نداآفرین سہیل احمد انصاری
ہم میں سے اکثر لڑکیاں بچپن سے ہی خواب بُنتی ہیں۔ گڑیوں کے کھیل اور سہلیوں کی باتوں میں وقت گزرتا ہے۔ اسکول کی چہل پہل اور جونیئر کالج کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی ایک نادان مگر معصوم لڑکی جب موبائل ٹی وی اور انٹرنیٹ کی دنیا میں داخل ہوتی ہے تو اس کا پہلا تعارف لفظوں سے ہوتا ہے، کہانیوں سے ہوتا ہے اور سوشل میڈیا کے ذریعے وہ معاشرتی حالات و واقعات کے سچ اور جھوٹ دونوں سے واقف ہونے لگتی ہے۔
سوشل میڈیا کے اس ہموار راستے پر چلتے چلتے وہ خود کو ایک ایسی ورچوئل دنیا میں محسوس کرنے لگتی ہے، جہاں محبت صرف میٹھے جملوں جذباتی کہانیوں اور ڈرامائی مناظر کا نام ہے۔ پرانی سہیلیاں اب فرینڈز سرکل میں بدل چکی ہوتی ہیں۔ وہ اپنے دل اور دماغ کے کسی کونے میں خیالات کی اینٹ اور امیدوں کی مٹی سے ایک خوبصورت گھر بنانے لگتی ہے۔ایسا گھر جہاں ایک دن کوئی آئے گا جو اس سے سچی محبت کرے گا، اس کے ناز اٹھائے گا اور زندگی بھر اس کا ہم سفر بنے گا۔
وقت گزرتا ہے۔ عمر ایک ایسے موڑ پر پہنچتی ہے جہاں شادی ہو جاتی ہے۔ وہ اپنے شوہر سے وہی چاہتی ہے جو برسوں سے دل میں پلتے خوابوں کا حصہ تھا۔ مگر حقیقت اکثر خوابوں سے مختلف ہوتی ہے۔ شوہر کا دن دفتر کی مصروفیت میں گزرتا ہے ،گھر لوٹتا ہے تو چند لمحے بات کرتا ہے، پھر نیند کے سپرد ہو جاتا ہے۔ آہستہ آہستہ لڑکی کو محسوس ہونے لگتا ہے کہ وہ محبت نرمی اور جذباتی سہارا، جس کی وہ منتظر تھی محض ایک تصور تھا۔ اس کا شریکِ حیات اس کے ناز نخرے اٹھانے والا نہیں بلکہ صرف اس کی روزمرہ کی ضروریات پوری کرنے والا ہے۔یہ وہ لمحہ ہوتا ہے جب دل میں بنائے گئے خوابوں کے محل میں دراڑیں پڑنے لگتی ہیں۔ اسے سمجھ آنے لگتا ہے کہ سوشل میڈیا کے ڈرامے سیریلز اور فلمیں زندگی کی حقیقت نہیں ہوتیں، لیکن زندگی کا امتحان یہیں ختم نہیں ہوتا۔
ایسے وقت میں اگر کوئی غیر شخص اس کے قریب آتا ہے، اس سے میٹھی میٹھی باتیں کرتا ہے، جینے مرنے کی قسمیں کھاتا ہے تو وہ لڑکی جو جذباتی طور پر خالی اور محبت کی طلبگار ہوتی ہے، اسے اپنا ہم درد سمجھ بیٹھتی ہے۔ یہ شخص اکثر ایک فریبی ثابت ہوتا ہے جو محض اپنی ضرورت پوری کرنے کے لیے قریب آتا ہے۔ یہ ضرورت مالی بھی ہو سکتی ہے ،جسمانی بھی یا صرف وقتی تفریح کا بہانہ۔
شروع میں وہ مرد اس لڑکی کی کئی خواہشات اور سوچوں پر پورا اترتا دکھائی دیتا ہے۔ مگر آہستہ آہستہ نقاب اترنے لگتا ہے اور ایک دن وہ سب کچھ لوٹ کر اس کے جذبات اور احساسات کا خون کر کے چلا جاتا ہے۔ پیچھے رہ جاتی ہے ایک ٹوٹی ہوئی لڑکی جو اپنے خوابوں کے محل کے ملبے پر تنہا کھڑی ہوتی ہے۔یہ وہ وقت ہوتا ہے جب کچھ لڑکیاں خود کو سنبھال لیتی ہیں، حقیقت کو قبول کر کے اپنے رشتے اور زندگی کو بچانے کی کوشش کرتی ہیں۔ لیکن کچھ ایسی بھی ہوتی ہیں جو اس صدمے سے ٹوٹ کر اپنی گھریلو زندگی کو برباد کر بیٹھتی ہیں۔
یہ کہانی کسی ایک لڑکی کی نہیں بلکہ آج کے دور کی بے شمار خواتین کی ہے جو سوشل میڈیا اور خیالی محبت کے جال میں پھنس جاتی ہیں۔ اصل ضرورت اس بات کی ہے کہ بچپن ہی سے بیٹیوں کو حقیقت اور افسانے میں فرق سکھایا جائے۔ محبت صرف الفاظ نہیں بلکہ عمل سے ثابت ہوتی ہے اور شادی کا رشتہ خواب پورا کرنے کے ساتھ ساتھ حقیقت کا سامنا کرنے کا بھی نام ہے۔ہمیں اپنی بیٹیوں کو یہ سمجھانا ہوگا کہ زندگی کسی سیریل یا فلم کی کہانی نہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کسی بھی اجنبی کے میٹھے الفاظ ہمیشہ سچائی کی علامت نہیں ہوتے، ورنہ خوابوں کے محل ٹوٹ کر ملبے میں بدلتے دیر نہیں لگتی۔
<[email protected]>
���������������