حروف اور اعداد کے درمیان مطابقت قائم کرنے کا سلسلہ کب شروع ہوا یہ بتانا مشکل ہے۔ فطرت انسانی کا یہ ایک بنیادی تقاضہ ہے کہ اس کی زندگی اور موت کو دنیا ہمیشہ یاد رکھے اور اس کے کارنامے اس کی زندگی اور وفات کے بعد بھی تاریخ کا ایک حصہ بن جائیں۔ قدیم عمارتوں پر ہم اکثر سنہ تعمیر پاتے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ تعمیر عمارت کی تاریخ دنیا والوں کے لیے ہمیشہ قائم رہے۔ مثلاََ آندھرا پردیش ہائی کورٹ کا سنہ تعمیر ’عدالت العالیہ عثمانیہ‘سے برآمد ہوتا ہے۔ اس طرح ’یا حافظ‘ سے چار مینار کی تعمیر کا سنہ ’ بیت العتیق ‘ سے مکہ مسجد کی تعمیر کا سنہ اور ’باغ عامہ کی مسجد کا سنہ تعمیر ’بن گئی باغ عامہ کی مسجد‘ سے نکلتا ہے۔ ان قدیم عمارتوں کو بنانے والے کب کے خاک کے ڈھیر ہو گئے لیکن عمارتیں باقی رہیںاور بنانے والے کا نام اور سنہ تعمیر آج بھی ہمارے سامنے پیش نظر ہے۔ زمانے کے گزرنے کے ساتھ یہ بھی ایک ضروری امر ہے کہ جس طرح عمارتوں کو بنانے والے موت کی نیند سو گئے اسی طرح ان کی بنائی ہوئی عمارتیں بھی ٹوٹ پھوٹ کر خاک میں مل گئیں لیکن ان عمارتوں کے آثار اور نقوش اور وہ عبارتیں آج بھی کتابوں میں محفوظ ہیںجو ان عمارتوں کی نشاندہی کرتی ہیں۔ حقیقتِ حال یہ ہے کہ مرنے کے بعد بھی انسان مر نا نہیں چاہتا ۔ جب تک کسی شخص کا نام انسانوں کے ذہن اور کتابوں میں موجود ہے ، وہ زندہ ہے۔ اس لیے یہ تحریک پیدا ہوئی کہ انسانی کارناموں کو فنِ تاریخ گوئی کے ذریعہ قائم اور جاوداں بنایا جائے۔ اسلامی دور کے مشہور تاریخی واقعات، فتوحات ، سنِ پیدائش، سنِ وفات، جلوس ، تصانیف، کتب وغیرہ تاریخ گوئی کے ذریعہ محفوظ ہیں۔ کسی نے مسجد بنوائی ، شاعر اور ماہرین تاریخ گوئی نے اس کارنامے کو قطعہ تاریخ کی صند دیدی۔غرض یہ کہ اعداد و حروف کی مطابقت انسان کی ایک خاص ضرورت کو پورا کرتی ہے اور وہ ضرورت یہ ہے کہ انسانوں کے کارنامے محفوظ ہوجائیں۔
ابجد کے ہر حرف کا ایک عدد متعین ہے۔ جن کی تفصیل یہ ہے:
ابجد: ۱، ب= ۲، ج= ۳، د= ۴
چونکہ یہ چاروں حروف مل کر ایک لفظ ’ ابجد‘ میں تبدیل ہوجاتے ہیں اسی مناسبت اس تاریخ گوئی کے فن کو’ ابجد ‘کہتے ہیں۔ اس کے بعد جو حروف استعمال ہوتے ہیں ان کی تفصیل کچھ اس طرح ہے۔
ھوز: ھ= ۵، و= ۶، ز= ۷
حطی: ح= ۸، ط= ۹ ، ی= ۱۰
کلمن: ک= ۲۰، ل= ۳۰، م= ۴۰، ن= ۵۰
سعفص: س= ۶۰، ع= ۷۰، ف= ۸۰، ص= ۹۰
قرشت: ق= ۱۰۰، ر= ۲۰۰، ش= ۳۰۰، ت= ۴۰۰
ثخذ: ث= ۵۰۰، خ= ۶۰۰، ذ=۷۰۰
ضظغ: ض= ۸۰۰، ظ= ۹۰۰، غ= ۱۰۰۰
