ا بو نعمان محمداشرف بن سلام
کوہِ ماران سے شہر سری نگر کا خوبصورت نظارہ پیش کرتا ہے۔کوہِ ماران پر کشمیر کے عظیم مرتبہ ولی کامل حضرت سلطان العارفین شیخ حمزہ مخدوم رحمتہ اللہ علیہ کا مزارِ اقدس ہے۔آپ کی درگاہ پچھلے پانچ سو سال سے بھی زیادہ عرصے سے تمام اہل ِ کشمیر کی عقیدت کا مرکز ہے جس نے تاریخ کے ہر دور میں دل شکستوں کو سہارا دیا ہے، جو خلوصِ دل سے آپ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے۔
حضرت شیخ حمزہ مخددم رحمتہ اللہ علیہ کشمیر کے ایک معروف روحانی بزرگ ہیں۔ محبوب العالم اور سلطان العارفین القاب کے نام سے مشہور ہیں۔سلطان العارفین حضرت شیخ حمزہ مخددم رحمتہ اللہ علیہ ۹۰۰ ھ میں تجر نامی گائوں ،جو سوپور سے ۱۵ کلومیڑ دور ہے، تولد ہوئے۔ اس وقت سلطان محمد شاہ کشمیر کا حکمران تھا۔ اسم مبارک حمزہ رکھا گیا ۔حمزہ عربی زبان میں شیر کو کہتے ہیں ۔ جیسا کہ حدیث مبارک میں ہے( الرّجال فی القریٰ)مردان حق دیہاتوں میں پائے جاتے ہیں‘‘سلطان العارفین بھی عربی زبان کی ایک اصطلاح ہے اور سلطان کا لغوی مطلب بادشاہ کا ہے اورالعارفین عارف کی جمع ہے جس کا اصطلاحی معنی ہے اللہ کی معرفت رکھنے والا۔ اس لحاظ سے سلطان العارفین اللہ کی معرفت رکھنے والوں کا بادشاہ کو سلطان العارفین کے لقب سے یاد کیا جاتا ہے۔ سلطان العارفین کا لقب رکھنے والے اللہ کے ولی روحانیت میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں اور یہ مقام روحانی طور پہ عطا کیا جاتا ہے جو بعض اوقات اولیاء کرام عاجزی اور انکساری میں اس کا اظہار نہیں کرتے مگر ان کے دنیا سے پردہ کرنے کے بعد مقربین عقیدت مند و خلفاء ان کے اس لقب سے یاد کرتے ہیں۔
آئے آفتابِ خوش ضیایکہِ پرُتو آفگن مر
مردہ دلم زندہ نما یاشیخ حمزہ ؒ پیرِیماہ
حضرت شیخ حمزہ مخددم رحمتہ اللہ علیہ کے ایک باصفا صوفی اور پاکباز عارف اور صاحب نظر ولی تھے اور انکا طریق تصوف، مسلک درویشی اور مشرب عرفان ومعرفت تھا ۔ تصوف دراصل اعمال شریعت کو انکے معیادمطلوب کے مطابق انجام دینے کانام ہے۔ اس طرح صوفی راہ سکوک کی منزلیں طے کرکے اس مقام پر پہنچتا ہے ،جہاں وہ سراپا خیر بن بن جاتا ہے ، اس کے اخلاق اعلیٰ ترین اخلاق بن جاتے ہیں ۔ اس کاقلب آئینہ کی طرح شفاف ہوجاتا ہے اور تصوف انسان کے طبیعت کے اند موجود نف کی کامل تنز یہہ اور انسان کے ظاہر کے حسن خلق کا نام ہے ، یعنی باطن یہ ہے کہ نفس تمام عیوب سے پاک ہوجائے اور ظاہر یہ ہے کہ اخلاق اچھے ہوجائیں ،اس لئے صوفی ایسا شحض ہوتا ہے جو نہ صرف خود خوبیوں کا مجموعہ بن جاتا ہے۔