جموں صوبہ میں ہر جگہ پانی کی شدید قلت کا سامناہے اور کئی علاقوںمیںلوگوںکے دن رات حصولِ آب کی پریشانی میں گزر جاتے ہیں تو کئی جگہوں پر پانی پیسے دے کرگھوڑوں پر لاد کے پانی لایاجاتاہے ۔اگرچہ حکام کی طرف سے پانی کی اس قلت کو دور کرنے کیلئے کسی جامع پالیسی پر کام نہیں کیاگیا لیکن پھر بھی پچھلے کچھ برسوں کے دوران وقتی طور پر کچھ ایسے اقدامات کئے گئے جن کی بدولت ایک بڑی آبادی کو راحت ملی تھی۔چند سال قبل جگہ جگہ ہینڈ پمپ نصب کئے گئے جن سے آبادی کے ایک بڑے حصے کو راحت ملی تھی لیکن بدقسمتی سے یہ ہینڈ پمپ ناکارہ ہوگئے اور ان کی طرف کسی نے بھی توجہ نہیں دی ۔یوں کروڑوں روپے خرچ کرنے کے بعد بھی لوگوں کو پانی پینا نصیب نہیںہوا۔اسی طرح سے حالیہ برسوں میں پانی کی لفٹ سکیموں کا رواج کافی فروغ پایا اور ایسے علاقوں تک بھی پانی پہنچانے کی کوششیںشروع ہوئیں، جہاں اس سے قبل اس کی سہولت میسر نہیں تھی ۔ جموں کے پہاڑی اضلاع میں بھی کئی لفٹ سکیموں پر کام شروع ہوا اور محکمہ کی طرف سے لفٹ کے ذریعہ پانی کو ذخیرہ کرکے پھر سپلائی بھی کیاجانے لگا۔تاہم اس بار بھی بدقسمتی یہ رہی کہ یہ لفٹ سکیمیں ایک ایک کرکے ناکارہ بنتی جارہی ہیں اور ان کی دیکھ ریکھ کا کوئی معقول بندوبست نہیں ،حالانکہ نصب شدہ لفٹ سکیمیں سبھی علاقوں کیلئے کافی نہیں اور مزید ایسے ہی اقدامات کرنے کی ضرورت ہے لیکن پہلے کی گئی مشق ہی فضول و ناکام ثابت ہورہی ہے ۔کبھی ان لفٹ سکیموں کی موٹر یں جل جاتی ہیں تو کبھی کچھ اور خرابی آجاتی ہے ۔ بیشتر اوقات تو بجلی ہی میسر نہیں ہوتی جس وجہ سے پانی سپلائی نہیں ہوپاتا ۔یوں لفٹ سکیموں سے بھی لوگوںکی پیاس نہ بجھی اور وہ پانی کی بوند بوند کیلئے ترس رہے ہیں۔ پیر پنچال اور خطہ چناب میں آئے روز لوگ سڑکوں پر نکل کر محکمہ پی ایچ ای کے خلاف احتجاج کرتے ہیں لیکن محکمہ کے پاس ابھی تک اس حوالے سے کوئی جامع پالیسی نہیں ہے جوایک افسوناک بات ہے ۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ ریاست جموں وکشمیرمیں پانی کے ذخائر میں کوئی کمی نہیں اور اگر ان کاصحیح استعمال کیاجائے تو لوگوں کو پینے کیلئے ہی نہیں بلکہ دیگر ضروریات کیلئے بھی اس کی کمی محسوس نہیںہوگی لیکن اس پر منصوبہ بند طریقے سے کام کرنے کی ضرورت ہے ۔ آج حالت یہ ہے کہ دریا کنارے واقع بستیوں میں آباد لوگ بھی پینے کے پانی کو ترس رہے ہیں اور ان کو سپلائی فراہم کرنے کیلئے کوئی منصوبہ نہیں ۔ضرورت اس بات کی ہے کہ پانی کی اس کمی کو پورا کیاجائے اور اس سلسلے میں کوئی جامع منصوبہ مرتب کیاجائے ۔ حکومت اس بات کو یقینی بنائے کہ دو دن بعد شروع ہورہے ماہ صیام کے دوران لوگوںکو پانی کی قلت کا سامنا نہ کرناپڑے اورنہ ہی انہیں روزہ رکھ کر دن بھر پانی کیلئے بھٹکنا پڑے ۔ساتھ ہی پہلے نصب کئے گئے ہینڈ پمپوںکو بھی ٹھیک کرایاجائے اور لفٹ سکیموںکو بھی کارگر بنایاجائے ۔