مشعل ِ راہ
آسیہ جان
اسلامی تاریخ میں اگر کسی خاتون کی شخصیت سب سے زیادہ علمی، فکری اور روحانی اثرات کے ساتھ سامنے آتی ہے تو وہ حضرت عائشہ صدیقہؓ ہیں۔ آپؓ نہ صرف رسول اللہ ﷺ کی زوجۂ محترمہ تھیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں آپؓ اور دیگر ازواجِ مطہرات کو ’’اُمّہات المؤمنین‘‘ یعنی مؤمنین کی مائیں قرار دیا۔ یہ لقب محض ایک رشتہ نہیں تھا بلکہ ذمہ داری، شفقت اور رہنمائی کی علامت تھا۔ حضرت عائشہؓ نے اپنی زندگی سے یہ ثابت کیا کہ عورت امت کی رہنمائی میں کس قدر بنیادی کردار ادا کر سکتی ہے۔
آپؓ غیر معمولی ذہانت اور حافظے کی مالک تھیں۔ آپؓ سے دو ہزار سے زائد احادیث مروی ہیں، اور کئی صحابۂ کرامؓ نے فقہی اور دینی مسائل میں آپؓ سے براہِ راست رہنمائی حاصل کی۔ آپؓ کے علم و فہم کی گواہی بڑے بڑے جلیل القدر صحابہؓ نے دی۔ امام زہریؒ کا قول ہے، اگر حضرت عائشہؓ کا علم تمام ازواجِ مطہراتؓ اور دیگر تمام خواتین کے علم کے ساتھ تولا جائے تو ان کا علم سب پر بھاری ہو گا۔ یہ صرف علم کا غلبہ نہیں بلکہ عورت کی عظمت اور اس کے اصل حق کا اعلان ہے۔
آج کی دنیا میں جب ’’فیمینزم‘‘ کے نام پر عورت کے حقوق کی بات کی جاتی ہے تو سوال یہ ہے کہ عورت خود کس قدر واضح ہے اپنے مطالبات میں؟ آزادی، مساوات اور خودمختاری کے نعرے سننے میں خوشنما لگتے ہیں، لیکن اکثر عورت یہ نہیں جانتی کہ یہ آزادی کہاں لے جائے گی اور یہ مساوات کس قیمت پر حاصل ہو رہی ہے۔ مغربی معاشرہ عورت کو گھر اور خاندان سے کاٹ کر ایک ایسی دوڑ میں دھکیل دیتا ہے جہاں اس کی نسوانیت، ماں ہونے کا وقار اور روحانی پہچان سب مٹ جاتے ہیں۔
حضرت عائشہؓ کا کردار آج کی عورت کو ایک مختلف زاویہ دکھاتا ہے۔ آپؓ نے علم کو اپنی زینت بنایا، وقار کو اپنی طاقت اور ایمان کو اپنی پناہ۔ آپؓ نے کبھی اپنی پہچان مردوں کے ساتھ مقابلہ بازی میں تلاش نہیں کی بلکہ اپنی انفرادیت اور بصیرت سے دنیا کو بتایا کہ عورت رہنمائی بھی کر سکتی ہے، تعلیم بھی دے سکتی ہے اور امت کی فکری بنیادیں بھی مضبوط کر سکتی ہے۔ یہ ہے وہ حقیقی حق جس کی طرف آج کی عورت کو پلٹنا چاہیے: علم حاصل کرنے کا حق، سچ بولنے کا حق، عدل قائم کرنے کا حق، اور آنے والی نسلوں کو ایمان و اخلاق کی دولت دینے کا حق۔
اگر حضرت عائشہؓ کو آج کی دنیا دکھائی دیتی تو شاید وہ حیران ہوتیں کہ امت کی بیٹیاں اپنی ماں کے ورثے کو بھول کر مغرب کے پیچھے بھاگ رہی ہیں۔ وہ دیکھتیں کہ عورتیں ’’آزادی‘‘ کے نام پر اپنی عزت کا سودا کر رہی ہیں، ’’مساوات‘‘ کے نعرے میں اپنے وقار کو قربان کر رہی ہیں اور ’’حقوق‘‘ کے نام پر اپنی اصل ذمہ داریوں سے فرار اختیار کر رہی ہیں۔ حضرت عائشہؓ کی زندگی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ عورت کا سب سے بڑا حق یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے قریب ہو، اپنے دین کی ترجمان ہو اور اپنے معاشرے کی رہنما ہو۔
