سرینگر /فورسز اہلکاروں نے جنوبی کشمیر میں راہگیروں کے موبائل فون کی تلاشی لینا شروع کردیا ہے جس سے لوگوں کیلئے اس ریاست میں راز داری کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں جہاں جنگجووں سماجی رابطوں کی ویب سائٹوں کا ستعمال لوگوں کی حمایت حاصل کررہے ہیں۔ اگرچہ افسران اس بات سے انکار کرتے ہیں مگر درجنوں ایسے واقعات پچھلے ہفتوں میں پیش آئے جہاں سیکورٹی کے نام پر فورسز اہلکاروں نے لوگوں کے موبائل میں موجود فوٹوگراف ، ویڈو اور واٹس ایپ پیغام کو دیکھا ہے اور اگر اس دوران عسکریت سے جڑی کوئی چیز گیلری میں ملی تو پھر شہریوں کی پٹائی کی جاتی ہے جیسا کہ کولگام کے محمد ندیم کے ساتھ ہوا ہے جو 2جولائی کو موٹر بائیک پر سوار ہوکر سرینگر جارہا تھا مگر اونتی پورہ کے مقام پر سیکورٹی فورسز نے انہیں روکا۔ ندیم نے کہا کہ سیکورٹی فورسز نے فون کی گیلری سے فوٹوگراف اور ویڈو گیلری کو دیکھنے کے علاوہ وٹس ایپ پیغامات بھی دیکھ لئے۔ ندیم نے بتایا کہ اچانک فورسز اہلکاروں نے جنگجووں کے جنازے کی تصویر دیکھی جس سے اسکو کافی غصہ آیا اور مجھے سائڈ میں رکھا اور بعد میں میری قمیض اتار دی۔ 30سالہ ندیم نے بتایا کہ لشکر طیبہ کمانڈر بشیر لشکری کے جنازے سے ایک دن قبل ہم نے کچھ فوٹو کھینچیجس میں مرحوم جنگجووں کی تصویر تھی جس میں پیچھے چند پاکستانی پرچم موجود تھے۔ ندیم نے بتایا کہ مذکورہ فورسز اہلکار نے مجھے چھڑی اور بندوق کی بٹھوں سے مارا ۔ ڈپٹی انسپکٹر جنرل جنوبی کشمیر ایس پی پانی نے ایسے واقعات کے بارے میں علمیت سے انکار کردیااور بتایاکہ اگر ایسے واقعات ہوتے ہیں تواس کی شکایت پولیس سے کی جائے تاکہ ضروری کارروائی کی جاسکے ۔ ان کاکہناتھاکہ یہ پولیس کی کوئی عام پریکٹس نہیں ہے کیونکہ انہوںنے خود ایسے واقعات نہیں دیکھے ،لیکن اگر کوئی یہ جانتاہے کہ ایسے واقعات ہوتے ہیں تواسے پولیس کے پاس آناچاہئے اور شکایت کرنی چاہئے ۔انہوں نے کہاکہ وہ یہ جانے بغیر کہ کس کا فون چیک کیاگیاہے اور کس نے چیک کیاہے ، اس بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتے ۔اس سال مارچ میں جموں کشمیر پولیس نے پاکستان سے دس ہزار فیس بک پروفائل ٹریس کرنے کا دعویٰ کرتے ہوئے کہاتھاکہ ملی ٹینٹ گروپ لگ بھگ تین سو وٹس ایپ گروپ کنٹرول کرتے ہیں ۔ اس کے بعد پولیس نے آن لائن سرگرمیوں میں اضافہ کردیاتھا۔بائیس سالہ مصدق امین جو ڈگری کالج پلوامہ کا طالبعلم ہے ،بھی پولیس کانشانہ ہے ۔امین کاکہناہے کہ پولیس والوں کے ایک گروپ نے اسے روکا اور اس وقت اس کا فون چھین لیا جب وہ پلوامہ واپس گھر آرہاتھا۔انہوںنے کہاکہ دس منٹ تک پولیس والے اس کا فون چیک کرتے رہے لیکن اسے یقین تھاکہ انہیں ایسا کچھ نہیں ملے گالیکن جب اس نے دیکھا کہ ان میں سے دولاٹھیاں لیکر غصے سے آگے بڑھے تو وہ حیران ہوگیا۔امین نے بتایاکہ انہوںنے میرا وٹس ایپ دیکھا اور ایک گروپ جس میں مجھے شامل کیاگیاتھا، کے بارے میں پوچھا ،اس گروپ کی پروفائل برہان کی تصویر تھی ۔کالج طالبعلم نے کہاکہ اس نے ان کو یہ بتانے کی کوشش کی کہ یہ خالص نیوز گروپ ہے جو اس کا ایک واقف کار چلارہاہے اور اس میں کئی گائوں کے لوگ شامل ہیں جو نیوز شیئر کرتے ہیں اور اپنے اپنے علاقے کے بارے میں بعض اوقات لکھتے ہیں تاہم وہ انہیں یقین نہیں دلاسکا۔امین نے الزام لگایاکہ پولیس والوں کی مار پیٹ کے نتیجہ میں اس کے جسم سے خون بہنے لگا ۔حزب المجاہدین کے کمانڈر برہان وانی کی گزشتہ برس جولائی میں ہلاکت کے بعد جیسے ہی پولیس کی طرف سے کائونٹر انسرجنسی آپریشن میں اضافہ ہواہے ایسے ہی عسکریت پسندوں کی آخری رسومات میں لوگوں کی شرکت بھی بڑھی ہے اور اس دوران لوگ تصاویر اور ویڈیو اٹھاتے اور سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہیں ۔کیا پولیس کسی کے سیل فون کے اندر گھس سکتی ہے ؟۔اس حوالے سے سپریم کورٹ کے وکیل اور سائبر قانون کے ماہر پون ڈگل کا کہناہے کہ نہیں کیونکہ یہ پریکٹس شہری کی پرائیویسی سے کھلواڑ ہے ۔