یو این آئی
غزہ//غزہ کی شہری دفاع کی ایجنسی نے کہا ہے کہ غزہ میں 14 ماہ سے زیادہ عرصے سے جاری جنگ میں اسرائیلی حملوں میں کم از کم 35 فلسطینی جاں بحق ہو گئے ۔تشدد ایسے وقت میں بھی جاری ہے جب لڑائی میں شامل فلسطینی گروہوں کے مطابق جنگ بندی معاہدہ طے ہو جانے کا “پہلے کی نسبت زیادہ قریبی” امکان ہے ۔اسرائیل کو جنگ کے دوران اپنے پر بڑھتی ہوئی تنقید کا سامنا ہے جس میں انسانی حقوق کے تنظیموں کی جانب سے “نسل کشی کی کارروائیوں” کا الزام بھی شامل ہے جبکہ اسرائیلی حکومت اس کی سختی سے تردید کرتی ہے ۔پوپ فرانسس نے اتوار کے روز غزہ میں بچوں کی ہلاکتوں اور سکولوں اور ہسپتالوں پر حملوں کو نمایاں کرتے ہوئے اسرائیلی “مظالم” کی مذمت کی۔پوپ کا دو دنوں میں یہ دوسرا تبصرہ تھا حالانکہ اسرائیل نے ان پر “دوہرے معیار” کا الزام لگایا ہے ۔سول ڈیفنس ایجنسی کے ترجمان محمود بسال نے بتایا کہ وسطی غزہ کے دیر البلح میں ابو سمرۃ خاندان کے ایک گھر پر فضائی حملے میں کم از کم 13 افراد ہلاک ہو گئے ۔اے ایف پی کے ایک فوٹوگرافر نے رہائشیوں کو ملبے تلے ممکنہ طور پر زندہ بچ جانے والوں کی تلاش کرتے ہوئے دیکھا جبکہ لوگ دوسرے ایسے سامان کی تلاش میں تھے جو وہ بچا سکتے تھے ۔ایک قریبی احاطے میں کمبلوں میں لپٹی لاشیں ریتلی زمین پر رکھی ہوئی تھیں۔فوج نے کہا کہ اس نے اسلامی جہاد کے ایک عسکریت پسند کو نشانہ بنایا جو دیر البلح میں سرگرم تھا۔اسرائیلی فوج نے اے ایف پی کو ایک بیان میں کہا، “ابتدائی جانچ کے مطابق حملے کے نتیجے میں ہونے والی ہلاکتوں کی تعداد ملٹری کے پاس موجود معلومات سے مطابقت نہیں رکھتی۔”دیر البلح کے رہائشی نعیم الرملاوی نے کہا، “ہم ہر روز اپنے عزیزوں سے محروم ہو رہے ہیں۔ میری خدا سے دعا ہے کہ جلد ہی جنگ بندی ہو جائے اور غزہ کے باشندوں کو آخرِ کار اس المناک زندگی کی بجائے ایک باوقار زندگی گذارنے کا موقع ملے گا۔”فوج نے مزید شمال میں غزہ شہر کے ایک سکول پر ایک الگ حملے کی بھی تصدیق کی۔
اسرائیل200 فلسطینی قیدیوں کو رہا کرنے پر تیار
یو این آئی
تل ابیب//اسرائیلی مذاکراتی وفد کمزور امکانات کے باوجود غزہ معاہدے سے نکلنے کا راستہ تلاش کرنے کے لیے دوحہ میں ہے ۔دریں اثنا فلسطینی اور اسرائیلی ذرائع نے اتوار کے روز بتایا کہ اسرائیل نے عمر قید کی سزا پانے والے تقریباً 200 فلسطینیوں کو رہا کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے تاہم ان قیدیوں کی شناخت پر تنازع پیدا ہو گیا ہے جنہیں رہا کیا جائے گا۔ اسرائیل قید رہنما مروان برغوثی کو رہا ہونے والوں میں شامل نہیں کر رہا۔العربیہ کے مطابق اسرائیلی براڈکاسٹنگ اتھارٹی نے رپورٹ کیا ہے کہ تنازع کا ایک اہم نکتہ فلسطینی قیدیوں کی تعداد سے متعلق ہے جن کا اسرائیل مطالبہ کرتا ہے کہ وہ اس معاہدے سے خارج ہو جائیں۔ اسرائیل نے 65 فلسطینی سکیورٹی قیدیوں کی رہائی کو ویٹو کرنے کے حق کا مطالبہ کیا ہے ۔ حماس سمجھتی ہے کہ اسرائیل کا یہ مطالبہ مذاکرات میں بڑی رکاوٹ ہے ۔اسرائیلی براڈکاسٹنگ اتھارٹی نے اسرائیل کے ایک باخبر سیاسی ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ مروان برغوثی جو فلسطینی رہنماوں میں سے ایک سمجھے جاتے ہیں کو حتمی معاہدہ ہونے کے باوجود رہا نہیں کیا جائے گا۔ قبل ازیں اسرائیلی اخبار ‘‘یدیعوت احرونوت’’ نے اسرائیلی حکام کے حوالے سے خبر دی تھی کہ امریکی صدر جو بائیڈن کی مدت ختم ہونے سے پہلے قیدیوں کے تبادلے کے معاہدے تک پہنچنے کے امکانات کم ہیں کیونکہ اسرائیل جامع معاہدے کے بجائے جزوی معاہدے پر غور کر رہا ہے ۔اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک حل کی طرف بڑھنے کے اشارے موجود ہیں اور مذاکرات کافی دیر سے جاری ہیں لیکن ایک حتمی معاہدہ ابھی تک واضح طورپر سامنے نہیں آیا ہے اور ہوسکتا ہے کہ آئندہ بھی ایسا نہ ہو۔ اختلاف جاری رہتے ہیں تو دونوں فریقوں کے درمیان خلیج بڑھ جائے گی۔ خاص طور پر بنیادی مسائل پر مذاکرات کو آگے بڑھانے میں وقت کا عنصر اہم ہے ۔ کیونکہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ جلد ہی وائٹ ہاؤس میں داخل ہو رہے ہیں۔بنیادی اختلافات فلسطینی قیدیوں کی شناخت اور جنگ کے خاتمے کے گرد گھوم رہے ہیں۔ حماس نے ان فلسطینی قیدیوں کی فہرست حوالے کی ہے جن کی رہائی کا مطالبہ کیا گیا ہے جس میں پہلے مرحلے میں 250 قیدی شامل ہیں ۔ دوسری طرف اسرائیل نے 34 اسرائیلی یرغمالیوں کی رہائی کا مطالبہ کیا ہے ۔اسرائیل کچھ شخصیات کی رہائی سے انکار کرتا آ رہا ہے جن میں تحریک الفتح کے رہنما مروان برغوثی شامل ہیں۔ اسی طرح جن دیگر مسائل پر تنازع جاری ہے ان میں رفح کراسنگ سے اسرائیلی فوج کے ہٹنے کا معاملہ بھی ہے ۔ اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکام نے امریکی صدر جو بائیڈن کی مدت ختم ہونے سے قبل ایک جامع ڈیل طے پانے کے امکان کو مسترد کر دیا۔