سرینگر// 35اے سے متعلق بھاجپا لیڈران کی آئے روز بیان بازی پر شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے نیشنل کانفرنس کے معاون جنرل سکریٹری ڈاکٹر شیخ مصطفیٰ کمال نے کہا کہ بی جے پی والوں کو یہ بات ذہن نیشن کرنے لینی چاہئے کہ دفعہ35اےاور 370کے خاتمے کیساتھ ہی ہندوستان اور جموںوکشمیر کا رشتہ بھی خودبخود ٹوٹ جائیگا کیونکہ ان شرائط پر مرکز اور ریاست کا رشتہ قائم ہو اہے ۔ ڈاکٹر کمال نے کہا کہ جب جموں وکشمیر اور بھارت کے درمیان ہوئے رشتے کی شرائط کا پاس و لحاظ نہیں رکھا جائیگا تو مشروط الحاق کا کوئی مطلب نہیں باقی نہیں رہے گا۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کو آئین ہند میں خصوصی پوزیشن کا درجہ ملا ہے اور جو کوئی بھی دفعہ35Aاور دفعہ370کے خاتمے کی باتیں کرتا ہے ، اُس کیخلاف ملک شمنی کا مقدمہ دائر کیا جانا چاہئے۔ ڈاکٹر کمال نے کہا کہ بھاجپا والے دفعہ35Aکو بھی مذہب رنگت دیکر اپنے ناپاک عزائم حاصل کرنا چاہئے ہیں، یہ لوگ اس معاملے کو بھی ہندئوں اور مسلمانوں کا مسئلہ جتلا رہے ہیں جبکہ حقیقت میں دفعہ35Aجتنا ضروری مسلمانوں کیلئے ہے اُس سے کئی زیادہ یہاں رہنے والے ہندئوں کیلئے بھی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس دفعہ کے خاتمے سے سب سے پہلے یہاں کا پنڈت کلچر، ڈوگری کلچر اور لداخی کلچرہی متاثر ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ریاست کے پشتینی باشندگی قانون 1927 میں بنا یا گیاہے جس کو ہٹانے کی بات کی جارہی ہے۔بی جے پی تو 35A کے خلاف روز اول سے ہی رہی ہے۔ ڈاکٹر کمال نے کہا کہ مہاراجہ ہری سنگھ نے جموں و کشمیر کا بھارت کے ساتھ مشروط الحاق کیا اور بعد میں جموں وکشمیر کے عظیم لیڈران نے اس مشروط الحاق کو آئین ہند میں شامل کرواکے ریاست کی انفرادیت اور الگ پہچان کو زندہ رکھنے کیلئے ضمانت بخشی۔مرکزی سرکار کے ساتھ ساتھ ہندوستان کے سرکردہ سیاسی لیڈران کو اس مشروط الحاق کا احترام کرکے ریاست کی خصوصی پوزیشن کو مکمل بحال کرنے کیلئے آگے آنا چاہئے اور ساتھ ہی ریاست کی پہچان کیخلاف ہورہی سازشوں کا توڑ بھی کرنا چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ اور اسمبلی میں ریاست کی خصوصی پوزیشن کیساتھ چھیڑ چھاڑ ممکن نہیں ہے اس لئے دشمنوں نے عدالت کا راستہ اختیار کیاہے۔ ڈاکٹر کمال نے کہا کہ مرکزی سرکار کو سپریم کورٹ میں دفعہ35Aکیخلاف دائر مفادِ عامہ عرضی کیخلاف بروقت تحریری جواب دینا چاہئے تھا لیکن ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت اس کیس کو سماعت کیلئے منظور کروایا گیا۔انہوں نے کہا کہ اس کیس کی سماعت اب ہمارے لئے موت و حیات کا سوال بن کر رہ گیا ہے، اس دفعہ کیخلاف فیصلہ سے ہماری پہچان اور وجود مکمل طور پر ختم ہوجائیگا اور یہ سلسلہ جموں اور لداخ سے شروع ہوگا۔