عظمیٰ نیوزڈیسک
قاہرہ// جیسے ہی غزہ میں جنگ بندی ہو رہی ہے، حماس کی سکیورٹی فورسز سڑکوں پر واپس آگئی ہیں۔ ان کی مسلح گروپوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئی ہیں اور مبینہ غنڈوں کو ہلاک کیا جا رہا ہے۔ مزاحمتی تنظیم کا کہنا ہے کہ یہ ان علاقوں میں امن و امان بحال کرنے کی کوشش ہے جہاں سے اسرائیلی فوجیوں کا انخلا ہوا ہے۔مہینوں کی لاقانونیت کے بعد کچھ فلسطینیوں کی طرف سے طاقت کا مظاہرہ، اب اس جنگ بندی کو خطرے میں ڈال سکتا ہے۔ کیونکہ حماس کے 7 اکتوبر 2023 کے حملے میں بنائے گئے تمام زندہ یرغمالی اب اسرائیل پہنچ چکے ہیں۔اسرائیلی وزیر اعظم بینجمن نتن یاہو نے بارہا کہا ہے کہ جنگ اس وقت تک ختم نہیں ہوگی جب تک حماس کو ختم نہیں کیا جاتا، اور امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے جنگ بندی کے منصوبے میں حماس کو غیر مسلح کرنے اور اقتدار ایک بین الاقوامی سطح پر زیر نگرانی ادارے کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا گیا ہے جس کی تشکیل ابھی باقی ہے۔حماس نے ابھی تک ان شرائط کو مکمل طور پر قبول نہیں کیا ہے اور کہا ہے کہ ان شرائط پر مزید مذاکرات کی ضرورت ہے۔ حماس کا کہنا ہے کہ وہ دوسرے فلسطینیوں کو اقتدار سونپنے پر آمادہ ہے لیکن مزاحمت اقتدار کے دوران افراتفری پھیلانے کی اجازت نہیں دے گی۔ اسرائیلیوں کو خدشہ ہے کہ جب تک حماس مسلح ہے، وہ غزہ میں اثر و رسوخ استعمال کرے گی۔۔ اور اپنی فوجی صلاحیتوں کو از سر نو تعمیر کر سکتی ہے، چاہے کوئی آزاد ادارہ برائے نام حکمرانی کا استعمال کرے۔ٹرمپ نے منگل کو کہا کہ حماس نے کچھ گروہوں کو ختم کیا جو جو بہت برے تھے” اور گینگ کے متعدد ارکان کو ہلاک کر دیا ہے۔ ٹرمپ نے مزید کہا کہ، حماس کی اس کارروائی نے مجھے پریشان نہیں کیا۔لیکن امریکی صدر نے حماس سے ہتھیار ڈالنے کے اپنے مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا: ” وہ غیر مسلح ہوں گے، اور اگر وہ ایسا نہیں کرتے تو ہم انہیں غیر مسلح کر دیں گے، اور یہ جلد اور شاید طاقت کے استعمال سے ہو گا۔”18 سال قبل غزہ میں مزاحمتی تنظیم کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے بعد حماس کے زیرانتظام پولیس نے عوامی تحفظ کو اعلیٰ سطح پر برقرار رکھا اور اختلاف رائے کے خلاف کریک ڈاؤن بھی کیا۔ وہ حالیہ مہینوں میں کمزور ہوگئے کیونکہ اسرائیلی فورسز نے غزہ کے بڑے علاقوں پر قبضہ کر لیا اور حماس کی سکیورٹی فورسز کو فضائی حملوں سے نشانہ بنایا۔طاقتور مقامی خاندانوں اور مسلح گروہوں – بشمول اسرائیل کے حمایت یافتہ حماس مخالف دھڑوں نے – جنگ کا فائدہ اٹھایا۔ بہت سے لوگوں پر انسانی امداد کو ہائی جیک کرنے اور اسے منافع کے لیے بیچنے کا الزام ہے۔