رئیس احمد کمار
وادی ٔ کشمیر کا کنڈؔ(قاضی گنڈ) جہاں اپنی بے مثال خوبصورتی اور قدرتی حسن سے مالامال ہے ، جس کی وجہ سے جہاںاس علاقے کی پورے ضلعے میں اپنی ایک خاص شناخت اور پہچان ہے، وہیں یہ علاقہ اللہ کے ایک برگزیدہ ولی حضرت سید نور شاہ ولی بغدادی ؒکا آخری قیام گاہ بھی ہے ۔ اگر چہ حضرت نور شاہ صاحب کی ولادت کے بارے میں پوری جانکاری معلوم نہیں ہے تاہم اُن کی جائے ولادت کے بارے میں اکثر لوگ اور دانشور حضرات اس بات پر متفق ہیں کہ حضرت نور شاہ صاحبؒ بغداد میں پیدا ہوئے ہیں اور اُن کی وابستگی اور قرابت حضرت شیخ سید عبدالقادر جیلانی ؒ کے ساتھ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ جب سید نور شاہ ولی بغدادی کوتبلیغ ِ دین کے لئے کشمیر جانے کا حکم ملا،تو آپؒ نےکشمیری لوگوں کو جن کی اکثریت ہندو دھرم سے وابستہ تھی، کو دین مبین کی تعلیمات سے آراستہ کرانے اور اسلام کے نور کی روشن پھیلانے کے لئے ک رخت سفر باندھ لیا۔ حضرت نور شاہ صاحب نے بغداد سے کشمیر کا سفر کیا اور کشمیر کے ضلع بڈگام کے واڈوؔن علاقے میں پہنچے ۔ واڈون سے نور شاہ صاحبؒ نے کنڈ ؔعلاقے کی طرف اپنا سفر جاری رکھا اور اوریلؔ گاؤں میں قیام فرمایا ۔سید نور شاہ صاحبؒاوریلؔ گاؤں میں بارہ سال تک دعوت و تبلیغ، عبادت اور ریاضت میںمصروف رہے۔ گھنے سایہ دار اور گنجان درختوں کی بنا پر اوریلؔ زیارت شریف کو’’ کلی استان ‘‘ بھی کہا جاتا ہے ۔ بتایا جاتا ہے کہ اوریلؔ گاؤں میں قایم بھٹ نامی ایک پنڈت، حضرت سید نور شاہ کی خدمت میں رہے، اُس کے گھر میں ایک گائے تھی جو نور شاہ صاحبؒ کے آنے سے پہلے ایک بچھڑے کو جنم دے چکی تھی ۔ قائم بھٹ کو اپنی بیوی نے بہت ملامت اُٹھانا پڑتی تھی، کیونکہ بارہ سالوں میں گائے نے کسی دوسرے بچھڑے کو جنم نہیں دیا تھا ۔تاہم بارہ سال تک گائے برابر دودھ دیتی رہی ۔ الہام اور کشف القلوب کے ذریعے حضرت سید نور شاہ ولیؒ کو پتہ چلا کہ قائم بھٹ کی بیوی اُس سے ناخوش ہے،تو وہ وہاں سے چلے گئے ۔جاتے ہوئےقائم بھٹ کو اپنے گائوخانے میں نظر مارنے کے لیے کہا ۔ جونہی گائوخانے کا دروازہ کھولا گیا ،قائم بھٹ نے بارہ بچھڑے وہاں پائے ۔ قائم بھٹ اور اس کی بیوی دوڑتے ہوئے اور معافی مانگتے ہوئے ولی کامل کی طرف آئے لیکن وہ دریا پار کرچکے تھے، جو اوریلؔ اور کرالوؔ نامی گاؤں کے درمیان تھا ۔ نور شاہ صاحبؒ ولٹنگو گاؤں پہنچے ،تو کنہ بلؔ نامی ایک جگہ پر قیام فرمایا۔ ولٹنگوؔ سے کچھ دوری پر ہی واسک ناؔگ نامی علاقہ ہے ۔ نور شاہ صاحبؒ اکثر وہاں سیر اور عبادت کرنے کے لئے جاتے تھے ۔ جہاں ایک سادھو رہتا تھا۔ ایک دفعہ کچھ لڑکیاں وہاں کشمیری سبزی ہَند جمع کررہی تھیں ،اور اپنی پیاس بجھانے کے لئے پانی ڈھونڈ رہی تھیں لیکن نہ پانی ملا نہ ہی برتن ۔ اچانک اُن کی نظر سادھو پر پڑی جو سویا ہوا تھا اور جس کے ہاتھ میں کدھو کا آدھا حصہ تھا ، جس میں سادھو نے ایک سانپ کو قید کر رکھاتھا ۔ جونہی انہوں نے کدھو کے حصے کو ہاتھ لگایا، سانپ نیچے گرا اور گھوم کر اس نے زمین پر ایک گول چکر لگایا ۔ جہاں پر سانپ نے چکر لگایا، وہاں سے ایک چشمہ ظاہر ہوا ۔ اِسی مناسبت سے یہ علاقہ واسک ؔناگ کہلانے لگا ۔ سادھو نے چشمہ بند کرنا چاہا لیکن جلد ہی نور شاہ صاحبؒ نے ایساہونے نہ دیا،پھر ایک معاہدہ طے ہوا ۔جس کے تحت چشمہ چھ مہینہ سادھو اور چھ مہینہ نور شاہ صاحب کے تحویل میںرکھنے کا فیصلہ ہوا ۔ سید نور شاہ ولیؒ کی وفات والٹنگو میں ہی ہوئی اور وہیں مدفون بھی ہیں۔ عرس کے دن جو ہر سال ۹ فروری کو منایا جاتا ہے، چشمے سے پانی نکلنا شروع ہو جاتا ہے ۔ واسک ناگ گرمیوں میں کنڈ ؔعلاقے کی بستی کی پیاس بجھانے کے علاوہ ان کی زمینوں کو بھی سیراب کرتا ہے ۔ سید نور شاہ ولی صاحبؒ کی زیارت پر جہاں سال بھر عقیدت مندوں کا تانتا باندھا رہتا ہے وہیں عرس کے ایام میں جو یکم فروری سے نو فروری تک جاری رہتے ہیں، لوگوں کی جم غفیر دیکھنے کو ملتی ہے ۔ عرس کے موقعہ پر رات بھر ختمات المعظمات اور درودوازکار کی محفل جاری رہتی ہے ،جس میں ضلع کے تمام علاقوں سے آئے ہوئے عقیدت مند شامل ہوتے ہیں اور فیض حاصل کرتے ہیں ۔ اللہ ہمیں ان ولیوں کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین
[email protected]