موجوہ دنیا میں جن شخصیات کے ہاتھ میںحکمرانی کی زمام کار ہیں ، جو تخت وتاج کے مالک ہیں ، جنہیں اقتدار کی کرسی پر براجمان ہونے کا شرف حاصل ہے ، جو حکومتی اختیارات کی بھاگ ڈور سنبھالے ہوئے ہیں، ا ن میں سے کتنے ایسے لوگ ہیں جو حکمرانی کے تمام تقاضوں پر کھرا اُترتے ہیں یا کا روبار سلطنت چلانے کے امور میں غیر معمولی اہلیت، انصاف پسندی اور اعتدال نوازی کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں؟ اس سوال کا تسلی بخش جواب ڈھو نڈنے کے لئے اپنی تجزیاتی نگاہیں بار بار ملکوں اور قوموں کی قیادت کی جانب دوڑائیں، آپ اس تعلق سے کسی ایک حکمران کی بھی نشاندہی نہیں کر سکتے ۔ سوال یہ ہے تو کیا ہم یہ مان کر چلیں کہ مغرب ومشرق کی بااثر قومیں بانجھ اور بنجر ہوچکی ہیں ،اس لئے جنگ وجدل ، بے انصافی ، لوٹ مار اور استحصال کی ماری ہوئی دنیا میں حکمرانی کے شعبہ میں کوئی ایسا رول ماڈل ہی نہیں فراہم کر پار ہی؟ یہ ایک افسوس ناک حقیقت ہے جس سے کسی باشعور اور روشن ضمیر فرد کوکو مفر نہیں ہوسکتا ۔
تہذیب وتمدن کی بنیادی ضروریات میں معاشرتی شیرازہ بندی ، انتظامی نظم ونسق اور معاشی سر گرمیاں کسی نہ کسی صورت میں ابتدائے آفرینش سے انسانی زندگی کے اجزائے ترکیبی رہی ہیں ۔ سچ یہ ہے کہ انہی کے اردگرد زندگی کی رونقیںآ ج تک محو سفررہیں ، تہذیبوں کے قافلے چلتے رہے ، تاریخ کے پڑاؤ طے ہوتے رہے ، عروج وزوال کی داستانیں بنتی بگڑتی رہیں ، قوموں کی شناخت کے سانچے ڈھلتے رہے ، اوراسی مناسبت سے متمدن ومہذب مملکتیں ، سلطنتیںاور حکومتیں رعیت کی گلہ بانی کر کے ان کے کاکل سنوارتی رہیںاورا نہیں عزت و منزلت کے منصب پر بٹھاتی رہیں ۔ ان حوالوں سے تاریخ کے غائر مطالعہ سے ہمیں بین السطوراس بات کا ادراک ہوتاہے کہ اس کارگہہ حیات میں جو بھی افراد یااقوام مختلف زمانوں میں سریرآرائے مسند قیادت وامارت ہوئے ، ان میںکچھ شمس وقمر کی مانند حسن ِ عمل سے اقوام کی پیشانی کے جھومر بن کر ہنوز چمک دمک رہے ہیں اور بہت سارے ایسے بھی ہیں جو طاقِ نسیاں کی زینت بن گئے کہ ان کا ذکربھی انسان کی طبع نازک پر گراں گزرتاہے ۔ حق تو یہ ہے کہ قوموں میں جہاں بانی یا حکمرانی کے اس بھاری بھرکم بارامانت کو جن باشعور اور صاحب ِ ایمان امانت داروں نے اپنے تقدیر ساز منصب کے تقاضوں اور مطالبات کو سنبھا لا ، انہوں نے جان بوجھ کر گویاکانٹوں کی سیج پرقدم رکھا، وہ ہمہ وقت قومی درد، ملّی احساس،ا ور خوف خدا سے لرزہ براندام رہے ، کسی تفریق وتمیزکے بغیر مخلوق ِخدا کی خدمت ان کامقصد زندگی بنا رہا، اپنے زیر نگین عوام یارعیت کو راحت وسکون فراہم کرنے کے لئے خود اپنا سکھ چین تج دیااور من وتُو کی تقسیم کے بغیر ہر کسی سے عدل و انصاف کا معاملہ کیا ۔ یہی وجہ ہے کہ صبحِ قیامت تک آنے والے حکمرانوں کے لئے ان کی طرزِ حکمرانی ، جاں سپاری اور خدمت گزاری مشعل راہ بنی رہے گی ؎
نگاہ بلند ، سخن دل نواز ، جاں پُرسوز
یہی ہے رخت ِ سفر میر کارواں کے لئے
یہ امرمسلمہ ہے کہ اقتدارواختیار جس کسی کے ساتھ ہاتھ میں بھی آجائے ،وہ سمجھ لے کہ ایک شدید اور سنگین آزمائش میں اُسے ڈال دیا گیا۔ اس کے جسم وجاںپر ہمہ وقت احساس ِذمہ داری اور جوابدہی ومواخذے کا ڈر رچ بس جائے تو مان لو کہ اس نے خود وکولازوال انعام کا حق دار بنا یا، چاہے دنیااُسے کچھ بھی دینے کو تیار نہ ہو لیکن منعم حقیقی اسے لازماً بہرہ ور کر ے گا۔ اس کے اُ لٹ میں اگر اس نے کانٹوں کے تاج کو پھولوں کی سیج ماننے کی بھول کی ، نازک اندام اور بے وفا کرسی کے بھول بھلیوں میں یوں کھو گیاکہ اس فانی وعارضی شئے کے حصول کے بعد اس کانفس پھول گیا،رعونت وتکبر نے دل میں آکر ڈیرے ڈال دئے ، خلق خدا کو لوٹنے اور مارنے کی سبیلیں کر نے لگا، ’’مجھ سے بڑا کوئی نہیں ‘‘کا تصور نہاں خانۂ دل میں رچ بس گیا ،تو اسے شاید ہی اپنے اندوہناک انجام سے کسی طور بچنے کی امید کی جاسکتی ہے ۔ تاریخ عالم کا ورق ورق گواہ ہے اس قسم کے پاک نفوس انسانی مرقعے انبیائی شخصیات یا ان کے مامورکردہ انسانی کھیپ کے اسلوب ِ حکمرانی و بادشاہی میں جھلکتے ہیں ۔ ا س فہرست میں حضرت یوسف علیہ السلام ، حضرت داوؤعلیہ السلام، حضرت موسیٰ علیہ السلام، حضرت محمد ﷺ اور خلفائے راشدین المہدیین رضوان اللہ تعالیٰ اجمعین شامل ہیں۔ ان عظیم المرتبت اور عدیم المثال ہستیوں کی مخالف سمت میں فرعون اور نمرودسے لے کر ابوجہل، ہٹلر اور مسولینی تک کے خدا فراموش، عدل بیزار اور ننگ انسانیت حکمرانوں کا وجودِ نامسعود ہے جنہیںقہر الہٰی کو دعوت دینے والی منفی کار کر دگی کے صلے میں ان کا عبرت ناک انجام اس ابدی حقیقت کا آینہ ٔ دار ہے کہ حکمران یا شبان خدا ترس ، انسان دوست ، عدل گستر ، نیکو کار اور مساوات وانسانیت کا حامی و علمبردار ہو تو اس کے مقام و منزلت کی کوئی سرحدکھنیچی نہیں جاسکتی گو وہ اپنی مثالی زندگی میں فاقہ مست وبوریا نشین ہی رہاہو ۔ اس کے برعکس اگر حکمران یاپادشاہ اپنے اختیارات اور منصب کو صرف خدا فراموشی، سرکشی، بے اُصولی، بے ضمیری، ظلم وعدوان، بے انصافی اور لوٹ کھسوٹ کے لئے بروئے کارلاتاہے تو اس کا انجام اتناہی عبرت انگیز ہوتا ہے جتنا اس کے پاپوں کی پوٹلی۔ فی الحقیقت مولائے حقیقی کی جانب سے عطا کردہ ان نازک منصبی ذمہ داریوں کی اگر خود مولاکی مقرر کردہ بندشوں اور اس کی عائد کردہ وشرائط کے تحت اداکرنے میں ادھردانستہ کوتاہیوں وکمزوریوں کا صدور ہوتا رہا اور اُدھرکوئی تنبیہ ،تذکیر ، تصحیح اور تعلیم وتدریس اس پتھر دل کو موم نہ کرسکی تو ظاہر ہے جوں توںیہ بے ہنگم گاڑی کچھ عرصہ چلے گی ضرور لیکن انجام کار حادثے کا شکار ہوکے رہ جائے کہ پھر تاریخ کے صفحات صرف ایسے سرپھروں کے عبرت انگیز واقعات سے بھرجاتی ہے ۔ ان پر پھر آسمان بھی چار آنسو بہانے پر آمادہ نہیں ہوتا۔ فی الوقت میں آپ کوبہت پیچھے تاریخ کے لق ودق صحرا میں اس لئے لے جانانہیں چاہو ںگا کہ ان ریگزاروں سے واپسی شاید بہت وقت لے ۔ہاں ! عہد حاضر کے اُن چندحکمرانوں کو ہی دیکھ لیں جوخود ہماری آنکھوں کے سامنے اقوام و ملل کی گردنوں پر بہت ہی حسین ناموں اور خوشنما دعوؤں کے ساتھ سوار ہوئے، بہت عرصہ تک ان ممالک کے سیہ وسپید کے مالک بنے رہے کہ ظاہر بین نظروں کو لگتا تھا کہ شاید اقتدار واختیار صبح قیامت تک اُن کے فلک نما محلات کی لونڈی بنارہے گا لیکن یہ خواب کانچ کے ٹکڑوں کی طرح نہ صرف چُور چُور ہوئے بلکہ وہ ایسے نشانِ عبرت بنائے گئے کہ انسان بس سر پکڑتا رہ جائے ۔ شاہِ ایران رضاشاہ پہلوی ، زین العابدین بن علی تیونس، حسنی مبارک مصر ، معمر قذافی لیبیا،،صدام حسین عراق اس سلسلے کی تازہ کڑیاں ہیں ۔ ہم ساری دنیا کی بات فی الوقت نہ کریں بس وہی عالم عرب پیش نگاہ رہے جس پر کبھی اُن خاک نشین اورفاقہ مست لوگوں کی حکومت ہوا کرتی تھی ،جن کی رعایا پروری ،عدل گستری اور خداخوفی کی خوبصورت داستانیں اب بھی روح و دل میں صالحیت اور اچھائیوںکا رس گھول دیتی ہیں ۔ ان ہی مخلص بند ہ گان ِ خدا کے چھوڑے نقوش جب آنے والے حکمرانوں نے مٹا ڈالے تو امت مسلمہ کا اثاث البیت لٹ گیا۔ جو امت دنیائے ا نسانیت کی خادم تھی اس کے حاکم جب بزور بازو مخدوم بن بیٹھے اور عملاً ’’انا ولا عنبری‘‘کا دَم بھرنا شروع کردیا توپھر ستارۂ اقبال کے ڈوبنے کا سفر اس انداز میں شروع ہوا کہ بے اختیار زبان یہ پکار اٹھتی ہے ع
بدلتاہے رنگ آسماں کیسے کیسے !!
