عمرہ اور مدینہ طیبہ کی زیارت کا پروگرام اچانک بن گیا۔ بزم اتحاد جدہ کے سالارِ ملت یادگار مشاعرہ کا دعوت نامہ (اطلاع نامہ) ملا تو ذہن میں آیا کہ اس مشاعرہ میں حیدرآبادی اور ہندوستانی برادری سے ملاقات ممکن ہے۔ تاہم جو خیال غالب تھا وہ خانۂ خدا اور بارگاہ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری کا تھا۔ اس لئے صرف 5؍دن کا پروگرام بنایا گیا۔ 17 اور 18مئی کو مدینہ طیبہ اور 19 اور 21 مئی کو اللہ کے دربار میں حاضر ہونے کا موقع ملا۔ جس طرح سے دونوں مقامات مقدسہ پر حاضری ہوئی‘ جس طرح سے سفر کے لئے حالات سازگار ہوئے، اس سے یہی یقین پختہ ہوا کہ جب بلاوا آتا ہے تو انسان رخت ِسفر خود بخود باندھتا ہے۔ یقیناً یہ بلاوا اللہ اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا۔ بزم اتحاد جدہ کے دعوت نامہ (اطلاع نامہ) اس کا ذریعہ بنا مگر امریکی صدر ٹرمپ کے دورۂ سعودی عرب کے پیش نظر مشاعرہ کی اجازت منسوخ کردی گئی اور جس تاریخ کو مشاعرہ کا اہتمام کیا گیا اُس دن اپنی واپسی کی وجہ سے اس میں شرکت ناممکن تھی۔ ہم نے اللہ کا شکر ادا کیاکہ عمرہ اور بارگاہ نبوی ؐ کی زیارت کی نیت کے ساتھ سفر محمود کیا تھا۔
گذشتہ 20برس کے دوران مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ میں حاضری کی کئی بار سعادت نصیب ہوئی مگر 20برس کے دوران بہت کچھ بدل گیا۔ حرمین شریفین کی وسعتوں اور رونقوں میں روز اضافہ ہی اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ دنیا کے سب سے بلند مینار مکہ ٹاور کی تعمیر کرکے ہماری دانست میں کعبہ اللہ کی عظمت کے شایانِ شان نہیں۔ حرم کے گردونواح میں 5؍اسٹار ہوٹلس کی تعداد بے تحاشہ بڑھ گئی ہے۔ سب سے زیادہ تکلیف دہ مناظر جنہیں دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے‘ وہ معتمرین اور زائرین کی سیلفی اور ویڈیو ریکارڈنگ کا جنون تھا۔ 20؍برس پہلے بھی حجاج، موتمرین اور زائرین چوری چپکے کیمرے سے فوٹو لینے کی کوشش کرتے تو سیکورٹی پر مامور سعودی حضرات کے عقابی نگاہوں سے بچ نہیں پاتے اور ان کے کیمرے حرمین شریفین کے فرش پر پٹخ دئے جاتے، کچل دئے جاتے یا ضبط کردئے جاتے مگر اب ہر ہاتھ میں موبائل کیمرے لئے بیشتر زائرین اپنی سیلفی لینے میں مشغول دِ کھتے ہیں۔ طواف بھی ہورہا ہے موبائل پر بات بھی ہورہی ہے۔ قہقہے بھی لگ رہے ہیں۔ طواف اور سعی یا روضہ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم میں مقصورہ شریف کے قریب سلام عرض کرنے کے منظر کو لائیو اپنے احباب اور رشتہ داروں کو دکھایا جارہا ہے۔ حرمین شریفین کے ملازمین حتی الامکان انہیں روکنے کی کوشش کرتے ہیں مگر کامیاب نہیں ہوپاتے۔ ابن صفی نے کسی ناول میں لکھا تھا ’’کسی فرد کا ذہنی توازن بگڑتا ہے تو اسے پاگل قرار دیا جاتا ہے مگر جب پوری قوم پاگل ہوجاتی ہے تو اسے انقلاب کا نام دیا جاتا ہے‘‘۔ یہ بھی شاید ایک قوم کے اخلاقی، ذہنی اور مذہبی جذبات کے دیوالیہ کا پاگل پن ہے جس کے آگے سبھی بے بس ہیں بلکہ آہستہ آہستہ یہ کلچر مسلمانوں کے مذہبی معاملات کا ایک جزو لاینفک بنتا جارہا ہے۔ ایک عام مسلمان زندگی میں ایک مرتبہ عمرہ، حج اور مدینہ طیبہ کی زیارت کی آرزو رکھتا ہے۔ آج بھی مسلمانوں کی اکثریت کی آرزو ان کے اپنے مالی حالت کی وجہ سے پوری نہیں ہوپاتی اور اللہ تعالیٰ جسے اپنے انعامات سے نوازتا ہے وہ اپنے آپ کو خوش نصیب سمجھتے ہیں (تھے)۔ سارا سفر حجاز ایک عشق و تصورِ محبوبیت کے ساتھ طے ہوتا۔ کعبۃ اللہ پر پہلی نظر پڑتی تو اس عقیدہ کے ساتھ کہ پہلی نظر کے ساتھ مانگنے والی دعا قبول ہوتی ہے‘ رو رو کر گڑگڑا کر دعائیں مانگی جاتیں۔ کعبہ معظمہ کی دیوار کو چھونے کی خواہش میں کتنے ضعیف جوان، بچے دوسروں کے قدموں تلے روندے جاتے۔ کتنوں کے دھکے کھانے پڑتے۔ ان تکالیف کا احساس کئے بغیر کعبہ کی دیوار کو چھولیتے تو لگتا جنت کو چھولیا۔ دیوار کو چوم کر اس سے لپٹ کر روروکر اپنے گناہوں سے توبہ کی جاتی۔ اپنے عزیز و اقارب کے لئے دعائیں مانگی جاتیں۔ حجر اسود کو بوسہ لینے کا جسے موقع مل گیا ،اس سے زیادہ خوش نصیب کون ہوسکتا ہے مگر یہ منظر جانے کیوں ہماری نظروں سے اوجھل رہے۔ اب تو منظر کچھ اور ہے۔ ہاتھ دیوار کعبہ کو لگا ہوا ہے‘ اور دوسرے ہاتھ میں موبائل فون سے سیلفی لی جارہی ہے۔ جہاں گڑگڑاکر رونا ہے ،وہاں مسکراتے ہوئے لائیو ٹیلی کاسٹ کیا جارہا ہے۔ عمرہ کے دوران سعی کی تکمیل پر مردوں کے سر مونڈھانے اور خواتین کی چوٹی کے کچھ بال نکالے جاتے ہیں‘ یہ منظر بھی موبائل کیمروں کے ذریعہ ریکارڈ کئے جارہے ہیں بلکہ خواتین بھی اپنے سر کے بال نکلوانے کے دوران سیلفی لیتی نظر آئیں۔ سعی، طواف اور سعی کے دوران مقررہ یا جو بھی یاد ہو وہ دعائیں پڑھنی ہیں مگر دونوں موقعوں پر بیشتر مردو و خواتین معتمرین سیلفی لینے میں مصروف نظر آئیں۔ بارگاہِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں حاضری دیتے ہوئے مقصورہ شریف کے پاس شہنشاہ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کو سلام عرض کرتے ہوئے پتھر دل انسان کی آنکھوں سے بھی اشک رواں ہوجاتے‘ کیوں کہ یہ احساس و عقیدہ ہے کہ خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم ہر سلام کا جواب دیتے ہیں مگر افسوس یہ حاضری بھی محض ایک رسم بن گئی کیوں کہ بیشتر ہاتھوں وہی موبائل جو سیلفی یا ویڈیو ریکارڈنگ میں مصروف!
علیم خان فلکی نے چند برس پہلے ایک کتابچہ شائع کیا تھا ’’خدارا عمرہ اور حج کو پکنک نہ بنائیں‘‘۔ ان کے الفاظ صد فیصد سچ ثابت ہوئے۔ ہم عمرہ اور زیارت کہاں کررہے ہیں؟ ہم تو بس ایک دکھاوا کررہے ہیں۔ ہمارے ہر فعل میں ریاکاری ہے۔ آنکھوں میں نہ تو آنسو، نہ چہرے پر اپنے گناہوں پر ندامت کے آثار۔ نہ دعاؤں میں رقت تو پھر کیسے حرمین شریفین میں مانگی جانے والی دعائیں قبول ہوں گی۔ اللہ رحمن و رحیم ہے وہ چاہے تو ہماری نادانی کو معاف کردے اور ہماری دعاؤں کو قبول کرے‘ مگر ہمارا جو کردار ہوچکا ہے‘ اس کے آئینہ میں اپنا جائزہ لیتے ہیں تو خود ہمارا ضمیر ہم سے سوال کرے گا کہ کیا ہم اللہ کی رحمت اور اس کے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت کے مستحق ہیں؟ جس مقام پر تمام توجہ خشوع و خضوع صرف اور صرف اللہ کی ذات کے لئے وقف ہونا چاہئے وہاں بھی جب ہم دنیاداری، ریاکاری، کررہے ہیں تو پھر وہ کیوں ہمیں ذلیل و رسوا محکوم نہ کردے۔
