تاریخ دانوں کو چھوڑ کر ہمارے عام پڑھے لکھے لوگ پیرحسن شاہ کھویہامی (1832-1898)کے بارے میں بہت کم معلومات رکھتے ہیں ۔ اس بارے میں حکومتی بے اعتنائی بھی کچھ کم اذیت ناک نہیں ہے ۔ حسن کی علمی خدمات کا کم ازکم اتنا تقاضا بنتاتھا کہ اس کے نام سے کشمیر یونیورسٹی کے ہسٹری ڈپارٹمنٹ میں ایک چئیر ہی قائم کی گئی ہو تی ۔ انگریزی زبان میں دو جلدوں پر مشتمل ’’کشیر‘‘ کے مصنف جی ایم ڈی صوفی کے ساتھ بھی یہی سوتیلا سلوک برتا گیا ہے ۔ فارسی زبان میں چار جلدوں پر مشتمل ’’تاریخِ حسن‘‘ کے مولف حسن کھویہامی پر تھوڑا بہت کام ضرور ہوا ہے ، خاص کر عبدالاحد حاجنی نے اُن پر ساہتیہ اکادمی کے لئے ایک مونو گرام لکھا ہے لیکن خوداُن کا اپنا اعتراف ہے کہ حسن پر ابھی تک اُس محققانہ پیمانے پر ویسا کوئی کام ہی نہیں ہوا ہے جس کا یہ عظیم تاریخ دان مستحق ہے ۔ پروفیسر منظور فاضلی نے حسن کھویہامی کی علمی کاوشوں اورتاریخی خدمات کے کئی گوشوں پر اپنی کتاب ’’Hassan:Kasmir histographer‘‘ روشنی ضرور ڈالی ہے ، ان کے علاوہ کئی علم و ادب سے وابستہ حضرات نے ان پر تحقیقی مقالے بھی لکھے ہیں ،لیکن اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ ہمارے ہاںعمومی طور مطالعۂ کتب ورسائل کا کوئی زیادہ چلن نہیں ، جب کہ تاریخ کا مطالعہ عوام وخواص کے لئے کچھ زیادہ ہی ٹیڑھی کھیر بنا رہا ہے۔ فی الوقت ہم دیکھ رہے ہیں کہ مطالعہ ٔ تاریخ میں بس ایک چھوٹا سا باذوق حلقہ ہی دلچسپی لیتا ہے اور ستم بالائے ستم یہ کہ آج مادیت کی دوڑد ھوپ والی تیز رفتار زندگی میں یہ حلقہ اوربھی مختصر ہوکر رہ گیا ہے ۔اس لئے حسن کھویہامی کو ابھی تک عوام میں وہ پذیرائی حاصل نہیں ہے جو زندہ قوموں میں ایسی شخصیات کو لازماً نصیب ہوتی ہے ۔
بایں ہمہ بہ حیثیت ایک تاریخ دان حسن کھویہامی نہ صرف علمی حلقوں میں ایک مستند نام ہے بلکہ کشمیر کے اندر اور باہر یہ حلقے ان کے علمی قد کا ٹھ کا بہت احترام کرتے ہیں۔ یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ بہت سارے لوگ اُن کے بارے میں اس سے زیادہ معلومات ہی نہیں رکھتے کہ انہوں نے تاریخ کشمیر لکھی جو کلہن پنڈت کی’’ راج ترنگنی ‘‘ کے بعد اپنا ثانی نہیں رکھتی ۔ حالانکہ ’’راج ترنگنی‘‘ چونکہ نظم کے پیرائے میں لکھی گئی تاریخ ہے ،اس لئے ماہرین کے مطابق ان تاریخی واقعات میں بڑی حد تک دیو مالائی اثرات جابجا نظر آتے ہیں۔کلہن نے اپنی تاریخ ستی سر کہانی سے شروع کی ہے اور جو کچھ اس میں درج کیا ہے، آج عقل کی کسوٹی پر ان دیوی دیوتاؤں اور عفریتوں کا اتہاس کی روشنی میں تجزیہ کیجئے تو ان کا تاریخ کی اٹل حقیقتوں اور تاریخ کے مدارج سے کوئی جوڑ ہی نہیں لگتا ۔اس کے باوجود کشمیر کے تاریخ دانوں کو وہ دیومالائی قصہ کہانیاں آگے لے جانے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں جو خود کلہن کو اپنے پیشرو مورخین سے ورثے میں ملی تھیں۔