محمد حسین ساحل
ہزاروں سال سے گنگا جمنی تہذیب کے اس آئینہ دار ہندوستان کا دامن اس قدر وسیع رہا ہے کہ یہ ہر مذہب و ملّت کو اپنے دامن میں سمیٹے ہوئے ہے۔اس تہذیب کی اہم ترین علامت فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور ہندو مسلم عناصر کی بھائی چارگی و قومی یکجہتی بھی ہے۔گزشتہ چند دہائیوں سے مسلمانوں کو ہر دن ایک نیا امتحان ایک نئے مرحلےسے گزرنا پڑ رہا ہے، کروڑوں مسلمانوں کی حُب الوطنی پر انگلیاں اُٹھائی جاتی ہیں ،ہندوستانی مسلمان گذشتہ 70سال سے نچلی ذات کے دلتوں سے بھی زیادہ پسماندہ زندگی گزار رہے ہیں۔
تقسیم ہندکے بعد ہندو لیڈروں نے اقلیتوں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے نعرہ لگایا تھا کہ بھارت کا کوئی مذہب نہیں ہوگا۔ یہ ایک سیکولر سٹیٹ ہو گا۔ مگر اب ہندوستان کے مسلمانوں پر دائرہ حیات تنگ کر دیا جا رہا ہے۔ انہیں تعلیم، کاروبار، عبادت غرض زندگی کے ہر شعبے میں مذہبی تعصب کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ تعلیم کے شعبے میں بھی مسلمانوں کے لئے رُکاوٹیں کھڑی کر دی گئی ہیں۔ مسلمانوں کے لیےصرف 5 فیصد کوٹہ تعلیم میں مختص کیا گیا تھا مگر وہ کوٹہ بھی ختم کر دینے کے امکانات ہیں۔ مسلمانوں کی مساجد، مدارس پر حملے اور اب حجاب کا معاملہ طول پکڑ رہا ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں نے زندگی کے ہر شعبہ میں ترقی کی اور ایک مقام پیدا کیا اور ملک کا نام روشن کیا ،وہ شعبہ چاہیے سائنس ہو ، مزائل ہو، عدالت ہو، وکالت ہو، شجاعت ہو، صدارت ہو ، تعمیرات ہو، سیاست ہو ،درس و تدریس ہو،گیت ہو سنگیت ہو، کھیل کود ہو، فلم انڈسٹری ہو یا پھر جنگ آزادی ہو۔اپنی محنت اور قربانی کے اعتراف میں مسلمانوں کو پدم شری سے بھارت رتن تک جیسے قابل فخر ایوارڈز سے نوازا گیا ہے۔
مسلمان ہندوستان کا وہ حب الوطنی سے سرشار شہری ہے جو اپنے ووٹ کے عوض کسی چیز کی طلب نہیں رکھتا۔مندرجہ بالا تمام خدمات کے باوجود مسلمانوں کو ہر دور اقتدار میں کبھی فسادات کےنام پر،کبھی دہشت گردی کے نام پر ستایا جاچکا ہے۔اب حجاب کے نام پر پریشان کیا جا رہا ہے۔
حجاب کیا ہے ؟ خود کے جسم کو دوسروں کی نگاہ سے چھپائے رکھنا یا پردہ کرنا ہے یعنی لنگی پہننا بھی حجاب ہے اور دھوتی پہننا بھی حجاب ہے اور ہرکوئی اپنے اپنے طریقے سے حجاب کرتا ہے۔
منٹو نےاپنے ایک ڈرامہ میں لکھا ہے کہ ہمارے معاشرہ کا ذہن کچھ ایسے بن گیا ہے کہ اگر عورت طوائف کے کوٹھے پر کام کرے تو کوئی عیب نہیں مگر وہی عورت اگر سڑک پر تانگہ ہانکنے لگے تو اسے عیب سمجھا جاتا ہے۔اسی طرح جب مسلمان عورت اپنے جسم کو نقاب سے ڈھانپ لیتی ہے تو کچھ لوگ پریشان ہوتے ہیں اور یہ کہا جاتا ہے کہ اسلام میں عورت کو آزادی نہیں ہے۔ لوگوں کو اس بات کا علم ہونا چاہیے کہ مسلمان برائی کے ساتھ کھڑا نہیں ہے بلکہ برائی کی مخالفت میں کھڑا ہے۔مسلمانوں کو گزشتہ چار دہائیوں سے دہشت گردی کے نام پر پریشان کیا جارہا ہے۔مسلمان دہشت گرد نہیں ہیں اور جو دہشت گرد ہیں وہ مسلمان نہیں ہیں۔اگر آپ عالمی تاریخ کا جائزہ لیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ ماضی میں لاکھوں معصوموں کا جو قتل عام ہوا ان قاتلوں کی صف میں مسلمان نہیں تھا۔
ہٹلر: کیا آپ جانتے ہیں کہ یہ کون تھا؟ ہٹلر جرمن کا’’عیسائی‘‘ تھا، جس نے لاکھوں بے گناہوں کا قتل کیا لیکن میڈیا نے کبھی اُسے’’عیسائی دہشت گرد‘‘ نہیں کہا۔
