انسان نے بہت ترقی کی ہے۔ گھپائوں میں رہنے والا آج چاند اور مریخ پر گھر بنانے کی سوچ رہا ہے۔ پتھروں کو رگڑ کر آگ جلانے والانیوکلیئر بموں کی کھیپ تیار کر رہا ہے۔ جانوروں کا شکار کرکے پیٹ پالنے والا آج اپنے روز مرہ کے کام آسان بنانے کے لئے روبوٹوں کو استعمال کر رہا ہے۔ مواصلات میں ایسا انقلاب آیا ہے کہ اگر ڈونالڈ ٹرمپ کو چھینک آجائے توکچن میں بیٹھی ملینیا ٹرمپ سے پہلے یہ چھینک چین کے کسی گائوںمیں بیٹھے لوگ ٹوئٹر یا فیس بک پر سن لیتے ہیں۔ دنیا سکڑ کے سچ مچ ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے۔ لیکن کیا انسان اپنے آپ کو اپنی قدیم قبائیلی ذہنیت سے آزاد کر پایا ہے؟ زیادہ دور جانے کی ضروت نہیں۔ اگر ہم اپنے ہی آس پاس نظر دوڑائیں تو جواب نفی میں ملے گا۔
1947 میں ہندوستان کا بٹوارہ ہوا۔ بٹوارے کے وقت یہ قبائیلی ذہنیت کھل کر سامنے آگئی۔ ہندئوں نے ،مسلمانوں نے، سکھوں نے ایک دوسرے کو گاجر مولی کی طرح کاٹ ڈالا۔ لاکھوں لوگ قتل کئے گئے ، عورتوں کی عزت تار تار کی گئی، معصوم بچوں کو سر عام ذبح کیا گیا۔ بستیوں کی بستیاں اُجاڑ دی گئیں۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوکے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہو گئے۔ اور ان لاکھوں لاشوں پر دو ممالک کی تعمیر نو کا کام شروع ہوا اس امید سے کہ اب دونوں ملک آزاد ہیں اور یہ سیاسی آزادی ان کی ذہنی آزادی کے لئے راہ ہموار کرے گی۔ لیکن ایسا نہیں ہوا۔
1971 میں مشرقی پاکستان کے بنگا لیوںنے مغربی پاکستان کے خلاف بغاوت کرکے ایک الگ ملک قائم کرنے کا اعلان کر دیا۔پاکستانی فوج نے آپریشن سرچ لائٹ کے تحت لاکھوں بنگالیوں کو قتل کر ڈالا۔ بنگالی عورتوں کی عزت لوٹی گئی، بستیاں اُجاڑ دی گئیں (میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا۔ صدیق سالک)۔ ہندوستانی فوج مشرقی پاکستان میں داخل ہوگئی۔ اور یوں با ضابطہ جنگ شروع ہوگئی۔ لاکھوں بنگالی اپنے گھر چھوڑ کر ہندوستان میں رفیوجیوں کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوگئے۔ بالآخر ہندوستانی افواج نے مُکتی باہنی سے مل کر پاکستانی فوج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کردیا اور یوں ایک تیسرا ملک، بنگلہ دیش برصغیر کے نقشے پر اُبھر آیا۔1971 میں بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا، اس سے یہ بات ثابت ہوگئی کہ سیاسی آزادی حاصل ہونے کے با وجود بر صغیر کی عوام اور حکمرانوں کو ذہنی آزادی نصیب نہیں ہو پائی ہے۔ جب بھی انہیں موقع ملتا ہے، یہ اپنی قدیم قبائیلی ذہنیت کو اپنے ماتھوں پر چپکا کر قتل و غارتگری، مارا کاٹی، آبرو ریزی کے گھنائونے کھیل شروع کر دیتے ہیں۔ یہ جسمانی طور تو گھپائوں سے باہر آگیا ہے لیکن ذہنی طور ابھی بھی انہی تاریک گھپایوں میں کہیں قید پڑا ہیں۔
1984 میں اس وقت کی بھارتی وزیر اعظم اندرا گاندھی کو اپنے دو محا فظوں بینت سنگھ اور ستونت سنگھ نے گولیاں مار کر ہلاک کردیا۔ کیونکہ دونوں قاتل سکھ تھے، اس لئے انتقامی طور پر سکھوں پر حملے شروع ہوگئے۔ ان حملوں میں اس وقت کی بر سر اقتدار پارٹی، کانگریس کا براہ راست ہاتھ تھا اور پولیس بے بھی حملہ آوروں کو کھُلی چھوٹ دے دی۔ ہزاروں سکھوں کو قتل کردیا گیا۔ ان کی جائیدادیں، ان کے گھر، ان کی گاڑیاں جلا ڈالی گئیں۔ کئی سکھوں کو دن دہاڑے پکڑ پکڑ کر زندہ جلا دیا گیا۔
