ندیم اشرف
حضرت الامام محقق عالم، محدث وفقیہ، وسیع المطالعہ، انتہائی ذکی وذہین، قوت حافظہ بے مثال اور اسلامی علوم وفنون کا چلتا پھرتا کتب خانہ کہے جاتے تھے، حضرت شیخ الہند کے ممتاز شاگرد اور ان علوم کے وارث وامین تھے۔
ولادت وتعلیم: ۲۷شوال المکرم ۱۲۹۲ ھ مطابق ۲۵ نومبر ۱۸۷۵ ء بروز شنبہ بوقت صبح اپنے ننھیال کے ہاں بمقام دودھواں وادی لولاب کشمیر میں پیدا ہوئے ۔ساڑھے چار سال کی عمر میں اپنے والد مولانا سید محمد معظم شاہ ؒ سے قرآن پاک پڑھنا شروع کیا غیر معمولی ذہانت وذکاوت کی بناء پر ڈیڑھ سال کی قلیل مدت میں قرآن کے علاوہ فارسی کی چند ابتدائی کتابیں ختم کر کے علوم متداولہ کی تحصیل میں مشغول ہو گئے اور ابھی بمشکل ١٤ سال کی عمر تھی کہ حصول علم کے جذبۂ بے پایاں نے ترک وطن پر آمادہ کر دیا۔ تقریبا ًتین سال آپ نے ہزارہ ( خیبر پختونخوا ) کے متعدد علما وصلحاء کی خدمت میں رہ کر مختلف علوم وفنون میں دست گاہ حاصل کی۔
دارالعلوم آمد : دیوبند کی شہرت نے مزید تکمیل کے لیے بے چین کر دیا اور ۱۳۱۰ ھ مطابق ۱۸۹۲ ء میں ہزارہ سے دارالعلوم دیوبند تشریف لائے اور چار سال رہ کر یہاں کے مشاہیر وقت مل سے فیوض علمیہ و باطنیہ کا بدرجہ اتم استفادہ کیا، اور چند ہی سال میں دارالعلوم میں شہرت وقبولیت کے ساتھ ایک امتیازی شان حاصل کر لی۔ ١٣١٤ ھ میں دارالعلوم سے فارغ ہوکر حضرت گنگوہی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور سند حدیث کے علاوہ باطنی فیوض سے بھی مستفیض ہوئے اور خلافت حاصل کی ۔
فراغت کے بعد دہلی میں مدرسہ امینیہ میں کچھ دنوں فرائض تدریس انجام دیئے۔ پھر اپنے علاقہ خواجگان قصہ بارہ مولا میں مدرسہ فیض عام کی بنیاد رکھی ۔۱۳۲۳ ھ میں حج بیت اللہ کے لیے تشریف لے گئے، وہاں کے کتب خانوں، مخطوطات اور قلمی نوادرات سے استفادہ کا موقع ملا ، حجاز سے واپسی کے بعد حضرت شیخ الہند نے دیوبند بلا لیا ، شیخ الہند نے حج کا قصد کیا تو شاہ صاحب کو جانشینی کا شرف بخشا۔ ۱۳٤٦ھ میں اہتمام دارالعلوم سے بعض اختلافات کے باعث دارالعلوم سے مستعفی ہوگئے اور سورت کی ایک بستی ڈابھیل میں درس حدیث کی ذمہ داری قبول کی ، ۱۳۵۱ ھ تک گجرات کی سرزمین آپ کے فیض سے مستفید ہوتی رہی ۔
ان کی تربیت سے ایسے عالم اور عظیم محدث ، مفسر ، فقیہ ، ادیب ، خطیب ، مؤرخ، شاعر ، مصنف اور عارف پیدا ہوئے کہ جن کی نظیر نہیں ملتی ۔ مشہور تلامذہ میں شاہ عبد القادر رائپوری، مفتی محمد شفیع، سید مناظر احسن گیلانی ، مولانا ادریس کاندھلوی ، سید بدر عالم میرٹھی ، مولانا حفظ الرحمن سیوہاری ، مولانا یوسف بنوری، مفتی محمد امرتسری ، حبیب الرحمن لدھیانوی ، محمد منظور احمد نعمانی اور قاری محمد طیب رحمہم اللہ ہیں ۔