کلہن پنڈت نے اس ورثے کونظم کے اسلوب میں تخلیق کرکے اپنی قلم کاریوں کے جوہر ضرور دکھائے مگر کیا ان پر تاریخیت کی سند ثبت کی جاسکتی ہے ؟ جواب نفی میں ہے ۔ گزرے ا دوار کے پس منظر میں یہ کوئی اَنہونی باتیں نہ بھی رہی ہوں کہ جب ملک میں آندھی ، طوفان ، بارش ،برف ، دھوپ ،چاند ، ستارے،گرہن ، سیلاب ، زلزلے اور ایسے دوسرے قدرتی حادثات وقو ع پذیر ہوتے تو اُن کے پیچھے دیوی ، دیوتاؤں اور پاتالوں میں رہنے والے عفریتوں اور بھوت پریت کی چمتکاری شکتی کار فر ما ہوتی ہے ۔ بہر کیف عصر رواں میں محققین اورماہرین ’’راج ترنگنی‘‘ کے اندراجات کو عقل ودانش کی کسوٹی پر پرکھ رہے ہیں تاکہ تاریخِ کشمیر کے سفر کو دیو مالائی قصہ کہانیوں سے الگ کیا جائے اور خالص تاریخ کو چھانٹ کر ان کے سنگ ہائے میل کی نشاندہی کی جاسکے ۔ بات واضح ہے کہ نظم کی صنف میں محض حالات اور واقعات کے بیانئے سے ہی کام نہیں چلتا بلکہ اسے دلچسپ بنا نے کے لئے شاعرانہ مبالغہ آرائی اور بادہ وجام کا دور بھی ضرور چلتا رہنا چاہیے مگر تاریخ واقعات کی نیو پر حقائق کی چھت ڈالنے کا فریضہ انجام دیتی ہے ۔ کلہن کی تاریخ میں ان اسقام کے باوجود اسے زمانی اعتبار سے کشمیر کی اولین کتاب ِ تاریخ ہونے کا شرف حاصل ہے ۔ تاہم یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ کلہن تاریخ دانی کی صنف میں اولین مقام نہیں رکھتے ہیں بلکہ اُس سے پہلے بھی تاریخ کے لکھاریوں کی ایک کھیپ گزر چکی تھی ۔ان کی رشحات ِقلم کی باقیات میں نیل مت پُران آج بھی محفوظ ہے ۔کلہن کے پیش روؤں میں ہیل راج (آٹھویں صدی)رتنا گر( بعہدِراجہ اونتی ورمن)اور کھیم اندر( بعہدراجہ کلش) قابل ذکر ہیں ۔ اس کے بعد سلاطین کے دور میں بھی خوب تاریخ نویسی ہوتی رہی ۔ زین العابدین بڈشاہ کے درباری امیر ملا احمد نے ’’راج ترنگنی‘‘ کا فارسی میں ترجمہ کیا ۔فارسی میں تاریخ نویسوں میں حیدر ملک،نرائن کول (۱۷۱۰ء)محمد اعظم دیدہ مری (۱۷۴۷ء)بیربل کاچرو (۱۸۵۰)اور آخر میں حسن شاہ کھویہامی کا نام آتا ہے۔ غلام حسن علاقہ کھویہامہ کے چھوٹے سے گاؤ ں گامرو بانڈی پورہ میں 1832ـ ء کو پیدا ہو ئے ۔ شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ ،جو علاقہ کھویہامہ کہلاتا ہے، ایشیاء کی سب سے بڑی اور خوبصورت جھیل ولر کے دامن میں واقع ہے۔ بانڈی پورہ کے جنوب مشرق میں صرف دو کلومیٹر کے فاصلے پر گامرو ایک چھوٹا سا گاؤں ہے لیکن یہ گاؤں شروع سے ہی کئی بڑی علمی شخصیات اور علم پرور خانوادوں کا مسکن رہا ہے، جن میں پیر حسن کھویہامی کا فاضلی خاندان بھی شامل ہے ۔ خانوادہ ٔ حسن کھویہامی کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کا جد گنیش کول شیخ حمزہ مخدوم ؓ کے دست ِ حق پرست پر مشرب بہ اسلام ہوا ، اس کے دو بیٹے شیخ فاضل زونی مر ،سری نگراور شیخ یعقوب تھے ۔ قرین قیاس یہ ہے کہ شیخ فاضل کے بیٹوں نے آگے اپنے نام کے ساتھ فاضلی لکھا ہو ۔ فاضلی آج بھی گامرو میں ایک الگ خاندان کی حیثیت سے رہ رہے ہیں۔ پروفیسر منظور فاضلی بھی اسی گاؤں رہتے تھے اور حسن کھویہامی کی اولادوں میں سے تھے۔ اُستاد محترم منظور فاضلی نے کئی علمی کتابیں تصنیف کیں ۔ حسن کھویہامی کے والد صاحب کا نام غلام رسول تھا ۔ غلام رسول زاہد اور متقی ہونے کے علاوہ عالم و فاضل بھی تھا ۔ اپنے دور میں کافی معروف رہا، طب پر بھی کافی دسترس تھی ۔ اُس کے بہت سارے مرید بھی تھے جو اس سے تعویز وغیرہ لیا کرتے تھے ۔ جے این گنہار کی را ئے میں شیخ غازی الدین سرینگر میں کہیں بودو باش رکھتا تھا ، نشاط انصاری نے بھی اپنے ایک مضمون میں اس بات کا تذکرہ کیا ہے لیکن انہوں اس بات کا اضافہ بھی کیا ہے کہ یہ زونی مر میں رہائش پذیر تھا ، اگر چہ اس بارے میں ان کے پاس کوئی ٹھوس دلیل نہیں ۔ قرین قیاس یہی ہے کہ اس کے اسلاف گامرو میں ہی صدیوں سے رہائش پذیر رہے ہوں ۔ ان کے علاوہ پیروں کے کئی اور خاندان ہیں جو شروع سے ہی وعظ وتبلیغ ، روحانیت اور علم و ادب سے منسلک رہے ہیں ۔ آج بھی گامرو کے آس پاس ایک آدھ کلومیٹر تک کی چھوٹی چھوٹی بستیوں میں شرح خواندگی بہت زیادہ دیکھی جاسکتی ہے ۔ سچ پوچھئے تو مجموعی طور خواندگی اور علم پروری کا اثر بانڈی پور میں بھی دیکھا جاسکتا ہے ۔
کہا جاتا ہے کہ حسن کھویہامی کے والد بزرگوار کے تین بیٹے تھے ۔ ان کا سلسلہ حسب و نسب ساتویں پشت میں کشمیر کے ایک پنڈت برہمن گنیش کول سے جڑ جاتا ہے جو دتاتریہ خاندان سے تعلق رکھتاتھا۔حسن اُس کے بارے میں خود لکھتا ہے کہ یہ شروع سے ہی بڈ شاہ زین العابدین کے دربار میں قانون گو کی حیثیت سے تعینات تھا۔ اس سے یہ بات بھی خود بخود واضح ہوجاتی ہے کہ یہ برہمن خاندان شروع سے ہی علم و ادب اورذہانت و فطانت کے لحاظ سے یکتائے روزگار رہا ہوگا ۔ برہمن گنیش کول کے بارے میں تاریخی طور ثابت شدہ ہے کہ وہ حضرت شیخ حمزہ مخدومؒ کی نظر عنایت سے سرفراز ہوا اور انہی کے ہاتھ بیعت کر کے مشرف بہ اسلام ہوا اور اپنا اسلامی نا م شیخ غازی ا لدین رکھا۔ نومسلم شیخ غازی الدین کا بڑا بیٹا اپنے دور کا بہت بڑا عالم و فاضل تھا ، اُس کے علم وفضل کے چرچے مغل بادشاہ شاہجہاں کے دربار تک بھی پہنچے ، اپنی شہرت اور علمی قابلیت کی بنا پر بادشاہ شاہجہاں نے اُسے اپنے دربار میں عزت واکرام دے کر شایانِ شان مرتبے پر بٹھایا ۔ چونکہ برہمن نہ صرف پنڈتوںمیں اونچی ذات مانی جاتی ہے بلکہ یہی لوگ علم و ادب کے وارث اور دھرم میں حتمی اتھارٹی سمجھے جاتے تھے۔ یوں ہم کہہ جاسکتے ہیں کہ علم پروری اور علم دوستی حسن کھویہامی کو وراثت میں ملی تھی ۔