ہندوستان، ایران اور پاکستان میں جن نئے حروف تہجی کا اضافہ ہوا ہے ان کے اعداد ان سے ہم شکل حروف و اعداد سے متعین کے لئے گئے ہیں جیسے پ یا ب =۲، ٹ یا ت = ۴۰۰، چ یا ج=۳، ڈ یا د= ۴، ژ یا ز= ۷، ڑ یا ر= ۲۰۰، گ یا ک= ۲۰۔
مادہ تاریخ سے سن یاد رکھنے میں سہولیت ہوتی ہے۔ لیکن یہ طریقہ کب ایجاد ہوا یہ بتانا مشکل ہے۔ ڈاکٹر غلام مصطفے خاں کا خیال ہے کہ یہ طریقہ عہدِ غزنوی ۳۶۸ء میں رائج ہو چکا تھا۔ ان کی تحقیق کے مطابق ’فردوسی‘ ۳۱۶ھ اور ’شاہ نامہ‘ ۴۰۲ھ ، یہ دو تاریخی نام ہیں۔ مشہور مستشرق پروفیسربرائون کی تحقیق یہ ہے کہ اس طریقہ کا موجد خواجہ شمس الدین فضل اللہ (۱۲۴۷ء تا ۱۳۰۰ء) ہے۔ ہندوستان میں سب سے پہلے خواجہ نظام الدین اولیاء کی تاریخ وفات مادہ تاریخ کے ذریعہ محفوظ کی گئی۔ ’شہنشاہ دین‘ ان کا مادہ تاریخ ہے۔ اس سے ان کی تاریخ وفات ۷۲۵ھ بر آمد ہوتی ہے۔ فیروز شاہ تغلق کے مرنے کی تاریخ ’وفاتِ فیروز (۷۹۰ھ) اور اورنگ زیب کے مرنے کی تاریخ ’روح ریحان و جنت النعیم‘ سے نکالی گئی ۔ کسی دکنی شاعر نے ارونگ زیب کی تاریخ وفات ’مغل موا‘ سے نکالی ہے۔
جب کسی مادے سے پوری تاریخ نہیں نکلتی ہے تو اس میں کچھ اعداد کا اضافہ کیا جاتاہے تو اسے ’تدخلہ‘ کہتے ہیں۔ اور بعض اوقات کچھ اعداد کم کر دیئے جاتے ہیں تو اسے ’تخریجہ‘ کہتے ہیں۔ جس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے۔
من چے گویم کربلا ر ا واقعات
آہ بیروں آمادہ از اسمِ ذات
ترجمہ: میں نے سوچا کہ واقعہ کربلا ، یہ سنتے ہی میرے گلے سے آہ باہر نکل گئی۔ یعنی اسم ذات اللہ سے ۶۶، آہ کے اعداد ۶خارج کر دیئے جائیں تو کربلا کے واقعہ کی تاریخ ۶۰ھ برآمد ہوتی ہے۔ یہ مادہ تاریخ تخریجہ کہلاتا ہے۔
اللہ آہ
۱=۱
ل= ۳۰ ا=۱
ل=۳۰ ہ=۵
ھ= ۵ میزان= ۵
میزان= ۶۶
۶ -۶۶=۶۰
اسی طرح حضورؐ کے نامِ مبارک سے یہ مادہ نکلتا ہے:
محمد
م= ۴۰
ح= ۸
م=۴۰
د=۴
میزان= ۹۲
اسی طرح کی ایک اور مثال سرسید احمد خاں کاتاریخ پیدائش کا مادہ ’ غفرلہ‘ سے دی جاسکتی ہے۔ جس میں غ= ۱۰۰۰، ف= ۸۰، ر= ۲۰۰، ل= ۳۰ اور ہ= ۵ ہے۔ اس حساب سے ان کی تاریخ پیدایش ۱۳۱۵ھ ہے کو کہ بالکل صیح ہے۔
اسی طرح ہم’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘ کے لیے ۷۸۶ کے اعداد کا استعمال کرتے ہیں۔ یہاں پر ہم یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ ۷۸۶ کیا واقعی صیحح یا غلط۔ ہم پہلے بسم اللہ الرحمن الرحیم کے حروف کو اپنے اعداد سے شمار کریں گے۔
ب= ۲، س= ۶۰، م= ۴۰، ا= ۱، ل= ۳۰، ل=۳۰، ہ= ۵، ا= ۱، ل= ۳۰، ر= ۲۰۰، ح۸=، م ۴۰، ن=۵۰، ا=۱، ل =۳۰، ر=۲۰۰، ح=۸، ی= ۱۰، م= ۴۰
میزان= ۷۸۶
گو ہم کہہ سکتے ہیں کہ ابجد ،تاریخ نگاری کے میدان میں کافی اہمیت کا حامل ہے۔