ان خود غرض لٹیرے اور بے رحم حکمرانوں اور عوام کے درمیان فاصلے بڑھتے ہی چلے گئے ،عیش ونشاط اُن کی گھٹی میں پڑ گیا ، مظلوم ومجبور لوگوں کی دردناک آوازیںان کے دلو ں میں کوئی ارتعاش پیدا نہ کرسکیں تو فطرت کے ازلی وابدی اصول کے تحت پھر خدائے قہار کی لاٹھی اٹھی ،ان میں سے کچھ ایسے بھی ہیں کہ جو اس وہم وزعمِ باطل کے شکار تھے کہ دنیا میں اگر کچھ اچھا ئی کی روشنی ہے تو ان کے دم سے ہے ۔ خود ان کے گھروں میں اس طرح ان کی زندگی کا چراغ گل کرکے کام تمام کردیا گیا کہ دنیا ہنوز محوحیرت ہے اور کچھ ایسے ’’شاہ و صدور ‘‘ بھی ہیں جو اب ٹرائل کے دور سے گزر تے ہوئے ہر آنے والے حکمران یا حاکم بالا کے لئے سبق آموز نمونے بن بیٹھے ہیں ۔ وہ اصل میں اپنی تاریخ کے اُن اسباق کو بھول بیٹھے کہ عظمتیں ،محلات ،فرشی سلاموں ، کورنشوں، پہریداروں اور چوبداروں کی ہمہ وقت حاضری اقتدار واختیار پر کامل قبضہ میں مخفی نہیں بلکہ اللہ کی مخلوق کی ہمہ وقت خدمت گزاری، طبیعت میں خاکساری و تواضع اور داورِمحشر کی عدالت میں حاضری و جوب دہی کے خوف میں پوشیدہ ہے ۔ یہ مہاشئے ہیں کہ شاہانہ کروفر اور جاہ و جلال کو متاعِ زندگی سمجھ گئے اور اسے ہی عزت وتوقیر خیال کرنے لگے ، وہ اس دنیا کے اُس عظیم حکمران کے اعلیٰ وارفع کردار اور چھوڑے نقوش راہ کو بھول گئے جس کے انداز حکمرانی کو دیکھ کر بڑے بڑے دانشوروں اور مفکروں نے مجبور ہوکراعتراف کیاکہ دنیا کو آج بھی امن وراحت کا گہوارہ اگر بنانا مقصود ہے تو بس یہی ایک رول ماڈل اورانداز حکمرانی اپنایا جائے ۔جی ہاں !یہ عظیم ترین شخصیت حضرت عمرفاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہیں …جب سرزمین فلسطین کے حکمران پادری جعفر وینوس نے اس مفتوح شہر کی کنجیاں مسلمانوں کے حوالے کرنے سے یہ کہہ کر انکارکردیا کہ ہماری مذہبی کتاب کی رُو سے تم میں وہ اوصاف موجودنہیں کہ تم کلید بردارشہر بن جائو ،بات امیرالمومنینؓ تک جاپہنچی ،کسی سرکاری پروٹوکول کے بغیر ، ہٹو بچوکی نمائش سے مکمل اجتناب کرتے ہوئے محض ایک غلام کو اپنے ہمراہ لے کر سوئے شام روانہ ہوئے ۔کیچڑ نما سمندری راستہ حائل ہوا تو چشم فلک نے دیکھ لیا کہ لاکھوں مربع میل رقبہ زمین پرپوری قوت ودبدبے سے حکمرانی کرنے والا یہ انوکھا حاکم اونٹنی سے اُتر کر خود اپنے جوتے مبارک کندھے پر رکھ کر اونٹنی کی لگام ہاتھ میں لئے سوئے منزل رواں دواں ہوتاہے ۔اپنے ایک ساتھی کے یہ کہنے پر کہ امیرالمومنین ؓیہ ادا مجھے اچھی نہیں لگ رہی ہے کیونکہ ملک شام کے مہذب ومتمدن لوگوں کے ساتھ آپ کا سامنا ہونے کو ہے ۔ آخر یہ لوگ ہمارے متعلق کیا رائے قائم کریں گے ؟ فہیم وزیرک اور عدل کاپیکر ومجسمہ امیرالمومنین ؓبھانپ گیا کہ اصل ’’عزت‘‘ کا معنیٰ ومفہوم سمجھنے سے شاید ابھی تک یہ ساتھی قاصرہے ، فوراً بول اٹھے : آہ اے ابوعبیدؓ !