اپریل 2014 میں معروف صحافی حامد میر پر کراچی میں نامعلوم بندوق برداروں نے حملہ کیا جس میں انہیں چھ گولیاں لگیں اور وہ شدید زخمی ہوگئے۔ واقعہ کے چند روز بعد جب میں میر صاحب کو کراچی کے آغا خان ہسپتال دیکھنے گیا تو وہ بے بسی کے عالم میں بستر پر پڑے تھے، پورے جسم پر پٹیاں لگی تھیں، میرے ہمراہ کیپٹل ٹاک ٹیم کے دیگر ساتھی بھی تھے۔ میر صاحب نے جونہی ہمیں دیکھا تو مسکرائے۔ اُن کی حالت دیکھ کر میں جذبات پر قابو نہ رکھ پایا اور روپڑا۔ حامد میر صاحب کی اہلیہ نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے مجھے پانی پلایا اور دلاسہ دیا۔ حامد میر صاحب نے مجھے آواز دی دیکھو میں تو مسکرا رہا ہوں، تم کیوں رورہے ہو، میں نے ہمت نہیں چھوڑی تم کیوں چھوڑ رہے ہو؟ حقیقت یہ ہے اگر انسان سچا ہو،حق پر کھڑا ہو، وہ ہر حال میں مسکراتا ہے۔ سچائی، بے باکی، صاف گوئی اس کو نڈر بناتی ہے ۔وہ ہر صورت حال اور زندگی کے اتار چڑھاؤ میں اپنے چہرے پر مسکراہٹ سجاتا ہے، وہ زخمی حالت میں بھی مسکراتا ہے، وہ زخموں کی تاب نہ لا کر مر جائے توبھی مسکراتا ہے۔ اُس کی یہی مسکراہٹ اُس کے دشمنوں کے لئے پیغام ہوتی ہے کہ دیکھو میں کامیاب ہوں تم ناکام ہو، میں جرأت مند اور بہادر ہوں تم بزدل اور کمزور ہو، میرااللہ مجھ سے راضی ہے تم سے نہ صرف اللہ بلکہ دنیا کے لوگ بھی ناراض ہیں۔ حامد میر اسی لئے زخمی حالت میں بھی مسکرارہے تھے اورسید شجاعت بخاری بھی مرنے کے بعد مسکراتے دِکھے۔ مرنے کے بعد بننے والی تصاویر میں بھی شجاعت بخاری کے چہرے پر تبسم بالکل عیاں تھی، یوں لگ رہا تھا جیسا کوئی دوست شرارت سے آنکھیں بند کرکے تاثردے رہا ہو کہ وہ سورہا ہے۔
2015 میں سید شجاعت بخاری کی قیادت میں کشمیر سے تعلق رکھنے والے 12 صحافی 19 تا 24 اگست تک پاکستان کے دورے پر رہے۔ حامد میر صاحب نے مجھے 20 اگست کو کہا کہ ہم شجاعت بخاری اور افتخار گیلانی کو کیپٹل ٹاک پروگرام میں مدعو کریں گے۔ میں شام سات بجے کے قریب انہیں پِک کرنے اسلام آ باد کلب روڑ پر واقع ایک ہوٹل پہنچا، یہ میری دونوں حضرات سے پہلی ملاقات تھی۔ چونکہ ایک وطن، ایک زبان، ایک تہذیب ہونے کی وجہ سے ہم چند ہی لمحات میں مانوس ہو گئے اوربے تکلفانہ گفتگو کرتے رہے۔ میں انہیں جیو آفس لے آیا۔ اسٹوڈیو میں شجاعت بخاری اور افتخار گیلانی کے علاوہ ن لیگ کے لیفٹیننٹ جنرل(ر) عبدالقیوم بھی تھے جب کہ نامور بھارتی خاتون صحافی جیوتی ملہوترا نئی دہلی اور حریت کانفرنس کے چیئرمین میرواعظ عمر فاروق سرینگر سے ٹیلی فون لائن پر تھے۔ اس پروگرام میں بھی شجاعت بخاری نے کشمیر میں ہونے والے مظالم اور کشمیریوں کے قتل عام پر دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے موثر اور سنجیدہ بات چیت پر زور دیا۔ پروگرام ختم ہونے کے بعد میں انہیں رات سوا نو بجے پھر ہوٹل ڈراپ کرنے گیا۔ گاڑی میں ہم تنیوں کھل کر گھپ شپ کرتے رہے۔ شجاعت بخاری نے مجھ سے کہا میں آپ سے تین سوال کروں گا، اُمید ہے آپ مجھے کھل کر جواب دیں گے۔ انہوں نے ایک ہی سانس میں مجھ سے تین سوالات کئے۔ میں نے تینوں سوالات کا جواب اس شعر سے دیا ؎
