اس بات میں کسی شک کی گنجائش نہیں کہ ہمارا معاشرہ قریباً سو فیصد مسلم معاشرہ ہے اور ہم اس پر فخر بھی کرتے ہیں۔ ہم آئے دن کوئی نہ کوئی اسلامی پروگرام کرتے رہتے ہیں اور بڑے شوق سے ان میں شریک بھی رہتے ہیں ۔یہ پروگرام حجاب، نماز، روزہ، گھریلو معاملات اور مسائل انسانیت وغیرہ سے متعلق ہوتے ہیں اور ان میں ہم اسلامی تعلیمات کی روشنی میں ہم گفتگوئیں کرتے اور سنتے ہیں۔یہ بات یقینی ہے کہ ان پروگراموں سے ہمارے معاشرے میں بہت سی مثبت تبدیلیاں آتی ہیں لیکن بھر بھی مثالی معاشرہ کے قیام کا خواب تشنہ ٔ تعبیر ہے۔ہمیں یہ پتہ ہونا چاہیے کہ ایک اچھا اور مثالی معاشرہ تعمیر کرنے کے لیے جس طرح حقوق اللہ ضروری ہیں ،اسی طرح حقوق العباد بھی ضروری ہیں۔
حقوق العباد کا مطلب یہ ہے کہ ہم اپنے پڑوسی ،دوست، اپنے مسلمان بھائی یا معاشرے کے کسی بھی فرد کا حق نہ کھائیں اور نہ کسی پر ظلم کریں،چاہے وہ ظلم وزیادتی معاشی ہو یا ذہنی سطح پراور انسانیت کی بنیاد پر ایک دوسرے کی مدد کریں۔ اگر ہم ان چیزوں کا اہتمام اپنی روزمرہ زندگی میں نہ کریں تو ہماری عبادتیں آخرت کے دن قبول ہوں گی اس پر سوالیہ نشان لگ جاتا ہے۔اگر ہم لمبی لمبی نمازیں اور روزے رکھ کر دوسروں کا حق کھارہے ہیں یا کسی اور وجہ سے ظلم کرتے ہیں تو اس کا مطلب ہی یہ ہے کہ نماز اور روزے رکھنے سے جو تزکیہ نفس ہم چاہتے تھے وہ ہوا نہیں بلکہ شائد اس سے بھی ہم دوسروں کو دھوکے میں رکھنا چاہتے ہیں،لیکن ہمیں اتنا معلوم ہونا چاہیے کہ اللہ تو دیکھ رہا ہے اور آخرت میں تو کچھ ملنے والا نہیں بلکہ ایک نہ ایک دن اور کسی نہ کسی صورت میںا س دنیا میں بھی ا س کاحساب دینا ہے اور’’ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ‘‘ کے مصداق اس خودفریبی میں آخرت بھی تباہ ہوجاتی ہے اور دنیا بھی۔اللہ ہم سب پر رحم کرے۔
جہاں ہمیں بحیثیت معاشرے کے ایک فرد کے طور پر اپنے پڑوسیوں اور دوسرے مسلمان بھائیوں کے حقوق کی حفاظت کرنی چاہیے، وہیں یہ بات ضروری ہے کہ اس معاشرہ پر جو لوگ حکومت کر رہے ہیں وہ بھی اللہ کے بعد عوام کے یہاںجوابدہ ہیں ۔کیا وہ اپنے کام جس کے لیے لوگوں نے انہیں چنا خوش اُسلوبی سے انجام دے رہے ہیں؟ حکمرانوں پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنی رعایا کے ساتھ انصاف کے ساتھ پیش آئیں اور معاشرے میں رشوت، جعل سازی، دھوکہ دہی وغیرہ جیسے جرائم پر روک لگائیں ۔ اگر حکومت ایسا کرنے میں ناکام ہوجاتی ہے تو اس کا سیدھا مطلب یہی ہے کہ خود حکمران ٹولہ ان جرائم میں شامل ِکار ہے ۔ایک مسلم معاشرہ ہونے کے ناطے ہمیں علمیت ہونی چاہیے کہ قرآن اس بارے میں کیا فرماتا ہے:’’ اور یتیموں کو ان کا مال دے دو اور ناپاک کو پاک سے نہ بدلو اور ان کے مال اپنے مال کے ساتھ ملا کر نہ کھا جائو۔یہ بڑا گناہ ہے۔‘‘ (سورہ نساء، آیت ۲)
نیز فرمایا:’’ اور اے لوگو ٹھیک ٹھیک انصاف کے ساتھ پورا ناپو اور تولو اور لوگوں کو ان کی چیزوں میں گھٹا نہ دیا کرو اور زمین میں فساد نہ پھیلائو۔‘‘(سورہ ہود ، آیت ۸۵)