بلکہ اس کی کیفیت ایسی ہوجاتی ہے کہ اگر برائیاں بھی اس سے منسوب کی جائیں تو وہ کوخوبیوں کے ساتھ پیش آئے، اور روحانیت اور تصوف کی دنیا میں ایسے عظیم المرتب گزرے ہیں،جنکے کارناموں کو حیات جاودں بخشنے کیلئے اللہ تعالیٰ نے انکے اردگرد ایسے لوگ جمع کیے،جو صاحب علم کے ساتھ ساتھ صاحب قلم کے مالک بھی تھے۔ حضرت شیخ حمزہ مخددم ؒ اسی گراں قدر شان و عظمت کے مالک تھے ، آپؒ کے خدمت اقدس میں ایسے دانشور وں کی جماعت تھی،جو خود بھی آپ ؒ کے ارشادات سے فیض اُٹھاتی اور دوسروں کو بھی اس میں شریک کیا ۔ان عظیم المرتب ہستی میں ابو حنیفہ ثانی حضرت بابا دائود خاکی ؒ جو اس وقت قاضی شہریعنی چیف جسٹس تھے۔اس کے علاوہ حضرت میر حیدرؒ،حضرت بابا علی رینہ اور خاص کرقابل ذکر ہے۔
اولیائے عظام اور صوفیائے کرام کی عظمت ان کے تربیت یافتہ خلفاء اور مریدین سے بھی عیاں ہوتی ہے۔صوفیاکے ان سعادت مند شاگردوں نے اپنے مرشدین کے حالات وواقعات قلم بند کرکے معتقدین کیلئے ایک عظیم ورثہ مرحمت کرکے ایک بڑا احسان کیا ہے۔ حضرت سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کے یہاں بھی خلفاء کی ایک اچھی خاصی تعداد تھی جنہوں نے ان کی سیرت کے واقعات تحریر فرمائے ہیں۔حضرت سلطان العارفین رحمتہ اللہ علیہ کے بارے میں حضرت خاکیؒ فرماتے ہیں کہ جو کچھ میرے پیر برحق نے علم حاصل کیا اس علم کے مطابق عمل بھی کرتے رہے اور استقامت بھی اختیار کی تو ا للہ تعالیٰ نے آ پؒ کو رفیع و اعلیٰ درجات پر فائز فرمایا۔ اس بات کا اظہار حضرت خاکیؒ نے قصیدہ وردالمریدین میں اس طرح کیا ہے۔
استقامت چوں نمود اندر عمل در ماعلم
علم مالم یعلمش حق دادودین پر ور شد است
اور جگہ پر حضرت خاکیؒ اپنے پیربر حق کے سلسلہ سہروردیہ کے بارے میں کہتے ہیں یہ ایسا سلسلہ ہے کہ اس کے ساتھ متعلق ہوکر آدمی کی کامیابی ضروی اور لازمی ہے کیونکہ اس سلسلئہ مبارکہ کے مرشد اعظم شاہ ولایت حضرت علی مرتضیٰ کرم اللہ وجہہ ہیں۔ اس بات کو حضرت خاکیؒ نے اس طرح نظم کیا ہے۔ فرماتے ہیں۔
غم نباید خورد مارا روز حشر از تشنگی
منبع ایں سلسلہ چوں ساقئی کو ثر شداست
حضرت پیران پیرشیخ سید عبدالقادر جیلانی رحمتہ اللہ علیہ غنیتہ الطالبین میں اہل مجاہد ہ ،اہل محاسبہ اور اہل قصدکی دس خصلتیں جو انہوں نے اپنے نفس پر آزمائی ہیں ۔اگر وہ راہ حق میں ثابت قدم رہے تو انھوں نے قصہ کا مقام حاصل کرلیا اور بزرگی کے مقام پر پہنچ گئے۔ دسویں خصلت تواضع ہے ،جس سے عابد کامقام مضبوط ہوجاتاہے۔