ڈاکٹر عبدلمجید بھدواہی
کسی معمولی سی بات پر میری ہمشیرہ سے تو تو میں میں ہو گئی۔ بات کچھ بھی نہیں تھی مگر بات بڑھتے بڑھتے پوری ناراضگی تک جا پہنچی۔ اتنا کہ ہمشیرہ رو پڑی۔ ہم نے ایک دوسرے سے بولنا بند کر دیا۔ نہ اس نے ناشتہ کیا اور نہ ہی اس نے مجھے ناشتہ دیا۔
میں بغیر کچھ کھائے پیئے دفتر چلا گیا ۔
جب میں دفتر سے واپس آیا تو لگا کہ اس نے نہ ناشتہ کیا ہے اور ظہرانہ۔ کچن بالکل ٹھنڈا پڑا تھا ۔ اس نے مجھے بھی کھانے کے لئے نہ کہا۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے سے بات نہ کی۔ وہ اپنے کمرے میں صرف روتی رہی اور اسی حالت میں سوگئی تھی۔
میں بڑا پریشان ہوا۔ مجھے احساس ہوا کہ دراصل غلطی میری ہی تھی۔ بات کچھ بھی نہ تھی مگر بات اتنی بگڑ گئی کہ ہماری بول چال بھی بند ہوگئی۔
میری والدہ کا انتقال ایک ماہ قبل ہوا تھا ۔ والد صاحب بہت پہلے اس دنیا سے چل بسے تھے۔
اب ہم صرف دو ہی تھے میں اور میری چھوٹی بہن ۔
مجھے بہن سے بہت پیار اور لگاؤ تھا۔ شائد اسی لئے چھوٹی سی بات اس نے دل پر لی اور وہ اتنی مایوس اور پریشان رہنے لگی۔
در اصل دو دن قبل میں نے اس کو کہا کہ بیڈ ٹی اچھی نہیں بنی تھی۔ بالکل بے مزہ تھی تم نے اسے بنانے میں دلچسپی نہیں لی۔ پہلے بھی ایک دوبار ایسا ہوا تھا۔
میرا اتناہی کہنا تھا کہ وہ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی اور اپنے کمرے میں گم سم بیٹھی رہی۔ گھر کا سکون ختم ہو گیا ۔ گھر اب گھر نہیں ایک ویرانہ لگنے لگا۔ نہ کھانا، نہ پینا ، نہ ہنسنا نہ کھیلنا اور نہ ایک دوسرے سے بات چیت کرنا۔
اب کل رات میں نے خواب میں والدہ کو دیکھا وہ مجھ سے بہت ناراض تھی، میری طرف سے منہ پھیر کر بیٹھی رہی۔ مجھ سے بولی۔ ’’میں نے سوچا تھا کہ میرے مرنے کے بعد تو اپنی چھوٹی بہن کا اور زیادہ خیال رکھے گا مگر یہ میری خام خیالی تھی۔تیرا سلوک بہن کے ساتھ دیکھ کر میرا دل رو رہا ہے ۔ تو نے مجھ کو وہ زخم دیئے جو بھر نہیں سکتے ہیں۔ تو نے مجھے بہت دکھی کر دیا ہے۔ میں تجھے کبھی معاف نہیں کروں گی۔‘‘
بیٹی نے یہ بھی کہا کہ اماں تو ادھر ہوتی تو بھیا میرے ساتھ ایسا سلوک نہ کرتا اس کی جرأت نہ ہوتی۔
خواب میں ہی میں نے ماں کو کہا کہ اماں میں کل صبح ہی ہمشیرہ سے بات کروں گا۔ اس سے معافی مانگوں گا۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ آپ بے فکر رہیں ۔ دراصل غلطی میری تھی۔ مجھے پوری طرح اپنی غلطی کا احساس ہوا ہے۔ میں نے صرف ذرا تیز لہجے میں کہا تھا کہ بیڈ ٹی بے مزا ہے تو نے جلد بازی سے بنائی ہے۔
بس ! اسی بات پر وہ ناراض ہو گئی ۔
دراصل میں اس سے بہت پیار کرتا ہوں اس کو یہ امید نہ تھی کہ میں اس کو اتنی چھوٹی سی ناراضگی والی بات بھی کہوں گا ۔
خیر ! میں صبح ہی اس سے معافی مانگوں گا۔ آپ بے فکر رہیں۔
جب میں نیند سے جاگا میں اب بھی بڑ بڑا رہا تھا، پسینہ سے شرابور تھا، زبان خشک تھی اور ہونٹ تھر تھرا رہے تھے ۔
وضو کیا ۲ رکعت نماز حاجت پڑھی۔ اللہ سے دعا مانگی کہ میرے مولیٰ میری ہمشیرہ سے ناراضگی دور ہو ۔ اور میری ماں مجھے معاف کرے اور مجھ سے دل سے خوش ہو۔
اس کے بعد میں گھر کے باہر گیا اور میونسپلٹی کے Dust Bin سے ایک پھٹا ہوا جوتا تلاش کر کے نکالا۔ اپنے کمرے میں لاکر اس کو بڑی خوبصورتی سے رنگ دار اور چمکدار کاغذ میں پیک کیا۔ سیدھے ہمشیرہ کے کمرے میں گیا۔
اس کے آگے سر جھکائے بیٹھا اور اس کو کہا کہ مجھ سے بڑی حماقت ہوئی ہے۔ قصور بالکل میرا تھا۔ میں اپنی غلطی مانتا ہوں ۔ آپ اللہ اور ماں کے لئے مجھے معاف کر دو۔ میں دوبارہ ایسی غلطی کبھی نہیں کروں گا۔ کان پکڑتا ہوں۔
دفتر سے آتے ہوئے پہلوان کی دوکان سے آپ کی پسند کی پوری چھولے اور مٹھائی لائی ہے ۔ آپ مجھے اپنے ہاتھ سے کھلا دو تبھی مجھے سکون ملے گا۔ میں یہ مٹھائی تیرے ہی ہاتھ سے کھانا چاہتا ہوں تب ہی مجھے لگے گا کہ تو نے مجھے معاف کر دیا ہے۔ یہ کہتے ہوئے میں نے ڈبہ اس کے آگے کیا اور اپنا ندامت بھرا سر اس کے آگے خم کر کے رکھ دیا۔
جب اس نے ڈبہ کھولا اس میں سے پھٹا ہوا جوتا نکلا ۔ وہ حیران ہوگئی۔
بولی یہ کیا ؟“
میں کہتا گیا کہ اب کھلا ؤنا پوری چھولے اور مٹھائی۔ دیر نہ کرو۔ کھلاؤنا۔ میں بیتاب ہوں کھانے کیلئے۔
میں بھی دو دن سے بھوکا ہوں۔
یہ کہتے ہوئے ہم دونوں بہن بھائی ایک دوسرے سے گلے ملے اور پھوٹ پھوٹ کر روئے ۔ ایک دوسرے کے آنسو پونچھے اسی لمحے مجھے یوں محسوس ہوا کہ ہمشیرہ اور ماں دونوں نے مجھے معاف کر دیا ہے۔
اور میں نے فوراً سجدہ شکر ادا کیا۔
���
گوجوارہ، ہمہامہ سرینگر، کشمیر،موبائل نمبر؛8825051001