قرآن کے مطابق رشوت اور دھوکہ دہی سماج یا انسان کے تعیں بدترین حرکت اور بہت بڑا گناہ ہے اور اس سلسلے میں خدانے باربار واضح ہدایات دی ہیں اور گناہ گاروں کو بدترین سزا (دنیا و آخرت میں) دینے کا وعدہ کیا ہے۔ کہا گیا ہے کہ جو انسان زیادہ اعلیٰ مقام یا منصب پر رہ کر اچھا یا غلط کاری کرے گا اس کی اجر و سزا بالترتیب اتنی ہی بڑی ہوگی۔اسلامی دور حکومت میں ایسے بہت سے حکمران اٹھے ہیں جنہوں نے اپنے معاشروں میں عدل وانصاف کا ایسا معیار قائم کیا جس کی مثالیںآج غیر مسلم بھی دیتے ہیں۔حضرت عمر فاروق ؓ اور حضرت عثمان غنی ؓ کی دو بڑی مثالیں ہیں۔ حضرت عمر فارق ؓتو خود گھر گھر جاکر دیکھتے تھے کہ ا ٓیا ان کی رعایا کا کوئی فرد بھوکا تو سویا نہیں ۔انہوں نے کچھ ایسی انتظامیہ ترتیب دی تھی جہاں کوئی بھی عام فرد، رشوت خور حکومتی کارکن(جیسے موجودہ سیاست دان ہوتے ہیں) کے خلاف شکایت درج کرتا تھا، اس لئے چاپلوسی ، اقرباء پروری اور رشوت خوری کا نام و نشان بھی نہیں تھا۔حضرت عمر ؓکے دور حکومت میں ایسے بہت سے حکومتی اہلکاروں کو سزا بھی دی گئی جنہوں نے اپنی تنخواہوں کے علاوہ حکومتی خزانے سے کسی بہانے پیسے یا کوئی دوسری چیز نکالی۔اسی طرح اس بزرگ عورت کا قصہ تاریخ نے یاد رکھا جب وہ حضرت عمر ؓکے سامنے ان ہی کی شکایت کرتی ہیں جسے سننے کے بعد حضرت عمر ؓخود اپنے کندھوں پر اناج کی بوری اس بزرگ عورت کے گھر تک لاتے ہیں۔اسی طرح حضرت عثمان غنی ؓکی سلطنت بھی بڑی تھی اورساتھ ہی ان کا خزانہ بھی وسیع تھا ،لیکن ان کی رعایا کو اس خزانے کا پورا فائدہ پہنچتا تھا۔بہر حال ایسا حکمراں جو خود توعیش و عشرت کی زندگی گزار رہا ہو لیکن اس کی رعایا بھوک، رشوت، دھوکہ دہی، ظلم سہہ رہی ہو ، ایسے حکمران کے لیے اللہ نے سخت جوابدہی اور بد ترین عذاب کا وعدہ کیا ہے ۔ حضور ؐ نے فرمایا ہے :’’ جب اللہ کسی بندے کو کسی جگہ کے لوگوں کا حاکم بناتا ہے اور وہ ایمانداری کے ساتھ ان کی حفاظت نہیں کرتا تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں پائے گا۔‘‘ (صحیح بخاری : جلد ۹،کتاب۸۹، شمارہ ۲۶۴)
مندرجہ بالا واقعات کا ذکر محض اس لئے کیا گیا کہ ہم ا سلامی تعلیمات اور انسانیت کی بنیاد پر جان لیں کہ حکومت ی منصب داروں کی ذمہ داریاں رعایا کے تئیں کیا ہوتی ہیں۔محض سڑک ،پانی اور بجلی اور نوکریوں کے اعلان کرنا سرکار کی ذمہ داریوں میں سے نہیں بلکہ ایک لائق و فائق سرکار کا یہ پہلا فرض ہے کہ وہ یہ دیکھے کہ کیا بغیر رسوخ کے آدمی تک پانی پہنچ رہا ہے ؟کیا رشوت کے بغیر سرکاری انتظام چل رہا ہے ؟کہیں عوام کابے نوا طبقہ انصاف سے محروم تو نہیں؟جو رقومات سڑک یا کسی پُل کے لیے مختص کی گئی ہیں کیا ان کا صحیح استعمال ہورہا ہے؟ کسی پر ظلم تو نہیں ہورہا ہے ؟مظلوم کو انصاف مل رہا ہے؟ سرکاری نوکریوں پر با صلاحیت اور اہلیت والے لوگوں کا تقرر ہوتا ہے کہ نہیں؟