حدیث میں بلند مقام : حضرت مولانا انورشاہ کو قدرت کی جانب سے حافظہ ایسا عدیم النظیر بخشا گیا تھا کہ ایک مرتبہ کی دیکھی ہوئی کتاب کے مضامین و مطالب تو در کنار عبارتیں تک مع صفحات وسطور کے یاد رہتیں اور دوران تقریر بے تکلف حوالے پر حوالے دیتے چلے جاتے تھے ، اس کے ساتھ مطالعہ کا اس قد رشوق تھا کہ جملہ علوم کے خزانے ان کے دامن جستجو کی وسعتوں کو مطمئن اور تشنگی علم کوسیراب نہ کر سکتے تھے ، کثرت مطالعہ اور قوت حافظہ کے باعث گویا ایک متحرک و متکلم کتب خانہ تھے ، صحاح ستہ کے علاوہ حدیث کی اکثر کتابیں برنوک زبان تھیں ، تحقیق طلب مسائل میں جن کی جستجو اور تحقیق میں عمر میں گزر جاتی ہیں ، سائل کے استفسار پر چند لمحوں میں اس قدر جامعیت کے ساتھ جواب دیتے کہ اس موضوع پر سائل کو نہ توشبہ باقی رہتا اور نہ کتاب دیکھنے کی ضرورت ، پھر مزید لطف یہ کہ کتابوں کے ناموں کے ساتھ صفحات ، وسطور تک کا حوالہ بھی بتلا دیا جاتا تھا ، وہ ہر ایک علم وفن پر اس قدر برجستگی کے ساتھ تقریرفرماتے کہ گویا ان کو تمام علوم مستحضر ہیں اور ابھی ابھی ان کا مطالعہ کیا ہے ۔سخت مجاہدہ اور بے شل قوت حافظہ سے حدیث میں وہ مقام حاصل کیا کہ متقدمین علماء حدیث کی یادتاز و کردی ، مولانا شبیر احمد عثمانی صاحب رح فتح الملہم فرماتے ہیں : ’’ اگر کوئی مجھ سے پوچھے کہ تم نے ابن حجر عسقلانی ؒ کو دیکھا ہے یا ابن دقیق العید سے تمہاری ملاقات ہوئی ہے یا تم کو سلطان العلماء عزالدین بن عبدالسلام کی زیارت کی سعادت نصیب ہوئی ہے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ مجھے ان ہستیوں سے ملاقات کا موقع ملا ہے ، زمانہ کی گردشوں کا فرق ہے ، ورنہ حضرت شاہ صاحب مرحوم اگر قدیم صدیوں میں پیدا ہوئے ہوتے تو سیر وسوانخ میں ان کا ذکر مذکورہ اشخاص کے پہلو بہ پہلو کیا جاتا ۔
درس حدیث کی خصوصیات : محدث کشمیریؒ کے علمی تبحر اور علم کے بحرذخار ہونے کی وجہ سے درس حدیث صرف علوم حدیث ہی تک محدود نہ رہتا تھا بلکہ اس میں ہرعلم وفن کی بحث آتی تھی ، اگر معانی و بلاغت کی بحث آجاتی تو یوں معلوم ہوتا تھا کہ گویا علم ومعانی کا بی مسئلہ اس حدیث کے لیے واضع نے وضع کیا تھا ، معقولات کی بحث آجاتی اور معقولیوں کے کسی مسئلہ کا رد فرماتے تو اندازہ ہوتا کہ یہ حدیث گویا معقولات کے مسئلہ ہی کی تردید کے لیے قلب نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر وارد ہوئی تھی ۔ متون حدیث کی معتمد کتابوں کا ڈھیر آپ کے سامنے ہوتا تھا اور تفسیر الحديث بالحدیث کے اصول پر کسی حدیث کے مفہوم کے بارے میں جو دعوی کرتے، اسے دوسری احادیث سے مؤید اور مضبوط کرنے کے لیے درس ہی میں کتب پر کتب کھول کر دکھائے جاتے تھے ۔ جب ایک احادیث کی واضح تفسیر سے مفہوم متعین ہوجاتا تو نتیجتاً وہی فقہ حنفی کا مسئلہ نکلتا تھا اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ حدیث فقہ حنفی کو پیدا کر رہی ہے ۔ یہ ہرگز مہفوم نہیں ہوتا تھا کہ فقہ حنفی کی تائید میں حدیثوں کو پیش کیا جارہا ہے ۔ یعنی گویا اصل تو مذہب حنفی ہے ۔