یہ دستورِزباں بندی کیسا ہے تیری محفل میں
یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری
پھر انہوں نے مجھ سے استفسار کیا کہ آپ کشمیر پر کتاب کیوں نہیں لکھتے؟چونکہ آپ نے کشمیر میں بچپن گزارا، بھارت کے خلاف کم عمری میں بندوق اٹھائی اور اب صحافتی میدان میں فرائض انجام دے رہے ہیں، اس لئے آپ کی کتاب کافی انفارمیٹو ہوگی'' میں بے از راہِ مذاق جواب دیا’’ میں بے قوف نہیں ہوں کہ ان غیر یقینی حالات میں کتاب لکھوں'' ۔ کیا مطلب آپ کا، کیا کتاب لکھنا بے وقوفی ہے؟ وہ ایک دم بول اُٹھے؟ میں نے کہا’’شجاعت صاحب !جب میں کتاب لکھوں گا تو سچ لکھوں گا، سچ لکھوں گا ، نتیجہ یہ کہ بہت سارے لوگ دشمن بن جائیں گے ۔ ممکن ہے کسی کی گولی کا نشانہ بنوں ، لہٰذا میں کتاب ضرور لکھوں گا لیکن بڑھاپے میں تاکہ مارا بھی جاؤں تو جوانی گزار کے مر جاؤں۔ اُن دونوں حضرات نے ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مارتے ہوئے قہقہ مارکر کہا: بالکل درست کہا، سچ بولنا اور سچ لکھنا بہت مشکل ہے۔
شجاعت بخاری صرف ایک اخبار کے سربراہ نہیں تھے بلکہ وہ انگریزی روزنامہ رائزنگ کشمیر، اردو روزنامہ بلند کشمیر، کشمیری زبان کا ہفتہ روزہ سنگرمال اور اردو ہفتہ روزہ کشمیر پرچم کے مدیر اعلیٰ تھے۔ شجاعت سرینگر میں ایک دیر ینہ اور اعلیٰ کلچرل اور ادبی تنظیم ادبی مرکز کمراز کے صدربھی تھے۔ وہ سرینگر ہائی کورٹ بار سے بھی وابستہ تھے۔انہوں نے ایشین سینٹر فار جرنلزم سنگاپور میں فیلوکی حیثیت سے منیلا فلپائن کی ایک یونیورسٹی سے صحافت میں ماسٹرز کی ڈگری حاصل کی تھی جس کے بعد انہوں نے پی ایچ ڈی کی ڈگری بھی اپنے نام کردی۔ وہ ایسٹ ویسٹ سینٹر ہوائی امریکہ کے فیلو بھی تھے۔ انہوں نے عالمی سطح پر مسئلہ کشمیر کو اجاگر کرنے اور کشمیر کے منصفانہ اور پائیدار حل کیلئے حوصلہ افزاء کام کیا۔
شجاعت بخاری پر حملہ پہلی بار نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل وہ تین مرتبہ حملوں میں بچ گئے تھے۔ اس لئے 2000ء سے انہیں پولیس کی حفاظت حاصل تھی۔ 1996یں’’ اخوان‘‘ نامی مسلح جھتے جس کو سرکاری سرپرستی حاصل تھی ،کے بندوق برداروں نے اسلام آباد اننت ناگ میں 19 صحافیوں کو اغوا ء کیا ، شجاعت بخاری بھی مغویوں میں شامل تھے۔ 2006 میں دو مسلح افراد نے شجاعت بخاری کو اغوا ء کیا۔ کافی دور لے جا کر جب انہوں نے شجاعت کو گولی مارنے کیلئے کلاشنکوف کو کاک کیا تو بندوق جام ہوگئی اور شجاعت بخاری جو چست بدن اور دراز قامت تھے، بھاگنے میں کامیاب ہوگئے۔
