شاداب اور زاہد تھے، دو دوست جو دن کو طالب علم اور رات کو مزدور بن کر اپنی زندگی کی کہانی لکھ رہے تھے۔ دونوں کی تقدیر نے ان کو کم عمری میں ہی جفاکش زندگی گزارنے پر مجبور کر دیا تھا لیکن ان کے دلوں میں خوابوں کا ایک جہاں تھا جو کبھی ٹوٹنے والا نہ تھا.
شاداب کا تعلق ایک غریب مزدور خاندان سے تھا۔ اس کے والد نوشاد احمد دن بھر اینٹیں ڈھوتا تھا اور اس کے لیے زندگی کا مقصد صرف یہ تھا کہ اپنے بیٹے کو اچھے اسکول میں تعلیم دلائے تاکہ وہ اس کی طرح سخت زندگی نہ گزارے۔ شاداب کی والدہ حلیمہ ایک اسکول میں چھوٹے کام کیا کرتی تھی تاکہ گھر کا خرچ چل سکے۔ زاہد کا والد فتح محمد بھی مزدوری کرتا تھا اور ہر دن نئی مشکلات کا سامنا کرتا تھا، تاکہ وہ اپنے بچوں کو بہتر زندگی دے سکے۔ زاہد کی والدہ سبزیوں کا کام کرتی تھی اور سارا دن کھیتوں میں گزارتی تھی۔ ان دونوں کے والدین کا ایک ہی مقصد تھا: اپنے بیٹوں کو بہتر تعلیم دینا تاکہ وہ اس محنت کی زندگی سے نکل سکیں۔
لیکن زندگی نے ان دونوں کو کچھ اور ہی راستہ دکھایا۔ انہوں نے اپنی زندگی کی جدو جہد کو شروع کیا تھا۔ اسکول کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد وہ روز رات کو ایک بڑے محل میں کام کرنے جاتے تھے۔ اس محل میں ان کا کام مہمانوں کی خدمت، برتن دھونا اور صفائی کرنا تھا۔ یہ کام ان کے لیے صرف ایک ذریعہ تھا تاکہ وہ اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل سکیں۔ شام کے وقت وہ اپنے کام پر لگ جاتے اور رات بارہ بجے کے بعد جب تمام مہمان واپس چلے جاتے تو وہ پانچ سو روپے جیب میں ڈال کر ریلوے اسٹیشن کے ایک کمرے میں سو جاتے۔ یہ کمرہ ان کے لیے ایک عارضی پناہ گاہ تھا جہاں وہ تھوڑی دیر آرام کرتے لیکن ان کے خواب کبھی آرام نہیں کرتے تھے۔
ان دونوں کے دلوں میں ایک عزم تھا کہ وہ ایک دن اس زندگی سے نکل کر کامیاب بنیں گے۔ دن میں وہ اسکول میں محنت کرتے، رات کو کام کرتے، اور پھر صبح کو دوبارہ اسکول کی تیاری کرتے۔ ان کی زندگی اتنی مصروف تھی کہ وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلتا تھا۔ شاداب کا کہنا تھا: “ہمیں خواب دیکھنے کا حق ہے اور ہم ان خوابوں کو حقیقت میں بدلیں گے۔” زاہد نے ہمیشہ اس کا ساتھ دیا اور وہ کہتا: “ہم ایک دن کامیاب ہوں گے اور ہمارے والدین کا چہرہ خوشی سے روشن ہو گا۔” ان دونوں کی زندگی میں ہمیشہ ایک مقصد تھا اور وہ تھا اپنے والدین کی محنت کا صلہ دینا۔
ایک دن وه اسکول میں بیٹھے تھے جب ان کے ہم جماعت نے انہیں مذاق کا نشانہ بنایا۔ ان کے ہم جماعت نے کہا: “یہ دونوں لڑکے اسکول کے بعد کہاں جاتے ہیں؟ کیا یہ اپنے والدین کے کام میں مدد کرتے ہیں؟” لیکن شاداب اور زاہد نے کبھی اس پر توجہ نہیں دی۔ ان کے دلوں میں ایک بڑا خواب تھا اور وہ جانتے تھے کہ اس راستے پر چلنے سے کامیابی ضرور ملے گی۔ زاہد نے شاداب سے کہا: “یہ سب ہمارا مذاق اُڑاتے ہیں لیکن ایک دن ہم انہیں دکھائیں گے کہ محنت کرنے والے کبھی نہیں ہارتے۔” شاداب نے مسکراتے ہوئے جواب دیا، “بالکل، زاہد! ایک دن ہم بھی ان بڑی گاڑیوں میں بیٹھیں گے جو محل کے باہر کھڑی ہوتی ہیں۔”
ان کی محنت نے رنگ لایا اور سالوں کی قربانی کے بعد دونوں نے اپنی تعلیم مکمل کی۔ ان کی زندگی کا اگلا مرحلہ وہ تھا جب ایک دن ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ان کو مینیجر کے عہدے پر منتخب کر لیا گیا۔ ان کی ماہانہ آمدنی لاکھوں روپے تک پہنچ گئی۔ اب وہ خود ایسی گاڑیوں میں بیٹھنے لگے جو کبھی محل کے باہر کھڑی ہوتی تھیں۔ یہ لمحہ ان کے لئے ایک خواب کے پورا ہونے جیسا تھا۔ ان کے والدین جو ہمیشہ محنت کش زندگی گزارنے کے بعد اپنے بچوں کے لیے سکون اور خوشی کے خواہاں تھے، اب فخر سے اپنے دوستوں کو بتاتے: “میرا بیٹا اب بڑے دفتر میں کام کرتا ہے، یہ سب اس کی محنت کا نتیجہ ہے۔”