دو سکھوں نے جرم کیا اور ایک پوری قوم کو نشانہ بنایا گیا۔ دو سکھوں نے قتل کیا اور ہزاروں سکھوں کو، جن کا اس قتل اور قاتلوں سے کوئی لینا دینا نہیں تھا، مار گرایا گیا۔ عورتوں اور معصوم بچوں کو نشانہ بنایا گیا۔ ایسی تباہی مچائی گئی کہ شیطان بھی شرمندہ ہو۔ اور ایک بار پھر یہ ثابت کیا گیا کہ ہم اپنی قدیم قبائیلی ذہنیت کے غلام ہیں۔ ہم کتنی ہی اونچی عمارتوں میں رہ رہے ہوں، کیسی ہی مہنگی گاڑیوں میں گھوم پھر رہے ہوں، ذہنی طور ہم آج بھی صدیوں قبل کی گھپائوں میں قید ہیں۔ ہم میں کوئی بدلائو نہیں آیا ہے۔
2019، ایک کشمیری خود کش بمبار نے لیتہ پورہ پلوامہ کے پاس قومی شاہراہ پر ایک سی آرپی ایف کی کا نوائے کو نشانہ بنایا۔ اس نے اپنے ساتھ ساتھ چالیس سے زائید اہلکاروں کو بھی ہلاک کردیا۔ اس واقعے نے پورے ملک کو ہلاکے رکھ دیا۔ جموں وکشمیر کے عسکری محاذ پر یہ سب سے بڑا خونین واقعہ ہے۔ مختلف مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے اس واقعہ کی مذمت کی۔ یہاں تک کہ مشترکہ مزاحمتی قیادت نے بھی بغیر کسی لگی لپٹی کے اس واقعہ پر رنج و غم اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کشمیر کی سر زمین پر کسی کا بھی خون گرے، ہر کشمیری کو از حد تکلیف ہوتی ہے۔
جموں میں اس واقعے کے خلاف ہڑتال کی کال دی گئی۔ اور ہڑتال کی آڑ میں بیسوں کشمیریوں کی گاڑیاں دن دہاڑے جلا دی گئیں۔ کشمیری ملازمین، جو دربار موٗکے سلسلے میں جموں میں ہیں، کی رہائشوں پر حملے کئے گئے اور پولیس خاموش تماشائی بن کر دیکھتی رہی۔ جموں کی دیکھا دیکھی، یہ آگ پورے شمالی ہندوستان میں پھیل گئی اور کچھ چنگاریاں مغربی بنگال بھی جا پہنچیں۔
ایک کشمیری بمبار نے چالیس سے زائید سی آرپی ایف اہلکاروں کو ہلاک کر دیا اور انتقام کے طور پر جموں سے لے کر بنگال تک کشمیری طلباء و طالبات، ملازموں، کاروباری لوگوں کو نشانہ بنایا گیا۔ جن جن ریاستوں میں کشمیریوں پر حملے ہوئے وہاں کی سرکاروں نے کشمیریوں کو تحفظ فراہم کرنے میں لیت و لعل سے کام لیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ وادی کشمیر میں تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ والدین، جن کے بچے مختلف ریاستوں میں زیر تعلیم ہیں، اُن کی نیندیں حرام ہو گئیں۔ایک بار پھر اُسی قدیم قبائیلی ذہنیت کا مظاہرہ کیا گیا۔ ایک خود کش بمبار کے جرم کا بدلہ ایک پوری قوم سے لیا گیا۔ کسی نے سوال نہیں اُٹھایا
کہ دہرادون میں زیر تعلیم طا لب علموں کا اس خود کش بمبار سے کیا رشتہ تھا۔ کسی نے سوال نہیں کیا کہ بنگال میں جس کشمیری شال والے کو نشانہ بنایا گیا ،اُس کا جیش محمد کے ساتھ کیا تعلق تھا۔ جموں میں بلوائیوں سے کسی نے یہ نہیں پوچھا کہ جن لوگوں کی رہائش گاہوں پر اُنہوں نے حملے کئے ،وہ ریاستی سرکار کا حصہ ہیں نہ کہ کسی عسکری گروپ کے۔
1984 میں اس وقت کی حکمران پارٹی کانگریس نے بلوائیوں کو کھلی چُھوٹ دی کہ وہ سکھوں کو نشانہ بنا سکیں۔ 2019 میں حکمران پارٹی، بی جے پی نے کشمیریوں پر حملے ہونے دیئے۔حد تو یہ ہے کہ ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے ان حملوں پر طویل وقت تک چُپی سادھ لی اور یوں بلوائیوں کو طوفان بد تمیزی بپا کرنے کی کھلی چھوٹ دی گئی۔جب حکمران قبائیلی ذہنیت کے غلام ہوں تو عام لوگوں کو ذہنی طور کیسے آزاد کیا جاسکتا ہے۔ کتا کتے کو نہیں کھاتا لیکن حکمران جب آدم خور بن جائیں تو آدمیت اور انسانیت کی حفاظت کون کرسکتا ہے؟
……………..
ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم ‘‘ سری نگر