وادیٔ کشمیر میںموسمِ سرما کے رواں ایام کے دوران جہاں سردیوں میں اضافہ ہونا شروع ہوا ہے،وہیں وادیٔ کشمیر کے لوگوں کودرپیش مسائل میں بھی بڑھوتری کا آغازہوچکا ہے۔باوجود اس کے کہ ابھی تک پیر پنچال کے کچھ پہاڑی علاقوں کے سِوا وادی بھر میں برفباری نہیں ہوئی ہے تاہم امکان ہے ، کئی اضلاع کے مختلف علاقوں میںپینے کے صاف پانی کی قلت اور بجلی کی نایابی،مہنگائی اور بے روزگاری کا مسئلہ پیچیدہ ہونے لگا ہے،جس کی اطلاعات اخباری خبروں اور سوشل میڈیاذرائع کے تحت روزانہ حکومتی انتظامیہ اور عوامی حلقوں تک پہنچ رہی ہیں۔
اگرچہ وادی کےعوام یہ بنیادی مسائل اور دوسرے کئی مصائب عرصۂ دراز سے جھیل رہے ہیں اور وقت وقت کی حکومتیں لوگوںکے مسائل دور کرنےکے دعوے اور وعدے کرتے چلے آئے ہیں لیکن حکومتوں کے یہ دعوے اور وعدے جھوٹے ثابت ہوچکے ہیں،جبکہ تا ایں دَم لوگوں کے لئے درپیش زیادہ تر مسائل جُوں کے تُوں ہیںبلکہ ان میں اضافہ ہورہا ہے۔اگر پینے کے پانی کی قلت کی بات کریں ،تو مختلف ادوار میںنہ جانے کتنے منصوبے باندھے گئے،کتنی اسکیمیں ترتیب دی گئیں،جن پر کروڑوں کی رقومات صرَف بھی کئے گئے،لیکن آج تک ایسا کوئی ایک کامیاب منصوبہ سامنےنہیں آسکا ،جس سے عوام کو مناسب ڈھنگ سے پانی مہیا ہوسکتا۔یہی صورت حال بجلی کی نایابی کو دور کرنے کی پالیسی میں رہی ،بیشتر علاقوں میں میٹر بھی لگائے گئے،بجلی چوری پر بھی قدغن ہوئی ،فیس میں بھی بڑے پیمانے پر اضافے کئے گئے،پھر بھی جہاں زیادہ تر علاقوں میں بجلی کٹوتی کا سلسلہ جاری ہے وہیں بیشتر علاقوں میں بجلی کی نایابی کی صورت حال جاری ہے۔اسی طرح ضروریات زندگی کی چیزوں کی قیمتوں میں دن بہ دن اضافہ ہونے کا معاملہ بھی ہے۔جس کے نتیجے میں وادی کشمیر کےعام آدمی کی اقتصادی حالت بُری طرح متاثر ہورہی ہے اور اُس کے لئے ترقی کا کوئی عمل پورا نہیں ہوپارہا ہے۔
گویایہاں زرعی پیداوار، صنعتی ترقی اور بے روزگاری ختم کرنے کے منصوبوںپرآج تک کوئی ایسی خاص توجہ نہیں دی گئی،جس سے کشمیر خودکفالتی کے راستے پر گامزن ہوجاتا۔ شہر سرینگر اور بیشتر دیہات میں روز مرہ استعمال ہونے والی اشیائے خوردنی کی قیمتوں میں کوئی اعتدال نہیں آرہا ہے،قیمتیںمن مانے ڈھنگ سے وصول کی جارہی ہیں اور آج بھی معاشرہ کا وہ طبقہ جس کا گذر بسر محدود آمدنی پر منحصر ہے، بہت زیادہ تکلیف کا شکار ہے۔متعلقہ سرکاری ادارے قیمتوں کو کنٹرول میں رکھنے ،من مانے قیمتیں وصول کرنے والوں پر قدغن لگانے اور حد سے زیادہ منافع خوری پر روک لگانے میں بالکل ناکام ہوچکے ہیں ۔جس کے نتیجے میں لوگوں کو درپیش مسائل اور مشکلات میں کمی نہیںآرہی ہے بلکہ صارفین کو ہر ضرورت کی چیز باہر کی ریاستوں کے مقابلے میں دوگنی قیمت پر مل رہی ہے ۔چنانچہ اس سلسلے میں حکومتی انتظامیہ کی طرف سے جو بھی دلیلیں پیش کی جارہی ہیں ،حقیقت سے اُن کا کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے۔مزید برآںجموں و کشمیر میںموسمِ سرما کے آغاز سے بادل پھٹنے،چٹانیں گرنے ،زمینیں کھسکنے،پسیاں گرنے اور سڑکیں ڈھ جانے کی تباہ کاریوں میںجولوگ بڑے پیمانے پرجانی و مالی نقصان سے دوچار ہو کر لاچار و بے بس ہوچکے ہیں ،اُن کی بحالی اور باز آباد کاری کے کاموں میں بھی تاخیر ہورہی ہے ۔
زیادہ تر متاثرین تک وہ سرکاری امداد تک نہیں پہنچی ہے ،جو بطور ریلیف اُن کے لئے منظور ہوچکی ہے۔بے گھر ہونے والے لوگ ابھی تک اپنی زندگی بحال نہیں کرپائے ہیں،جس کی بڑی وجہ سرکاری انتظامیہ کی ناقص کارکردگی بتائی جاتی ہے۔اب جبکہ دربارمؤوکا سلسلہ دوبارہ شروع ہوا ہےاور حکومتی دربار سرینگر سے جموں منتقل ہوچکا ہے،جس پر نہ صرف یہاں کی سیاسی پارٹیاں مسرت ظاہر کررہی ہیںبلکہ سرکاری ملازمین کا وہ طبقہ جو دربار مؤو سے وابستہ ہے،پھولے نہیں سما رہا ہےکہ وادیٔ کشمیرمیں شدت کی سردیوں سے بچنے کے لئے وہ اگلے چھ ماہ اپنے اہل وعیال سمیت جموں و کشمیر کی گرمائی راجدھانی جموںمیں گذاریں گے۔المختصرسرکاری دربار کی جموں منتقلی کے بعد عوامی حلقوں میں یہ خدشہ اُبھررہا ہے کہ کیا سرکاری انتظامیہ کی توجہ وادی کشمیر کے لوگوں کو درپیش مسائل کی طرف رہے گی یا پہلے کی طرح جموں کی گرم ہوائوں کی مستی میں حسب روایت بھول جائے گی ؟