ایک دن انہوں نے اپنے گاؤں میں ایک بڑی تقریب کا انعقاد کیا۔ اس تقریب میں گاؤں کے تمام لوگ مدعو تھے۔ انہوں نے اپنے والدین کو اسٹیج پر بلایا اور مائیک پر کہا: “آج ہم جو کچھ بھی ہیں، یہ ان والدین کی قربانیوں کا نتیجہ ہے جنہوں نے اپنی زندگی ہمارے لیے وقف کر دی۔ یہ کامیابی ہماری نہیں، ان کی ہے۔” اس لمحے میں ان کے والدین کی آنکھوں میں خوشی کے آنسو تھے اور گاؤں کے لوگ ان کی کامیابی پر خوش ہو رہے تھے۔ اس دن شاداب اور زاہد نے اپنے والدین کے لیے ایک خوبصورت اور آرام دہ گھر بنانے کا اعلان کیا، جو ان کی زندگی کی سب سے بڑی قربانی کا صلہ تھا۔ شاداب اور زاہد کے والدین کے لئے یہ لمحہ ایک خواب کی حقیقت تھا۔
انہوں نے نہ صرف اپنی زندگی کو بہتر بنایا، بلکہ اپنے گاؤں کے نوجوانوں کے لیے ایک مثال قائم کی۔ ان کی کہانی ہر ایک کو یہ سکھاتی ہے کہ محنت، عزم اور قربانی سے کوئی بھی خواب پورا ہو سکتا ہے۔ ان دونوں دوستوں کی کہانی اس بات کی غماز ہے کہ انسان کو کبھی بھی اپنی محنت سے پیچھے نہیں ہٹنا چاہیے، چاہے زندگی کی راہیں کتنی ہی دشوار کیوں نہ ہوں۔ انہوں نے یہ ثابت کیا کہ کامیابی صرف ان لوگوں کے نصیب میں ہوتی ہے جو اپنی تقدیر کو بدلنے کے لیے اپنا پورا زور لگا دیتے ہیں۔
آج بھی ان کے گاؤں میں ان کا ذکر عزت اور محبت سے کیا جاتا ہے۔ ان کی کہانی امید، حوصلے، اور کامیابی کی علامت بن چکی ہے۔ وہ خواب دیکھنے والے، جنہوں نے اپنے خوابوں کو حقیقت میں بدل دیا۔
ان کے درمیان ایک اور بات مشترک تھی کہ دونوں کے والدین کی محنت کی کہانیاں ایک جیسی تھیں۔ شاداب کی والدہ حلیمہ ایک اسکول میں چھوٹے کام کرتی تھی تاکہ گھر کا خرچ چل سکے جب کہ زاہد کی والدہ سبزیوں کا کام کرتی تھی اور تمام دن کھیتوں میں گزارتی تھی۔ دونوں ہی والدین نے اپنے بیٹوں کے بہتر مستقبل کے لیے اپنی ساری زندگی محنت میں گزاری۔ شاداب جب ابتدائی اسکول میں تھا تو اس نے گھر کے حالات کی وجہ سے ایک چائے کے اسٹال پر کام کرنا شروع کر دیا تھا۔ یہ اس کے والدین کے لیے ایک مشکل مرحلہ تھا کیونکہ وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا تعلیم حاصل کرے نہ کہ کسی چائے کے اسٹال پر کام کرے۔ دوسری طرف زاہد نے ایک منی بس میں کنڈکٹر کے طور پر کام شروع کیا تھا تاکہ گھر کا خرچ بڑھا سکے۔ ان کاموں نے دونوں والدین کو تنگ کر دیا تھا، لیکن ان کے خواب یہی تھے کہ ان کے بیٹے کبھی ان کی طرح سخت محنت کی زندگی نہ گزاریں۔
وقت گزرتا گیا اور شاداب اور زاہد نے اپنی محنت اور عزم سے زندگی کے نئے راستے تلاش کئے۔ جب انہوں نے اپنے والدین کے خوابوں کو حقیقت میں بدلا تو ان کے والدین نے دل کی گہرائیوں سے دعائیں دیں۔ شاداب اور زاہد کی زندگی نہ صرف خود ان کے لیے بلکہ پورے گاؤں کے لیے ایک تحریک بن گئی کہ محنت اور لگن سے انسان کسی بھی مشکل سے نکل سکتا ہے۔ ان کی کہانی ایک مثال بن گئی جو آج بھی ان کے گاؤں کے نوجوانوں کو حوصلہ دیتی ہے کہ خواب دیکھنا اور ان کے لئے محنت کرنا کبھی ضائع نہیں جاتا۔
ان کی زندگی میں اتنے اتار چڑھاؤ آئے لیکن آخرکار وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئے۔ ان کی کامیابی نے ثابت کیا کہ اگر انسان میں جذبہ ہو اور وہ اپنی تقدیر بدلنے کے لیے محنت کرے، تو کچھ بھی ناممکن نہیں ہوتا۔ ان دونوں کی زندگی کا سبق یہی تھا کہ “محنت کبھی ضائع نہیں جاتی اور خواب کبھی ٹوٹتے نہیں ہیں۔”
���
سوتی بھلیسہ ڈوڈہ ، جموں، موبائل نمبر؛7006432002
[email protected]