رحیم رہبر
اُن مست مست آنکھوں میں مجھے اپنا چہرہ دُھندلا سا لگتا تھا!
’’پر ایسا کیسے ہوسکتا ہے؟‘‘ یہ سوال میں اکثر سارہ سے پوچھتاتھا۔ لیکن سارہ کوئی جواب نہیں دیتی تھی۔ ایک دن کچھ ایسا کرشمہ ہوا کہ سارہ نے جواب دیا۔
’’آنکھیں جھوٹ نہیں بولتیں۔‘‘
’’تم کہنا کیا چاہتے ہو؟‘‘ سارہ نے انہماک سے پوچھا۔
’’میں تمہاری آنکھوں میں اپنا چہرہ دیکھنا چاہتا ہوں پر تمہاری آنکھیں کچھ اور دکھا رہی ہیں!‘‘۔
’’تمہاری کہانی۔۔۔پڑھ لو !‘‘ سارہ مسکراتے ہوتے بولی۔
’’کیا پڑھ لوں۔۔۔ مجھے ڈر ہے کہ کہیں میں تمہاری آنکھوں کی جھیل میں ڈوب نہ جائوں!‘‘
’’میری آنکھوں میں کیا رکھا ہے؟‘‘ سارہ نے حیرانگی کے عالم میں پوچھا
’’سارہ! تمہاری آنکھیں دیکھ کر مجھے بشیر بدر کا یہ شعر یا دآتا ہے‘‘
اس کی آنکھوں کو غور سے دیکھو
مندروں میں چراغ جلتے ہیں!
’’چراغ کی روشنی میں تجھے پھر اپنا چہرہ دھندلا سا کیوں لگتا ہے؟‘‘
’’تم نادان ہو‘‘۔ سارہ غصے میں بولی۔
’’کیوں؟‘‘ میں نے پوچھا۔
’’اُس دن میں نے پہلی ہی ملاقات میں تجھ سے کہا تھا، اگر تجھے یاد ہوگا!‘‘۔
’’سارہ! تب سے بہت کچھ بدلا ہے۔ بھول جائو اُس پہلی ملاقات کو‘‘۔
’’وہ دراصل میری بھول ہی تھی جو میں تجھے اُس دن پارک میں ملی تھی۔ تم غلط فہمی کے شکار ہوگئے۔ تمہاری آنکھوں پہ خود غرضی کی دھول بیٹھ گئی تھی۔ تم سمجھے شائد اس پہلی ہی ملاقات میں تم میرے آنکھوں میں سما گئے۔۔۔!‘‘
’’سارہ! مجھے کچھ بھی یاد نہیں آتا ہے۔۔۔!‘‘
’’میں۔۔۔میں تمہیں یاد دلاتی ہوں‘‘۔
اس کے بعد سارہ کچھ دیر خاموش ہوئی۔۔۔ میں حیران ہوا کہ سارہ سسکیاں لے رہی تھی۔۔۔ وہ رو رہی تھی۔۔۔ سارہ نے اپنا چہرہ اپنے اسکارف سے ڈھانپ لیا۔ میں نے سارہ کو اُس کے جوانمرگ بھائی امجد کا واسطہ دیا۔ جو ایک دن گھر سے نکلا پر واپس نہیں لوٹا۔ امجد اعلیٰ تعلیم یافتہ تھا۔ اپنے بوڑھے والدین کا اکلوتا سہارا تھا۔!!!
سارہ نے دفعتاً منہ سے سکارف سرکا دیا اور بول اُٹھی۔
’’تجھے میری آنکھیں نشیلی دکھائی دیتی ہیں۔ اس لئے تم میری آنکھوں میں اُس بدکردار سارہ کو دیکھتے ہو جو بازار میں چند ٹکوں کے عوض اپنے حسن کا سودا کرتی ہے۔ جب کہ میں تمہاری آنکھوں میں اپنے امجد کو دیکھ رہی ہوں!‘‘۔
���
آزاد پیٹھ کالونی ماگام، بڈگام، کشمیر
موبائل نمبر؛9906534724