اگر آپ کے علاوہ کسی اور نے ایسا کہاہوتا تو میںاُسے اُمت محمدیہؐ کے سامنے نشان عبرت بنادیتا۔ ہم ذلیل وخوار لوگ تھے تو اللہ تعالیٰ نے اسلام کے ذریعہ ہمیں عزت وشان سے نوازا ۔ اب اگر ہم اسلام کو چھوڑ کر کسی اور ذریعہ سے عزت وشان کے متلاشی ہوں گے تو اللہ تعالیٰ ہمیں پھر ذلیل وخوار کردے گا۔ (مستدرک حاکم)اورپھر جب فلسطین کے پادری حکمران سے شہر فلسطین کی کنجیاں امیرالمومنین لے رہے تھے تو پادری کی یہ باتیں تاریخ نے رقم کرکے آنے والے حکمرانوں تک پہنچانے کا تہیہ کرتے ہوئے یہ عہد پورا بھی کرلیا۔کیسی گھڑیاں رہی ہوں گی جب وہ پادری اس پیوند شدہ معمولی لباس زیب تن کئے سروں کے نہیں دلوں کے بادشاہ سے مخاطب تھا ’’حاضرہیں یہ کنجیاں اے عمرؓ بن خطاب! ………تم ہی تو وہ شخص ہو، جس کے بارے میں ہماری کتابوں میں ذکر ہے کہ جو اِن کنجیوں کا مالک ہوگا ، وہ اس ملک میں پیدل داخل ہوگا جب کہ اس کا غلام سوار ہوگا ۔ اور اس کے کپڑوں میں سترہ پیوند لگے ہوں گے ‘‘۔ امیر ؓ نے کنجیاں کیا لیں کہ نفس پھول گیا اور نہ خوشیوں سے جھوم اُٹھے ،کسی جشن مسرت کا اعلان ہوا اور نہ کوئی تقریب فتح منعقد ہوئی ۔ لمحات تو خوشی کے تھے ہی لیکن چشم فلک نے دیکھ لیا کہ امیرالمومنین فاروق عادل ؓ اس موقع کی آبرو کو تاریخ انسانی کے ماتھے کا جھومر بناتے ہوئے سجدہ ریزہوکرندامت سے زاروقطار رورہے ہیں…وہ کیوں رو رہے تھے؟…اصل میں وہ معاملات کی اصل حقیقت اور گہرائی میں جاکر کوئی رائے قائم کرتے تھے ۔ وہ جانتے تھے کہ دوام بس ذاتِ خداوندی کو ہے ۔اس بساط ِدہر پر کتنے کج کلاہ وفرماں روا آئے اور آخرلقمۂ زمین ہوکے رہے ،آج کہیں قبر دارا نظر آرہی ہے نہ گورِ سکندر…اسی لئے جب حضرت عمرؓ سے ساتھیوں نے خوش ہونے کے بجائے آبدیدہ واشکبار ہونے کی وجہ پوچھی تو حضرت عمرؓ نے فرمایا ’’ میں اس لئے رو رہاہوں کیوں کہ مجھے خوف ہے کہ دنیا تمہارے لئے سرنگوں ہوجائے گی تو تم ایک دوسرے کو اجنبی سمجھنے لگوگے ۔ یاد رکھو(جب یہ گھڑی آئے گی )اس وقت تمہیں آسمان والے بھی نظر انداز کریں گے ‘‘۔
کتنا چشم کشا ہے یہ ارشاد گرامی…!!!اور حکمرانوں کے لئے درس ِزریں لیکن جب ہمارے دونوں مطلق العنان اور عصر حاضر کے جمہورنواز کہلانے والے حکمرانوں ان صالح ترین رہنما خطوط اور روڈ میپوںسے ہٹ گئے تو نہ صرف وہ بلکہ پوری قوم داستانِ پارینہ اور نشانِ عبرت بن کے رہ گئی ۔ خود اپنے ہمسایہ ملک پاکستان کے ایک سابق مطلق العنان فوجی آمر کو دیکھئے ۔ اپنے نوسالہ اقتدار میں حضور نے آئین وقانون میں ہر وہ ترمیم بے دریغ کرڈالی تاکہ اس کی کرسی جبراً دمِ واپسیں تک اُس کے ہمراہ رہے لیکن اسے پردۂ عیب میں انجام پانے والے امور وعوامل کی حقیقت کو ن سمجھاتا کہ کسی مجبور ومقہور ومظلوم ومحصور کی آہ جگرسوز اُس کی زبان سے کیا نکلی کہ آج کل کا یہ بے تاج بادشاہ خود کروڑوں روپے سے بنے اپنے ہی شاہی محل کے صرف دو کمروں میں مقید ، یہ خود کو کمال اتاترک کا متبع کہلانے والا جانے اندر ہی اندر کیا سوچ رہاہوگا؟ یقیناً اس میں سبق صرف خداتعالیٰ سے ڈرنے والوں کے لئے ہے ۔خوداس ملک اور دُنیا کے تقریباً سبھی مسلم ممالک پر جومصائب وشدائد کا لامتناہی سلسلہ عرصہ سے جاری ہے ،وہ ان ممالک کے حکمرانوں کی مغرب کی ذہنی غلامی اور اس کی جی حضوری کا ہی براہ راست نتیجہ ہیں ۔ انہیں جس فکر کا پابند خود کوبناناتھا ،اُس سے تو انہوں نے خلاصی کرہی لی اور اس کے بدلے بتانِ وہم وگمان کے آغوش میں مسحور شیشہ گری اورفسوں کاریوں کی فصل کاٹ رہے ہیں ۔
مسلم بلاک اگرچہ اب جاگ رہاہے لیکن ہنوز مغرب پنجہ آزمائی میں مست و محوہے اور اپنے مکروہ عزائم میں اسے تب تک کامیابی حاصل ہوتی رہے گی جب تک ’’حکمرانوں‘‘ کی شکل میں اسے اپنے’’ مردانِ کار‘‘ مہیا ہوتے رہیں گے ۔فی الوقت ان ممالک میں رائج نظام ہی پر بات کرنا مقصود نہیں ،وہ ایک الگ موضوع ِبحث ہے ۔ اگرکہیں واقعی ان ممالک میں اسلام کی ترویج واشاعت کے بہت سارے کام ہورہے ہوں ،علماء کو گراں قدر وظائف ومراعات بھی مل رہے ہوں ،دُنیا کے ہرملک میں مفلوک الحال لوگوں کی امداد ونصرت کے سامان بھی ہوتے ہوں لیکن ان کے حکمرانوں کی ہربات کیوں حرف آخر ہواکرے ؟ یہ حقیقتِ حال ان علماء کے لئے لمحۂ فکریہ بھی ہے اور ایک مقام عبرت بھی ۔ علماء و اصلاح کارجانتے ہیں کہ مغرب ان ممالک کے دروازے پر کھڑا ہے لیکن اس بابت لب کشائی کی جرأت کرے کون؟ حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب کبھی اسلام کے نظریۂ احتساب کے تحت ان ’’حکمرانوں ‘‘کی کسی حرکت پر تھوڑی سی نکتہ چینی ہو تو ان کے وفادار ووظیفہ خوار جہاں بھی ہوں ، فوراً نہ صرف احسان مندی کا فرض نبھا نے کے لئے آنکھیں بند کر کے ان کے ناحق کا دفاع کو دوڑتے ہیں بلکہ اپنے کرم فرمائوں کی ہر صحیح وغلط بات دُرست ثابت کرنے کے لئے بے جاتاویلیں کرنے اور دور کی کوڑیاں لانے سے بھی نہیں ہچکچاتے ۔ اس میں دورائے نہیں کہ یقیناً ان میں سے بعض حکمرانوں کے بہت سارے کام قابل ستائش ضرور رہیں لیکن کیاان کا یہ فرض منصبی نہیں بنتاہے کہ وہ عرصہ سے مغرب کے دل میں فکر حجاز کو فرنگی تخیلات کا رنگ دے کر اسلام کو دنیا جہاں سے نعوذباللہ نکال باہر کر نے کی گھناؤنی سازش او رمکروہ عزائم کو بھانپ کر ان کا توڑ نہ کریں اور اظہار رائے کے اسلامی تصور کو پنپنے کا موقع نہ دیں تاکہ اسلامی نظام ِحکومت اور خلافت راشدہ میںہی عالم اسلام میںایک کامیاب سسٹم کی سماجی وسیاسی وملّی زندگانی کے لئے آکسیجن ثابت ہو؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فون نمبر9419080306
(بقہ جمعتہ المبارک کے شارے میں ملاحظہ فرمائیں)