ان امورات پر نظر رکھنا یا ان پر حکام کی جوابدہی کرنا عوام کا پیدائشی حق ہے۔ سرکار کا یہ بھی فرض ہے کہ وہ ان عوامی کاموں کی نگرانی پر ایماندار اور باصلاحیت لوگوں کا تقرر کرے تاکہ قوم صحیح سمت میں ترقی کرے۔مغرب کی مثال ہمارے سامنے ہے ۔ ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ بہت ساری منفی چیزوں کے باوجود مغرب نے آج جتنی مادی ترقی کی ہے، اس کی بڑی وجہ مغربی معاشرے میں رشوت ، دھوکہ دہی، اقربا ء پروری کا موجود نہ ہونا ہے۔ وہاں سب سے زیادہ اہمیت آدمی کی صلاحیت ، میرٹ اور اہلیت کو دی جاتی ہے ۔یہ نہیں دیکھا جاتا کہ فرد کس طبقے یا ذات سے تعلق رکھتا ہے یا کس کا رشتہ دار کو نسا وزیر ومشیر ہے، کون رشوت کی موٹی رقم اداکر تاہے ۔
ہمارے معاشرے کو آج جس طرح رشوت ، چاپلوسی، اقربا پروری، دھوکہ دہی، ذات پرستی وغیرہ بیماریاں لاحق ہیں ،ان سے کشمیری قوم میں اخلاق کی گراوٹ میں تیزی آرہی ہے ۔اگر اس آفت پر بروقت قابو نہ پایا گیا تو پورا معاشرہ بکھرکررہ جائے گا ۔نفس پروری ، شکم پروری، حرص و لالچ، راتوں رات کھرب پتی بننے جیسی شیطانی خواہشات نے ہماری قوم کو پوری طرح اپنی لپیٹ میں لے لیا ہوا ہے۔ بہر کیف اگر ہم اتنی خرابیوں کے باوجود ایک ایسا مثالی معاشرہ تعمیر کریں جہاں ہر ایک کو انصاف ملے، جہاں کوئی ظلم نہ ہو اور اگر کوئی ظلم کا واقعہ پیش آئے تو مظلوم کو جلد انصاف ملے، جہاں حق والے کو اپنا حق ملے تو ہمارے مصائب ختم ہوں گے۔ یہ مثالی معاشرہ تعمیر کرنے میں جہاں عوام و خواص کا اہم رول بنتا ہے ،وہاں علما ء اور سرکاری اہلکاروں کو بھی اس ضمن میں اپنا رول ادا کرنا ہوگا۔ نیز کامیابی کی منزل پانے کے لئے ہمیں اپنا بھی محاسبہ کرنا ہوگا کہ کہیں ہم سے کوئی غلطی یا گناہ تونہیں ہورہا ہے،کہیں ہم کسی کا حق تو نہیں مار رہے ہیں یا کسی پر ذہنی یا جسمانی ظلم تو نہیں کر رہے ہیں ۔ایک اسلامی معاشرے کی تعمیر فرد کی اپنی بہتری اور محاسبہ سے شروع ہوتی ہے۔ ہمیں یہ سمجھ لینا ہوگا کہ محض عبادات کے انبار لگانے سے کچھ نہیں ہوگا جب تک نہ ہم اپنے اندرون کو نہ بدل ڈالیں یا جب تک عبادات کی روح ہماے اندر کے انسان کو نہ بدل دے ، تب تک ہماری مسلمانیت کا کوئی مصرف نہیں بلکہ اس وقت تک اللہ کے تعلق جوڑنا ریا کاری کے سوا کچھ نہیں اور فردیاسماج پر اس دکھاوے کاعذاب بہت سخت ہوتاہے۔ معاشرے کے ہر فرد کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ہر نا انصافی کے خلاف مل کر لڑ ے اور اخلاقی وانسانی طاقت کا منصفانہ استعمال کرکے حکومت اور اس کے کارندوں کے ٹھیک کاموں پر شاباشی دے اور غلط کاموں کو ڈنکے کی چوٹ پر سامنے لائے، اپنوں اوراجنبیوں کے لئے انصاف کے لیے یکساں طورکو شاں رہے ۔ اسی میں ہمارے لئے مجموعاً بھلائی ہے اور انہی چیزوں سے ایک اسلامی معاشرے کی تعمیر ممکن ہے۔ غرض حقوق اللہ اور حقوق العباد کی پگڈنڈی پر خلوص دل اور استقامت کے ساتھ گامزن رہنا ہی اسلام ہے ۔
پتہ : جواہر لال نہرو یونیورسٹی، نئی دہلی
ای میل[email protected]