اس کے والد صاحب خود بھی بڑ ا عالم و فاضل تھا ، روایت یہ ہے کہ اُس نے چار کتابیں تحریر کی تھیں جنہیں بڑی پذیرائی ملی تھی۔ یہ کتابیں فارسی زبان میں تھیں لیکن فارسی کے ساتھ ساتھ اُسے عربی زباں پر بھی کافی دسترس تھی ۔’’ مجموعہ شیوا ؔ ’’رسالتہ الطرفہ‘ ’’ عجیب منظر ‘‘ اور’’ کراماتِ اولیا ‘‘ان کی یہ مشہور تصانیف ہیں ۔ غلام رسول نے اپنے بیٹے حسن کو خود تعلیم وتربیت سے آراستہ کیا اور علمی لحاظ سے بالکل اپنا ہم پایہ بنانے میں کوئی کسر باقی نہ چھوڈی ۔یہی وجہ ہے کہ حسن بھی اپنے والدکی طرح علم دوست اور علم پرور ثابت ہوا ۔ اُس نے اپنے والد کی طرح تصنیف وتالیف کے میدان میں جلد ہی قدم ر کھا اور تین کتابیں لکھ ڈالیں جنہیں کشمیر اور بیرونِ کشمیر زبردست پذیرائی ملی ۔
’’ گلستانِ اخلاق‘‘ اور’’ اعجازِ غریبہ ‘‘ اُن کی مشہور تصانیف ہیںجنہیں عوامی سطح پر بہت سراہا گیا ۔ان سے حسن کھویہامی بہت شہرت پاگیا۔ یہاںیہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ماضیٔ بعید میں حکمت اور علاج و معالجہ برہمن خانوادوں کا موروثی پیشہ مانا جاتاتھا ، بعدا زاں مسلمانوں میں بھی زیادہ تر پیر خاندان طب ِنبوی ؐ اور حکمت سے خاص شغف رکھتے تھے لیکن یہ علو م وفنون ان خانوادوں میں سینہ بسینہ ہی منتقل ہوتے تھے ۔ حسن کھویہامی بھی فن ِ حکمت کے شعبے میں اپنے زمانے کا ایک بہترین طبیب مانا جاتا تھا۔
ملک ِکشمیر 1875ء سے1878تک مہیب اور بھیانک قحط سالی سے گزرا تھا کہ اس کے زیر اثر اہل کشمیر کی ایک بڑی آبادی مفلسی اور بھوک کی نذر ہوئی ۔حسن نے اس قحط سالی سے متاثر ہوکر ایک منظوم کتابچہ بزبانِ فارسی تحریر کی جس میں قحط سالی سے پیدا شدہ صورت حال کا جائزہ لیاگیا تھا اور پھر اس بلائے ناگہانی کے مضراثرات کم کرنے کے لئے کچھ تجاویز بھی پیش کی گئی تھیں ۔ حسن نے یہ کتابچہ وقت کے وزیر اعظم اننت کول کی و ساطت سے مہاراجہ رنبیر سنگھ تک پہنچایا جسے درباری قبولیت حاصل ہوئی بلکہ مہاراجہ نے مولف کے علمی تبحر اور تجاویز کو سراہتے ہوئے حسن کو خلعتِ شاہی بھی عطا کی ۔ اسی دوران حسن کھویہامی کا راولپنڈی جاناہوا ۔ وہاں اُسے پتہ چلا کہ پنڈوری گاؤں میں ایک شخص مُلا غلام محمد کے پاس ُملااحمد کی فارسی میں لکھی ہوئی تاریخ موجودہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ سنسکرت میں لکھی ہوئی رتنا گر پُران ہی کا ترجمہ موجود تھا جس میں ۳۵؍ راجگان کے حالات اور واقعات مذکور ہیں جنہوں نے کشمیر میں پانچ ہزار برس پہلے حکومت کی ۔اسی کے ساتھ اُن سات بادشاہوں کے حالاتِ زندگی بھی اس میں درج ہیں جنہوں نے دوسری صدی سے چھٹی صدی عیسوی کے اوائل تک یہاں راج تاج کیا مگریہ تاریخ دانوں کی نظر سے اوجھل رہے تھے ۔ ا س تاریخی نوشتے کی اہمیت یوںبنتی تھی کہ کلہن کی’’ راج ترنگنی ‘‘میں ان پنتیس راجگان کا کوئی ذکر نہیں ملتا تھا بلکہ کلہن کی تاریخ میںسا ڑھے تین سو سال تک محیط ایک ہی راجہ کی حکومت کا ریکارڈ تھا جو کسی بھی طرح قرین عقل نہیں۔ ’’رتناگر پُران‘‘ زین العابدین کے زمانے میں دریافت ہوئی تھی جو 1422 ء سے 1474 ء سلطانِ کشمیر رہااور یہ بطور بڈ شاہ اب تک کشمیر میں زندہ ہے ۔ بہر حال بڈشاہ کی فر مائش پر ہی مُلااحمد نے اس کتاب کا فارسی میں ترجمہ کیا تھا ۔ ’’رتنا گر پُران‘‘
اب پھر زمانے کی نظروں سے اوجھل ہے، اس لئے اس کا یہ ترجمہ بہت بڑی اہمیت ر کھتا ہے۔ پنڈوری سے اس کتاب کے ساتھ لوٹ کر حسن نے تاریخ کشمیر مرتب کی جس میں مُلا احمد کی اس کتاب سے بھر پور استفادہ کرکے اس خلاء کو پورا کیاگیا جو ’’راج ترنگنی ‘‘میں موجود تھا ۔ روایتاًکہا جاتا ہے کہ سُوئے اتفاق سے کسی سیلاب کے دوران یہ کتاب ساتھ لئے حسن کشتی میں سوار تھا کہ کشتی کہیں اُلٹ گئی ، کسی طرح حسن کوتو بچالیا گیا لیکن کتاب سیل ِرواں کی نذر ہو کر رہ گئی۔اس بات کاا مکان بھی رد نہیں کیا جاسکتا ہے کہ کسی دوسری وجہ سے یہ اوریجنل کتاب کہیں کھو گئی ہو یا تلف ہوئی ہو ۔ بہر حال مہاراجی دور میں بندوبست ِاراضی کے انگریز ماہر ومنتظم سر والٹر لارنس کو خاص طور حسن کھویہامی کے وسیع مطالعے اور بے انتہا جغرافیائی معلومات کا کھلا اعتراف رہا ۔حسن کے توسط سے ہی لارنس کو کشمیری زبان سمجھنے اور کشمیری قوم جاننے میں زبردست مدد ملی تھی ۔ اس کا بھر پور اعتراف لارنس نے اپنی شہرہ ٔآفاق کتاب ’’ویلی آف کشمیر‘‘کے صفحہ 454 ؍پربھر پور انداز میں یوں کیا ہے: ’’ میں نے جو بھی کشمیری سیکھی اور اس زبان سے واقفیت حاصل کی ہے ،اُس کے لئے میں پیر حسن شاہ کا ممنون ہوں جس کا سارا کام ہی کسانوں اور گاؤں والوں کے درمیان ہی رہا ہے ۔ ‘‘حسن کھویہامی کو سر والٹر لارنس کے ساتھ مہاراجہ کے زمانے میں1889-1894 بطورگا ئیڈکام کرنے کا خوب موقع ملا ۔ کہا جاتا ہے کہ حسن کا صرف ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام غلام محمد تھا ، غلام محمد عین شباب یعنی ۳۵ ؍سال کی عمر میں انتقال کر گیا ، اس کے دو بیٹے تھے،ایک کا نام غلام مصطفی اور دوسرے کا نام غلام محمد تھا ۔ غلام مصطفیٰ فاضلی کا فرزند حاجی عبدالمجید فاضلی آف احمد نگر ہیں جو مرحوم عیسیٰ فاضلی کے دادا جان ہیں ۔ہرصورت یہ بات شک وشبہ سے بالا تر ہے کہ حسن کھویہامی کو سرکردہ علمی اور سماجی شخصیت ہو نے کے ناطے مہاراجہ کی طرف سے اعزازاًگاندربل علاقے میں زمینیں ملی تھیں جو آج بھی اُن کے خاندان کی ملکیت میں ہیں۔ اس مستندمورخ، عالم اورشاعر کی شخصیت کی پرتیں کھولنے اور اس کی خدمات سے استفادے کے لئے لازمی ہے کہ حسن کھویہامی پر تحقیق و تفتیش کی کدال لے کر تاریخ نویسی کے فن کو حیات ِ نو دی جائے ۔
rashid.parveen48@g mail.com 9419514537