شجاعت بخاری کا تعلق وادی کشمیر کے شمالی ضلع بارہ مولہ کے کریری گاؤں کے ایک پڑھے لکھے اوردیندارسید گھرانے سے تھا۔ ان کے بھائی بشارت بخاری پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کے ایم ایل اے اور سابقہ ریاستی حکومت میں وزیرتھے ۔ 14جون 2018، اُنتیس رمضان المبارک کو شام سات بجے شجاعت نے گھر فون کر کے اپنی اہلیہ سے کہا میں افطار گھرپر ہی کروں گا،وہ سرینگر کے لال چوک پریس کالونی میں واقع اپنے آفس سے نکل کر گاڑی میں سوار ہی ہوئے کہ مسلح افراد نے ان کی گاڑی پر قریب سے اندھادھند فائرنگ کردی ۔اس کے نتیجے میں شجاعت اور ان کا ایک محافظ موقع پر ہی جاں بحق ہوا جب کہ دوسرا سیکورٹی اہل کار ہسپتال میں دم توڑ بیٹھا۔ شجاعت کے جسم پر ایک نہیں دو نہیں بلکہ سولہ گولیوں کے زخموں کے نشانات پائے گئے۔ مرحوم نے اپنے پیچھے والدین، اہلیہ اور دو بچوں (بیٹا اور بیٹی) کو چھوڑا جو ابھی کم سن ہیں۔وہ ہمیشہ کہتے تھے کشمیر میں کوئی پتہ نہیں چلتا دوست کون اور دشمن کون ہے، یہاں قاتل کا سراغ بھی نہیں لگتا اور نامعلوم قاتل ہمیشہ نامعلوم ہی رہتا ہے۔ انہوں نے کسی بھی مرحلے پر سچ کا دامن نہیں چھوڑا، انہوں نے سچ کو اپنا دوست بنایا تھا اور سچ بولنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے۔ سچ کو اپنا شعاراور فریضہ سمجھ کر وہ کھل کر بولتے چاہئے کوئی راضی ہو یا ناراض۔ دم ِواپسیں سے کچھ گھنٹے قبل انہوں نے حقوق البشر کی کے بارے میں کشمیر کی صورت حال پر اوال متحدہ کی اپنی نوعیت کی پہلی چشم کشا رپورٹ ٹویٹر کے ذریعے اَپ لوڈ کردی تھی ۔ اس بارے میں موصوف نے کہا تھا کہ حق خود ارادیت ہر کسی کا بنیادی حق ہے اور کشمیری عوام پر مظالم ومصائب کا سلسلہ بند ہونا چاہئے۔ اس پر بعض کم نگاہ صحافیوں سمیت بھارت کے مختلف طبقات ِ خیال سے تعلق رکھنے وا لوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ شجات بخاری نے اپنے سب ناقدین کو اپنی آخری ٹویٹ میں پیغام دیا :’’ہم نے کشمیر میں بڑے فخر سے صحافت کی اور یہاں کشمیر میں جو کچھ ہورہا ہے اس کو مسلسل منظر عام پر لاتے رہیں گے‘‘۔ شجاعت نے یہ ٹویٹ اَپ لوڈ کردی اور خود ہمیشہ کے لیے ہم سے بچھڑ گئے۔ وہ مدلل انداز میںکشمیر کاز کو بے خوف وخطر اُجاگر کرتے رہے ۔بہر حال ایک سچے انسان کو زخمی کیا جاسکتا ہے، اس کو قتل بھی کیا جاسکتا ہے لیکن اُس کو ہر گز ہرگز ہرایا نہیں جاسکتا۔ سچا انسان حامد میر کی طرح چھ گولیاں کھاکر بھی مسکراتا ہے اور شجاعت بخاری کی طرح مرنے کے بعد بھی مسکراتا ہے۔
نوٹ : مضمون نگارپاکستانی نیوز چینل سماء ٹی وی کے کٹنٹ پروڈیوسر ہیں۔