جوزف اسٹالن: اس نے تقریباً 20 لاکھ انسانوں کو ہلاک کیا جن میں سے 14.5 لاکھ کو اذیتیں دے دے کر قتل کیا، کیا وہ مسلمان تھا؟
بینیٹو مسولینی(اٹلی): اس نے تقریباً 4 لاکھ لوگوں کا قتل عام کیا۔کیا وہ مسلمان تھا؟
راجہ اشوک: نے کلنگ کی جنگ میں 1لاکھ لوگ مارے تھے۔کیا وہ مسلمان تھا؟
جارج بش نے عراق میں فوج بھیج کر 10لاکھ سے زایدلوگوں کو قتل کیا ،جس میں معصوم بچوں کی بھی اچھی خاصی تعداد تھی۔ کیا وہ بھی مسلم تھا؟
پہلی جنگ عظیم ، دوسری جنگ عظیم ہیروشیما اور ناگاساکی میں جو لاکھوں لوگ مارے گئے کیا اُن کا قتل مسلمانوں نے کیا؟
تاریخ ایسے واقعات سے بھری پڑی ہے۔آج بھی افغانستان، شام، فلسطین اور برما میں لوگ مارے جا رہے ہیں۔اب یوکرائن چاہے اپنی خود مختاری اور سالمیت کے دفاع میں لڑرہا ہے یا روس اپنے تحفظ اور خطے میں خود چوہدری بن کر رہنے کے لیے یوکرائن پر حملے کررہا ہے،کیا کسی میڈیا ادارے اور کسی ملک کے حکمران نے یہ کہا کہ یہ دہشت گردی کی جنگ ہے یا دہشت گردی ہے،یا روس یوکرائن کے بجائے کسی مسلم ملک تاجکستان، قازقستان، بوسنیا یا کسی پڑوسی ملک جو مسلم ہو پر حملہ کرتا تو اس کے ساتھ بھی یہی ہمدردی دکھائی جاتی جو یوکرائن کے ساتھ دکھائی جارہی ہے۔
ماضی اور موجودہ صورتحال کے باوجود ہم بیدار ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔ ہم نہا دھو کر عطر اور سُرما لگا تے ہیں ، دال گوشت کھا کر اے سی میں سوجاتے ہیں،شام کو کسی کے ولیمہ ، دعوت یا پھر دھابے پرجاکر کھانا کھالیا اور پھر سوگئے۔
کیا ہمیں یاد نہیں کہ صاحبہ کرام نے نمازیں ادا کیں ، دعائیں مانگیں اور 313 نے ملکر جنگ بدر بھی جیت لی۔ اُن کے پاس منصوبہ بندی تھی،اُن کے پاس حوصلہ تھا، اُن کے پاس عزم ولولہ اور تھا۔ہمارے پاس منصوبہ بندی ہے مگر بریانی ،پلاء کھچڑا اور پایہ بنانے کی منصوبہ بندی ہے۔
ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم یہ سمجھتے ہیں کہ جس طرح یمن کے بادشاہ ابرہہ نے مکہ پر حملہ کیا اور خانہ کعبہ کو مسمار کرنا چاہا تو ابابیلوں نے حفاظت کی، تو آج بھی ابابیل ہی حفاظت کریں گی۔ ہاتھیوں کی عظیم فوج کو نازک سی چڑیوں نے اپنی چونچ میں کنکریوں سے ہاتھی والے فوجیوں کو مار گرایا۔ قرآن کریم میں یہ واقعہ سورۃ الفیل میں موجود ہے۔
جاگو مسلمانوں ! جاگوعلمائےکرام !! علماءکرام کو چاہیے کہ اب مسلکوں کے مسائل کو بالائے طاق رکھیے۔ ملک میں موجودہ مسائل پرروشنی ڈالیے۔ ہمیں صحیح سمت کا تعین کرنا ہے ۔کوئی چیز ناممکن نہیں ہے۔ علمائے کرام کو متحد ہونے کاوقت آگیا۔مسلمانوں کی رہبری کرنے کاوقت آگیا ہے۔ جمعہ کا مجمع صرف نماز کے لیے نہیں بلکہ دینی اوردنیاوی رہبری کے لئے بھی ہوتا ہے۔ صاحبہ کرام کے دور میں بڑے بڑے فیصلے مسجدوں میں لیے جاتے تھے۔
اگر ہم یہ سمجھ لے کہ ڈر اور صبر میں کیا فرق ہے تو ہم زندگی کے بیشتر نشیب و فراز سے واقف ہوجائیں گے۔ افسوس نہ ہم ڈر و صبر کا فرق سمجھ رہے ہیں اور نہ ہمارے علماء ہمیں سمجھا رہے ہیں۔ہمیں کنویں کھود کر کھیتیاں سیراب کرنی ہیں، صرف ہاتھ اُٹھانے سے بارش نہیں ہونے والی۔ یاد رکھو اب ابابیلوں کا لشکر نہیں آنے والا۔اپنے کعبے کی حفاظت ہمیں خود کرنی ہوگی۔ہمت و حوصلہ اور سنجیدگی ترقی کا زینہ اور خوش بختی کا پیمانہ ہے۔دنیا کی تاریخ میں ہر اہم اور عظیم تحریک صرف حکمت اور حوصلہ سے ہی کامیاب ہوتی ہے۔قرآن کریم میں واضح ہے کہ اللہ کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلیں۔
<[email protected]>