اللہ تعالیٰ اور لوگوں کے نزدیک اس کا درجہ کامل اور بلند ہوجاتاہے ،دنیا اور آخرت کے جن کاموں کی کوشش کرے ان پر قادر وتوانا ہوتاہے۔ یہ صفت ساری خصلتوں کی جڑ ہے بلکہ ساری عبادتوں کا ایک درخت ہے ،شاخ دین ،اس خصلت کے طفیل آدمی کو وہ مقام نصیب ہوتا ہے جو ہر حال یعنی خوشی وغم میں راضی بہ رضائے حق رکھتا ہے۔یہ خصلت پرہیزگاری کا کمال ہے۔تواضع کے معنی یہ ہیں ۔کہ ہر آومی کو ہر لحاظ سے اپنے سے بہتر سمجھا جائے اور دل میں یہ خیال کیا جائے کہ یہ شحض خدا کے نزدیک مجھ سے بہتر اور برتر ہے ،خواہ وہ اس سے کم تر ہو ،وہ یہ سمجھے کہ اس نے خدا کی نافرمانی نہیں کی اور میں نے نافرمانی کی ہے ،اس لئے بلاشبہ یہ مجھ سے بہتر ہے۔‘‘
امام عبداللہ زہبی فرماتے ہیں ’’جوقوم اپنے اسلاف کے صیح اور سچے حالات سے بے خبر ہے اور اسے علم نہیں کہ اس کے راہبر وں اور بزرگوں نے دین وملت کی کیا خدمت کی ان کے شب و روز کیسے تھے۔ ان کی اعمال کیسے تھے اور وہ کیسے زندگی گزار تے تھے۔ تووہ قوم تاریکی میں بھٹک رہی ہے اور یہ تاریکی اسے گمراہی میں مبتلا کررہی ہے۔ اس لئے اس ہستیوں کے حالات سے شناسائی ضروری ہے تکہ زندگی کو راہ راست پر گزارکر کامیاب بنایا جاسکے۔
جب تک دنیا قائم ہے اور ہمارے کشمیر کے دوعظیم شخصیت اپنے منفرد ، مخصوص اور معتبر مقام کی بدولت باشندگانِ کشمیر کے قلب وجگر کے ساتھ جڑی رہیں گی۔ ایک حضرت شیخ العالم رحمتہ اللہ علیہ اوردوسراحضرت محبوب العالم رحمتہ اللہ علیہ ہیں اس کا مردِ خدا اور شریعت ومعرفت کا بے بدل رہنما حضرت سلطان العارفینؒ نے تجر شریف سے سرینگر تشریف لائے کرکوہِ ماران کے دامن میں سکونت پذیر ہوکر لوگوں کو جس قدرتربیت کی وہ صرف اللہ تعالیٰ کی رضا اور حضرت رسول رحمت ﷺ کی اطاعت اور آخرت کی سرخروئی کے لئے تھا۔
بالآخر یہ عظیم المرتب ولی کامل، شریعت کے علمبردار، طریقت ومعرفت کے رہبر، مجلس روحانی کے سردار 85سال کی عمرشریف پاکر 24 ماہ صفر المظفر984 میں واصل بحق ہوئے۔ا سی عقیدت کے ساتھ یہ دعاکرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے اس مقدس بندہ اور راہ حق کے عظیم مجاہدکے فیوض حیات بخش کو تاقیام قیامت جاری رکھے۔اوروادی کشمیر کے تمام لوگوں کو ہر پرشانیوںاور مصیبتوں سے محفوظ رکھے اور ہمیں توحید و سنت رسول رحمتﷺ کیساتھ ساتھ صالحین واولیاء کاملین کی اتباع کی توفیق عنایت فرمائے۔ آمین ۔
رابطہ ۔اوم پورہ، بڈگام کشمیر
فون نمبر۔9419500008
(نوٹ۔مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاًاپنی ہیں اور انہیںکسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)