موبائل فون ویڈیو ریکارڈنگ، سیلفی یہ سب آج کے دور کے تقاضوں کی تکمیل ہے۔ بے شک ہمیں ہر قسم کی ٹیکنالوجی کا استعمال کرنا چاہئے مگر اس ٹیکنالوجی کو اپنی عبادتوں، ریاضتوں ، خلوتوں اورمقدس مقامات کے تقدس کو پامال کرنے کیلئے استعمال نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ کے دربار میں اس کے جاہ و جلال کا احساس‘ اس کا خوف رہے تو سیلفی کا تصور بھی نہیں ہوسکتا۔ جب یہ شعور پیدا ہوجائے کہ بارگاہ نبویؐ میں اونچی آواز میں گفتگو نہیں کی جاسکتی تو بھلا یہاں ویڈیو ریکارڈنگ اور اپنی خودنمائی کی تصاویر کیسے لی جاسکتی؟؟؟ بے شک ہم جیسے لوگ ’’ dated Out‘‘ پرانے اور فرسودہ خیالات کے ہیں۔ نئی نسل ڈیجیٹل ٹکنالوجی کے ساتھ ساتھ پروان چڑھ رہی ہے۔ ہم میں اور نئی نسل میں خیالات و نظریات کا فرق فطری ہے۔ افسوس اس بات کا ہے کہ ہماری عمر کے لوگ بھی نئی نسل کے شوق کے آگے نہ صرف بے بس ہیں بلکہ وہ خود بھی اس شوق کو اختیار کرنے لگے ہیں۔ یہ شوق ہمارے مذہبی اور اخلاقی گراوٹ کی علامت ہے۔ اس کے لئے ذمہ دار کون ہیں؟ عمرہ گروپس حجاج کے قافلے، تربیتی کیمپس سب کچھ ہے‘ سب کے ساتھ ان کی رہنمائی کے لئے اکثر علمائے کرام کی خدمات بھی حاصل کی جاتی ہیں مگر کون کس کی سنتا ہے؟ انفرادی طور پر عمرہ اور حج کرنے والوں کو کون روک سکتا ہے؟ صرف سعودی حکومت یہ کام کرسکتی ہے‘ اگر حرمین شریفین میں فون اور کیمروں کے ساتھ داخلے پر پابندی عائد کردی جائے تو حرمین شریفین کی عظمت اور اس کے تقدس کو پامال ہونے سے بچایا جاسکتا ہے۔ دشمنان اسلام ہر دور میں اس حقیقت سے واقف رہے کہ جب تک مسلمانوں کے دلوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی لافانی محبت و ہر چیز پر مقدم عزت برقرار ہے‘ اس وقت تک وہ ناقابل تسخیر رہیں گے ۔چنانچہ انہوں نے ہر دور میں ایسے حربے اختیار کئے جس سے مسلمانوں کے دلوں سے عظمت رسول ؐ کم ہوتی جائے۔ کبھی انہوں نے نعوذباللہ آقائے نامدار تاجدارِ مدینہ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ اہمیت دینے کی ناکام کوشش اور زہر یلی سازش کی، کبھی انہوں نے بے جا رسومات کا عادی بنادیا۔ آج انفارمیشن ٹکنالوجی کا عادی بناکر مسلمانوں کو اس کے مذہب سے دور کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔آج مکہ مکرمہ اور مدینہ طیبہ میں بیرونِ سعودی عرب سے آنے والے مسلمانوں کے طور طریقہ جیسے ہوگئے ہیں ،اس سے یہ انداز ہورہا ہے کہ یہ بھی ایک خارجی سازش اور داخلی لاپروائی کے سبب ہورہا ہے۔ آہستہ آہستہ حرمین شریفین کی عظمت اس کی اہمیت و فضیلت اور تقدس سے مسلمانوں کو مختلف طریقوں سے بے نیاز کرنے کی کوشش کی جائے گی ا ور جس دن اس سازش میں کامیاب ہوجائیں گے، اس دن وہ اپنے ناپاک منصوبوں میں بھی کامیاب ہوجائیں گے۔ اب بھی ہم اس قدر بے حس ہوچکے ہیں کہ مسجد نبوی ؐ کے قریب دھماکہ اور خود کش حملے ہوتے ہیں تو ہمارا دل تڑپ اٹھتا ہے مگر ہماری ملّی غیرت میں بال نہیں آتا،بلکہ ہم کسی دوست کی فارورڈ کی گئی ویڈیو کلیپنگ کو دیکھتے ہیں اور دوسروں کو فارورڈ کرتے ہیں، جو کہ نہیںضح ہونا چاہیے کیونکہ یہ بھی سُوئے ادب کے زمرے میں آتا ہے ۔ یہ ہماری بے حسی کا بدترین دور ہے۔ اللہ رب العزت ہماری بے حسی کو ختم کرے، ہمارے دلوں میں اپنا خوف اور اپنے حبیب پاک صلی اللہ علیہ سلم کی لاثانی ولافانی عزت و محبت اور اطاعت کا جذبہ بھردے۔ ہمیں نام کا نہیں بلکہ باعمل سچا مسلمان بنادے۔ ایسا مسلمان جس کے ہاتھ دعا کے لئے اٹھ جائے تو رحمت الٰہی جوش میں آجائے، جس دن ایسا ہوجائے ، اس دن دنیا کے کسی بھی خطے میں کسی بھی مسلمان پر کوئی ظلم وتشدد نہیں ہوگا، نہ کسی کلمہ خوان کا حق پامال ہوگا!۔
رابطہ :ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد۔ فون9395381226