حضرت شاہ صاحب کا درس فقہ ، تاریخ ، ادب ، فلسفہ ، منطق ، ہیئت ، ریاضی اور سائنس وغیرہ تمام علوم جدیدہ وقت قدیمہ پر مشتمل ہوتا تھا اور اس لئے اس جامع درس کا طالب علم ہر علم وفن کا مذاق لے کر اٹھتا تھا اور اس میں یہ استعداد پیدا ہو جاتی تھی کہ وہ بضمن کلام خدا اور سول ہرفن میں محققانہ انداز سے کلام کر جائے ۔
تصانیف : حضرت امام العصر محدث کشمیری باوجود حیرت انگیز جامعیت ، تبحر ، کثرت معلومات اور وسعت مطالعہ کے بھی ذوق وشوق سے تصنیف و تالیف کی جانب مائل نہیں ہوئے، ہاں دینی وعلمی شدید تقاضوں کی وجہ سے چند رسائل یا دگار چھوڑ گئے نیز تلامذہ کی وساطت سے بھی ان کے کمالات علمیہ کا اچھا خاصا ذخیرہ امت کے ہاتھ آیا اس طرح اس محقق یگانہ اور نادر روزگار کے علمی تحقیقات سے دنیا کو استفادہ کا موقع میسر آیا ، ان نوادرات علمیہ میں حدیث سے متعلق کچھ کتابیں تو وہ ہیں جنھیں محدث کشمیری نے خود تالیف فرمائی ہیں بقیہ ان کے امالی ہیں جنھیں آپ کے تلامذہ نے درس حدیث کے وقت قلم بند کیا ہے ۔
( ۱ ) التصریح بما تواتر فی نزول المسیح ۔ ذخیرۂ احادیث صحاح ، جوامع ، مسانید اور معاجم سے منتخب کر کے ١٧٠ احادیث اور ۳۰ آثار صحابہ کو اس میں جمع کیا ہے ۔ ( ۲ ) فصل الخطاب فی مسئلہ ام الکتاب ( ۳ ) خاتمة الخطاب في فاتحة الكتاب۔ ان رسالوں کے ذریعہ مسئلہ قرات خلف الامام کو روایات کی روشنی میں فتح کیا ہے ۔ ( ٤ ) نیل الفرقدين فی مسئلۃ رفع الیدین ۔اس رسالہ میں مسئلہ رفع یدین پر نہایت تحقیق وتدقیق کے ساتھ قلم اٹھایا ہے ۔ ( ۵ ) بسط الیدین لنیل الفرقدین ۔نیل الفرقدین کا تکملہ ہے ( ۲ ) کشف الستر عن صلوۃ الوتر ۔ اس رسالہ میں مسئلہ وتر پر اس باب کی جملہ احادیث کی اس طرح شرح فرمائی ہے سارے تعارض رفع ہو گئے ۔ ( ۷ ) الاتحاف لمذہب النعمان مولانا ظہیر الحسن شوق نیموی کی شہرۂ آفاق تصنیف آثار السنن ( جس کی تالیف میں محدث کشمیری کا مشورہ بھی شامل تھا ) کا حاشیہ ہے ۔ ( ۸ ) حاشیہ سنن ابی داؤد غیر مطبوعہ
ان کے علاوہ ، اکفار ملحدین ، خزائن الاسرار ، خاتم النبیین اور تحیۃ الاسلام في حياة عیسی علیہ السلام ۔ نیز فیض الباری ، العرف الشذی ، انوار الباری وغیرہ آپ کی تقاریر اور افادات ہیں۔ ۲ صفر ۱۳۵۲ ھ بمطابق 7 فروری ، ۱۹۳۳ ء کو شب کے آخری حصہ میں تقریبا ٦٠ سال کی عمر میں دیو بند میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا ۔ ( دارالعلوم دیوبند اور علم حدیث )
<[email protected]