جواہر لال نہرو یونیورسٹی اپنے تعلیمی معیار اور نشورانہ مزاج کی وجہ سے ملک اور بیرون ممالک کے لیے باعث کشش رہی ہے۔ساتھ ہی وہاں کی آزاد انہ روش بھی جہاں تعلیمی ماحول کے تئیں قابل ذکر ہے،وہیں جے این یو کا یہی رویہ بے شمار عناصر اور اَن گنت افراد کے لیے دردِ سر بھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ تما م پہلو ؤںسے جے این یوپر ہر ایک کی نگاہ گہرے طور مر کوزہوتی ہے۔ اسی طرح جے این یو طلبایونین کا انتخاب بھی ملک کے ایک بڑے طبقہ کی توجہ کا مرکز بنا رہتا ہے، گر چہ یہ سب کو معلوم ہوتا ہے کہ روایتی طور پر وہاں لال سلام کی گونج سنائی دے گی ۔
گزشتہ برسوں کی طرح 2017-18کے الیکشن میں بھی لیفٹ پارٹیوں کو جے این یو میں کامیابی ملی جس پر کئی ایک حیثیت سے بے شمار چہرے کھل اٹھے مگر اسی کے ساتھ مختلف نوعیت کئی سوال بھی اُبھر رہے ہیں۔ سب سے پہلا سوال یہ ہے کہ مسلسل لیفٹ پارٹیوں کی جیت سے آخر کیمپس کے کتنے مسائل حل ہوتے ہیں؟ یہ کوئی دور کی بات نہیں کہ پچھلے چار پانچ برسوں میں منعقدہ انتخابات کے منشور تقریباً ایک ہی جیسے رہے۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ ہر برس ایک ہی جیسے منشور پر انتخابات منعقدہوتے ہیں ۔ اس کا مطلب بھی اخذ کیا جاسکتا ہے کہ الیکشن کے بعد منشور کے مطابق مسائل حل نہیں ہوپائے ہیں ، اس لیے الیکشن لڑنے والی پارٹیاں اگلے برس بھی گذشتہ برسوں کے منشور کو سامنے رکھتے ہی میدان میں آتی ہیں۔غور طلب بات ہے کہ اگربیشتر پارٹیوں کے منشور کیمپس سطح پر ایک جیسے ہی ہوتے ہیں تو پھر لیفٹ پارٹیوں کی جیت اہم کیوں ہوجاتی ہے ؟میرا مانناہے کہ طلبہ یونین الیکشن ایک طرح سے طلباء کی سیاسی ٹریننگ ہے جس میں پارٹیوں کا عمل دخل بالکل بھی نہیں ہونا چاہیے۔مطلب یہ کہ یونین کے انتخابات ہوں ،مگر ان پارٹی لیبل پر نہ ہو تو زیادہ بہتر ہے ، جیسا کہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں ہوتاہے کہ وہاں پارٹی لیبل پر سٹوڈنٹ یونین الیکشن نہیں ہوتا ، تاہم یہ الگ بات ہے کہ وہاں علاقائیت کا معاملہ کچھ زیادہ ہی گہرا ہوتا ہے ۔ اب جے این یو کی بات کیجیے تو وہاں پارٹی لیبل پر الیکشن ہوتا ہے اور بیشتر لیفٹ پارٹیاں جیت جاتی ہیں۔ اگر سنٹرل پینل میں لیفٹ پارٹیاں ہوتی ہیں تو ان سے کوئی باز پرس نہیں کرسکتا اور اگر دوسری پارٹیوں کا کوئی ممبر اس میں شامل ہوتا ہے تو ہمیشہ یہی معاملہ سامنے آتا ہے کہ پوری یونین اس کے نقطہ نظر سے متحد نہیں ہے۔ گویا سنٹرل پینل لیفٹ کے قبضے میں ہو تب بھی کوئی معاملہ حل ہونے سے رہا اور اگر سنٹرل پینل میں کسی اور کی شمولیت ہوگئی تو نزاع کی صورت حال ہوتی ہے اور کوئی اہم ایشو حل نہیں ہوپاتا ہے بلکہ سال بھر یونین میں تناؤ سا رہتا ہے ۔
ملک کی بڑی پارٹیوں کی ونگ یونیورسٹیز میں نہیں ہوگی تو اس کا فائدہ یہ بھی ہوگا کہ کیمپس گندی سیاست سے محفوظ رہے گا ۔ اس امر کو یوںسمجھا جا سکتا ہے کہ جے این یو میں اکھل بھارتیہ ودھان پریشد کوزبردست شکست ملی جب کہ جے این یو پر ملک کے بڑے بڑے سیاست دانوں کی نظر تھی۔ ایسے میں ظاہر ہے کہ جہاں یونیورسٹی میں زیر تعلیم انتخابی شکست سے دوچار ہونے والے امیدوار اور ان کے حامی مایوس ہوئے ، وہیںملکی سیاست کے کھلاڑی بوکھلا گئے ، اگرچہ وہ باہر سے ہی جے این یو الیکشن کا نظارہ کررہے تھے۔ ایسے میں طلباء الیکشن بھی ایک طرح سے سیاست گزیدہ بن کر رہ جاتا ہے جس کا مثبت ومنفی اثر کیمپس سے باہر بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ اس لیے بہتر یہی ہے کہ جہاں جہاں یونین کے الیکشن ہوں وہاں سیاسی تناؤ ختم کرنے کی غرض سے ایک ایسا میکانزم اختیار کیا جائے کہ پارٹی لیبل الیکشن پرا ثرا نداز نہ ہواور ملک کی سیاسی پارٹیوں کے بینر سے ہٹ کر الیکشن منعقد ہوتو طلبا ء ملکی پارٹیوں کے تئیں نہ غلط زبان استعمال کریں گے اور نہ باہر کی داغ دار پارٹیوں کے دفاع میں وہ وقت برباد کریں گے ۔ پارٹی لائن پر الیکشن لڑنے کا نقصان یہ ہوتا ہے کہ کامیاب ہونے والی پارٹیاں ہی طلباء کے حق کے لیے لڑائی لڑتی ہے جب کہ دیگر پارٹیاں اس لیے اس مبنی بر انصاف جدوجہد میںحصہ نہیں لیتی ہیں کہ سہرا میرے سر نہیں جائے گا یا پھر میری پارٹی ناراض ہوجائے گی۔ مثلاً آج ملک میں بی جے پی کی حکومت ہے ۔ نیٹ سے لے کر تعلیمی بجٹ میں کٹوتی کے معاملہ پر جے این یو کی لیفٹ پارٹیوں نے حکومت کے خلاف زبردست پروٹسٹ کیا ، مگر اے بی وی پی (آرایس ایس کی طلباء ونگ)نے اس کا ساتھ نہیں دیا کیونکہ ان کے ایک طلبہ مسئلے سے لاتعلق رہنا ان کی پیر نٹ پارٹی کے حا میں جاتا ہے۔ مزید براںپارٹی کی بنیاد پر الیکشن لڑنے والے طلباء کے درمیان عام طور سے یہ بھی دیکھا گیا کہ کیمپس کا معاملہ پیچھے چلا جاتا ہے اور وہ ملک کی بڑی پارٹیوں کے دفاع اور پرموشن میں زیادہ وقت گزاد یتے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ خالص طلباء الیکشن میںجیت حاصل کرنے والا فرد کسی بڑی پارٹی ترجمان بن گیاہے ۔ اس طرح طلباء کا کوئی بھی معاملہ ترجیحی بنیادوںپر حل نہیں بلکہ سیاست زدہ ہو کر رہ جاتا ہے۔ سٹوڈنٹ ونین کا الیکشن کیمپس کے حق میں زیادہ مفید ہو نا زیادہ بہتر ہے ،مگر لیفٹ پورے سال اے بی وی پی کا خوف دلانے اور اپنی مسلسل جیت کے خمار میں رہنے کی بنا پر طلباء کے حق میں کچھ نہیں کرتی ، جب کہ اے بی وی پی اور این ایس یو آئی کے تئیں طلبا کے درمیان خلیج پیداہوجاتی ہے۔ ان پارٹیوں سے خلیج پیدا کرنے میں طلبا ء کا نقصان ہوتا ہے ، تناؤ اور کشیدگی کی کیفیات پیدا ہوتی ہیں ۔اس طرح الیکشن میں جیت سے لیفٹ کا فائد ہ ہوتا ہے مگر طلبا کے مسائل بغیر حل رہ جاتے ہیں ۔
اب جے این یو کے حوالے لیفٹ پارٹیوں کو طلبا کے درمیان خلیج پیدا کرنے کے بجائے کیمپس کے حق میں اور طلبہ دوست مفید اقدمات کرنے چاہیے۔ ساتھ ہی ساتھ اسے اپنے منشور پر کام شروع کرنے میں کوئی لیت ولعل نہیں کر نی چاہیے ۔ آج تک دیکھا یہ گیا کہ جے این یو میں کامیاب ہونے والی لیفٹ پارٹیاں طلباء کے مسئلہ کو بھول کر اے بی بی وی پی کے پیچھے لٹھ لئے پھرنے میں زیادہ وقت ضائع کرتی ہیں۔ ایک چھوٹی سی مثال پیش خدمت ہے کہ ہر پارٹی منشور میں ذکر کرتی ہے کہ کامیابی کے بعد دہلی کی اے سی بسوں میں بھی اسٹوڈنٹ بس پاس کو منظوری دلوائیں گے ، مگر برسوں بیت گئے ، اس مدعے پر کچھ نہیں ہوا جب کہ جیتنے والی پارٹیوں نے بہت سے ایسے ایشوز پر ہنگامہ کیا جو طلبا کے متعلق ہیں ہی نہیں ۔ اس بار بہتر ہوگا کہ کیمپس میں جیت حاصل کرنے والی پارٹیاں طلباء کے مسائل پر فوکس رہیں ۔بہر کیف ملک کی جو سیاسی صورت حال اس وقت ہے ، اس کے پس منظر میں جس دانش مندی کا ثبوت دینا ضروری تھا ، جے این یو کے طلبا نے وہ ثبوت دیا ۔ اس بڑی جیت کے لیے جہاں جے این یو کے تمام طلبا ء وطالبات مبارکباد کے مستحق ہیں، وہیں بائیں بازو کی وہ پارٹیاں بھی قابل تہنیت ہیںجنہوں نے وقت کی نزاکتوں کو سمجھتے ہوئے باہمی اتحاد کیا ۔ بہر حال لیفٹ کی یہ جیت ملکی صورت حال کے پس منظر میں قابل اعتناء پیش رفت ہے، اور اس میں لیفٹ پارٹیوں کے لیے بھی سندیسہ ہے کہ اگر وہ متحد نہیں ہوتے تو نتائج کیا ہوتے ۔۔۔۔۔۔۔؟
9810318692