ذکرِ مصطفےٰؐ
غلام قادر جیلانی
حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی پیدائش ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کا آغاز ہے۔ آپؐ کی تشریف آوری اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے بلکہ یہ کہنا بالکل بجا ہے کہ جتنی بھی دیگر نعمتیں ہمیں میسر ہوئیں، ان سب کا سبب ذاتِ رسالت مآبؐ ہے۔ آپ کی تشریف آوری امت مسلمہ پر اللہ کا سب سے بڑا احسان ہے۔
آپ ؐ کی آمد سے قبل دنیا میں جہالت، ظلم اور بدامنی عام تھی۔ لوگ دین ِ حق سے ناآشنا تھے، شرک اوربُت پرستی کا دور دورہ تھا۔ عرب کی سرزمین میں کوئی منظم حکومت یا ریاست نہیں تھی بلکہ ایک قبائلی نظام رائج تھا اور ہر قبیلہ خود مختار اپنے سردار کے تابع ہوتا تھا۔ قبائل کے درمیان جنگیں معمول تھیں۔عورتیں خرید و فروخت کی چیزیں سمجھی جاتی تھیں، ان کی کوئی عزت نہیں تھی۔ بیٹی کی پیدائش شرمندگی سمجھی جاتی تھی اور بچیوں کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ نکاح کے کوئی واضح قوانین نہیں تھے، بلکہ کئی قسم کی شادیاں رائج تھیں۔ انتقام لینا عام تھا، اگر ایک قبیلے کا شخص دوسرے قبیلے کے شخص کو قتل کرتا تو پورے قبیلے سے بدلہ لیا جاتا تھا۔شراب نوشی اور جوا عام تھا۔ لوگ مختلف قبیلوں کے علاوہ مختلف مذاہب میں بھی بٹے ہوئے تھے۔ بت پرستی عام تھی اور لوگ ان بُتوں کو اپنی حاجت روائی کا ذریعہ سمجھتے تھے۔ کچھ عرب قبائل آگ کی پوجا کرتے تھے اور کچھ خدا کے وجود کے منکر تھے۔ سود کا ظالمانہ نظام رائج تھا، طاقتور کمزوروں کو غلام بناتے اور ان کے ساتھ جانوروں جیسا سلوک کرتے تھے۔ بے حیائی اور بدکاری عام تھی اور لوگ کھلے عام ان برائیوں میں مبتلا تھے۔ان حالات کے پس منظر میں آپ ؐ کی ولادت باسعادت نے معاشرے کو تاریکی سے روشنی کی طرف، جہالت سے علم کی طرف اور ظلم و ناانصافی سے عدل و انصاف کی طرف منتقل کیا۔ معاشرہ قرآن و سنت کے اعلیٰ اصولوں پر قائم ہوا، جس میں عدل، امن اور اخلاقیات کو اولین ترجیح دی گئی۔ لوگوں کو حق و باطل، نیکی اور بدی کے فرق سے آشنا کیا گیا اور ایک ایسا نظام تشکیل دیا گیا جس میں تمام انسان برابر سمجھے جاتے ہیں۔ اس مثالی اسلامی معاشرے کی بنیاد اللہ پر ایمان، اخوت، ہمدردی اور خدمتِ خلق پر رکھی گئی۔
آپؐ نے اللہ کی وحدانیت کا درس دیا اوربُت پرستی سے اجتناب کی تلقین کی۔ جہالت کو علم و معرفت کی روشنی سے دور کیا، بیت اللہ سے بتوں کو ہٹانے کا حکم دیا اور بت پرستی کی جڑیں اکھاڑ دیں۔ اپنی تعلیمات کے ذریعے لوگوں کو اخلاقی برائیوں سے نکال کر صحیح راستے پر لایا گیا۔ آپ ؐکی تعلیمات مسلمانوں کے لیے مساوات اور اخوت کا درس ہیں۔ آپؐ نے جنگ و جدل کو روکنے کے لیے امن و بھائی چارے کا پیغام دیا، غریبوں، یتیموں اور ناداروں کی خدمت کو عبادت کا درجہ دیا اور انسانیت کے کام آنے کا حکم دیا۔اگر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث نہ ہوتے تو دنیا میں عدل و انصاف اور مساوات کے بنیادی اصول قائم نہ ہوتے۔ بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا ایسا معمول تھا جس پر داد ملتی تھی اور بیٹی کو زندہ درگور کرنے والا فخر و مباہات کے ساتھ اتراتا ہوا چلتا تھا کہ اس نے اپنی آبرو کی حفاظت کی۔ جب حضورؐ جلوہ گر ہوئے تو خواتین کو عزت ملی اور بیٹیوں کو وقار کی مسند پر بٹھایا گیا۔ آپؐ نے حضرت فاطمہؓ کو اپنے جگر کا ٹکڑا کہااور لوگوں نے اسے کلمہ تحسین کے طور پر لیا۔ لیکن یہ اس وقت کے ظالمانہ سماج کے لیے ایک کلمہ جہاد تھا۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو شخص دو بیٹیوں یا دو بہنوں کو پروان چڑھا کر اللہ کی رضا کے مطابق ان کا نکاح کرائے، قیامت کے دن وہ میرے اتنا قریب ہوگا، جیسے ہاتھ کی دو انگلیاں۔ کہاں بیٹیوں کو زندہ درگور کرنا اور کہاں ان کو ماں باپ کی نجات کا ذریعہ بنانا! آج کل کے معاشرے میں خواتین کو جو وقار اور عزت کی زندگی گزارنے کے مواقع فراہم ہوئے ہیں، لوگوں کے دلوں میں خواتین سے محبت اور حسن سلوک کا جو جذبہ پیدا ہوا ہے، اگر ہم ساری زندگی اس کا شکر ادا کریں، تب بھی حق ادا نہیں ہو سکتا اور اس سے بڑھ کر کیا ہوسکتا ہے کہ آپؐ نے جنت کو کھینچ کر ماں کے قدموں کے تلے رکھ دیا۔آپؐ سے پہلے کمزور انسانوں کو غلام بنانا اور ان پر ظلم کرنا عام تھا۔ لیکن آپؐ کی تشریف آوری نے غلاموں کی دنیا بدل دی۔ آپؐ نے غلاموں کے ساتھ شفقت فرمانے کی تلقین فرمائی، ساتھ ہی غلاموں کو آزاد کرنے کی ترغیب دی اور اس کے بڑے فضائل بیان
فرمائے۔حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے رہنما اصول واضح کئے، جن پر چل کر نہ صرف ہماری آخرت بلکہ ہماری دنیا بھی حسین ہو سکتی ہے اور ایک مثالی معاشرے کا وجود ممکن ہے۔ آپؐ نے فرمایا کہ جو اللہ اور رسول ؐسے محبت کرے اور یہ چاہے کہ اللہ اور رسولؐ بھی اس سے محبت کریں تو اسے چاہیے کہ وہ تین چیزوں پر عمل کرے۔ ایک جھوٹ نہ بولے، دوسرا امانت میں خیانت نہ کرے اور تیسرا یہ کہ جب کوئی اس کی ہمسائیگی میں آئے تو ہمسائیگی کا حق ادا کرے۔ آپؐ نے سچائی کی ایسی مثالیں قائم کیں کہ کفار بھی آپؐ کو صادق اور امین کہتے تھے۔ آپؐ کے مطابق، مومن بحیثیت بشر بزدل ہو سکتا ہے، بخیل ہو سکتا ہے، لیکن یہ طے شدہ بات ہے کہ مومن کبھی جھوٹا نہیں ہو سکتا۔ بحیثیت مسلمان اگر ہم اپنے اندر جھانک کر دیکھیں تو بات بات پر جھوٹ بولنا اور پھر دینداری کے دعوے کرنا کہاں تک صحیح ہے؟ ہمیں تعلیم دی گئی ہے کہ ہماری زبان سے کبھی سچ کے سوا کچھ نہ نکلے۔ جھوٹ بولنے والے کے منہ سے اللہ کے نورانی فرشتے ایسی بدبو محسوس کرتے ہیں، جس سے وہ کوسوں دور بھاگتے ہیں اور جس گھر کے سارے افراد جھوٹ بولیں تو ایسے گھر میں یا ایسے معاشرے میں اللہ کی خیر و برکت کیسے آ سکتی ہے؟ یہی معاشرہ پھر نحوست اور بدامنی کا شکار ہوتا ہے۔ ایک مثبت معاشرے کی بنیاد ہمیشہ سچائی پر ہوتی ہے اور سچائی آقائے کریم ؐ کی تعلیمات کا بنیادی اصول ہے۔اس کے علاوہ، آپؐ نے اسلامی معاشرے کے لیے امانت داری کو اہم قرار دیا اور فرمایا کہ امانت میں خیانت کسی بھی صورت نہیں ہونی چاہیے۔ یہاں تک فرمایا کہ اگر کوئی تمہارے ساتھ بات کرتے وقت اِدھر اُدھر اس غرض سے دیکھے کہ اس کی بات کوئی اور نہ سنے، تو ہم پر واجب ہے کہ اس بات کو کسی تک نہ پہنچائیں۔ ہمسایوں کے حقوق کا خیال رکھنا آپؐ نے مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے لازمی قرار دیا ہے۔ آپ ؐ نے فرمایا کہ جو اللہ اور قیامت کے دن پر یقین رکھتا ہے، وہ مہمان کی تعظیم اور ہمسائے کی تکریم کرے۔ حضوراکرمؐ نے فرمایا کہ مجھے ہمسایہ کے حقوق پر اس قدر تاکید کی گئی کہ مجھے گمان ہوا کہ کہیں مال، جائیداد اور وراثت میں ہمسائے کو حق دار نہ ٹھہرا دیا جائے۔ ہمسایہ بھوکا سو جائے تو چالیس دن تک نماز قبول نہیں ہوتی۔ غور کریں، ہم کون سا دین لیے پھرتے ہیں؟ لوگوں کی زندگیوں کو جہنم بنا کر کیسے جنت کے طالب بن سکتے ہیں؟ نبی کریم ؐ نے اس بات پر زور دیا کہ ایک پاکیزہ معاشرے کی بنیاد کے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم معاشرے کے لوگوں کے کام آ کر ایک مثبت کردار ادا کریں، کیونکہ فرمانِ رسولؐ ہے کہ ہم میں سے بہتر وہی ہے جو اوروں کے لیے بہتر ہو۔
آپ ؐ کی پیدائش ہمیں یہی پیغام دیتی ہے کہ ہم ایک اسلامی اور مثالی معاشرے کی تشکیل کے لیے خود کو اور اپنی اولاد کو دین کے راستے پر ڈال دیں۔ میلادالنبیؐ کی تعظیم و تکریم میں جھنڈے اٹھانا اور اسلامی نعرے لگانا کافی نہیں ہے۔ میلاد کا پورا حق اسی وقت ادا ہو سکتا ہے جب ہم اپنے اندرون کو سنواریں گے اور دل کے ہر پردے پر نامِ محمدؐ کی جھنڈی لگا دیں گے، دل کے اندر ظلمتوں کو مٹا دیں گے، گلیوں کی صفائی میلاد کے موقع پر صحیح ہے، لیکن کوئی جھاڑو دل کی نگری سے حسد کے کوڑے اور بغض و عداوت کے ڈھیر بھی صاف کرے۔ کوئی ایسا چراغ جلاؤ جو دلوں کو منور کر کے ہمیں امتی ہونے کا صحیح حق ادا کرائے۔آئیے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل کرکے نہ صرف اپنے معاشرے بلکہ پوری دنیا کو امن کا گہوارہ بنائیں۔
( مدرس ، گورنمنٹ ماڈل ہائیر سیکنڈری سکول زوہامہ)
[email protected]