فیمینزم عورت کو یہ باور کراتا ہے کہ مرد کے برابر ہونا ہی کامیابی ہے۔ مگر حضرت عائشہؓ یہ سکھاتی ہیں کہ کامیابی کا معیار برابری نہیں بلکہ وقار ہے۔ مرد و عورت دونوں اپنی اپنی انفرادیت میں بلند ہیں۔ عورت ماں ہے، معلمہ ہے، امت کی پرورش کرنے والی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے کبھی اپنے مقام کو مردوں کی تقلید میں نہیں ڈھونڈا بلکہ اپنی بصیرت اور استقامت سے بتایا کہ عورت امت کے علمی سرمایہ کی امین بن سکتی ہے۔
حضرت عائشہؓ کا صبر اور جرأت بھی آج کی عورت کے لیے مشعلِ راہ ہے۔ واقعۂ افک میں جب منافقین نے آپؓ کی عفت پر حملہ کیا تو آپؓ نے صبر اور خاموشی کے ساتھ اللہ کی طرف رجوع کیا۔ آخرکار وحی نازل ہوئی اور آپؓ کی پاکدامنی کا اعلان ہمیشہ کے لیے قرآن میں ثبت ہو گیا۔ آج جب عورتیں معاشرتی دباؤ، کردار کشی اور عزت کی پامالی کے مسائل کا سامنا کرتی ہیں تو حضرت عائشہؓ کی زندگی انہیں یہ سبق دیتی ہے کہ عزت و وقار کا اصل محافظ اللہ تعالیٰ ہے۔
ہمارے دور کی عورتیں اکثر یہ شکایت کرتی ہیں کہ معاشرہ انہیں وہ مقام نہیں دیتا جس کی وہ مستحق ہیں۔ لیکن کیا ہم نے حضرت عائشہؓ کی طرح علم کو اپنی زینت بنایا؟ کیا ہم نے اپنی نسلوں کو ایمان اور اخلاق کی بنیاد پر پروان چڑھایا؟ کیا ہم نے اپنی آواز کو امت کی بھلائی کے لیے بلند کیا؟ آج عورت اپنے حق کے مطالبے میں شور تو بہت مچاتی ہے لیکن اکثر یہ بھول جاتی ہے کہ حق صرف لینے کا نہیں بلکہ دینے کا نام بھی ہے۔ حضرت عائشہؓ نے اپنے حق کو صرف اپنی ذات تک محدود نہ رکھا بلکہ امت کو علم، بصیرت اور رہنمائی کا سرمایہ دے کر ماں ہونے کا حق ادا کیا۔
یہ وقت ہے کہ ہم عورت کی عظمت کو مغربی نعروں کے بجائے اسلامی اسوہ میں تلاش کریں۔ حضرت عائشہؓ ہمیں یاد دلاتی ہیں کہ عورت کے حقوق میں سب سے بڑا حق یہ ہے کہ وہ امت کی معمار ہو، علم کی وارثہ ہو، اور ایمان کی پاسبان ہو۔ اگر آج کی عورت اس سمت لوٹ آئے تو نہ صرف اس کی اپنی پہچان بحال ہو گی بلکہ معاشرہ بھی حقیقی خوشحالی اور توازن کی راہ پر چل پڑے گا۔
حضرت عائشہؓ صرف ایک تاریخی شخصیت نہیں بلکہ ایک ابدی رہنما ہیں۔ ان کی زندگی ہر دور کی عورت کو یہ پیغام دیتی ہے: اپنی عظمت کو بازار کے آئینوں میں نہ ڈھونڈو، اپنی پہچان کو مغربی نعروں میں نہ کھو دو، بلکہ اپنے دین، اپنے علم اور اپنے ایمان میں تلاش کرو۔ یہی تمہارا سب سے بڑا حق ہے، یہی تمہاری اصل آزادی ہے، اور یہی وہ مقام ہے جو تمہیں دنیا میں عزت اور آخرت میں کامیابی دلائے گا۔
[email protected]