غیر ازدواجی جنسی تعلقات یعنی شادی شدہ مردوزن کا اپنے شریک ِحیات کے علاو ہ کسی غیر محرم سے جنسی تعلقات قائم کر ناایک بدترین اخلاقی عیب اور سماجی بغاوت ماناجاتا ہے۔ یہ عیب اور بغاوت بھی اب ناسور کی طرح ملک وقوم میں بوجوہ پنپنے لگاہے جس سے لاکھوں ازدواجی زندگیاں تباہ وبرباد ہو رہی ہیں اور شتوں کا تقدس پامال ہوچکا ہے۔نتیجہ یہ کہ کہیں پہ فتنہ وفسادہے، کہیں طلاقیںا ور میاں بیوی میںجدائیاں ہیں اور کہیں کہیں یہ ناسور قتل وغارت کا بنیادی محرک بنا ہو اہے ۔ بلاشبہ اس غیر اخلاقی عمل یا جرم وگناہ نے ساری انسانیت کو ہی شرمندہ کر کے رکھ دیا ہے۔ بے حیائی کسی بھی قسم اور شکل وصورت کی ہو، اس کاپنپ اُٹھنا پوری قوم اور انسانیت کے لئے شرمندی کا باعث بنتا ہے۔ دنیا کے بیشتر ممالک میں غیر ازدواجی جنسی تعلقات کو غیر قانونی واخالق باختگی قرار دے کر اس میں ملوث افراد کو کڑی سزا کامستحق ٹھہرایا گیا ہے بلکہ جن ممالک میں شریعہ قانون نافذالعمل ہے، اُن ممالک اور معاشروںمیں شادی شدہ مرد یا عورت کو کسی غیر محرم کے ساتھ جنسی تعلقات کا مرتکب پانے کی پاداش میں رجم تک کی سزا دی جاتی ہے ۔ اس سنگین سزا کی وجہ سے ایسے ممالک میں جنسی جرائم کی تعداد کافی کم ہونا قابل فہم بات ہے۔ غور طلب بات یہ ہے کہ غیر ازدواجی جنسی تعلقات کو یورپ کے بھی کئی ممالک میں پہلے پہل جرم کی فہرست میں رکھا گیا تھا جن میں اسپین، اٹلی، فرانس اور سوٹزرلینڈ وغیرہ شامل ہیں لیکن بعد ازاں ان ممالک میںاس گناہ و جرم کو بد باطنی بڑھنے سے جائز قرار دیا گیا ۔ بیسویں صدی کی ا بتداء سے ایک مہم شروع ہوئی جس کے تحت امریکہ کی کئی ریاستوں کے ساتھ ساتھ اٹلی، فرانس، اسپین ، سویزرلینڈ کے علاوہ کئی ایک ایشائی ممالک جیسے جاپان اور جنوبی کوریا میں اس جرم اور گناہ کو Legaliseکیا گیا ، یعنی سادہ بھاشا میں اس سنگین جرم کو جرائم کی فہرست سے نکال کر جائز اور قابل قبول قرار دیا گیا۔
ا فسو س کہ اس گندی مہم میں اب ہندوستان بھی’’ ترقی ‘‘ کے نام سے جُڑ گیا ہے ۔حل ہی مییں ملک کے سب سے اعلیٰ ایوان ِ عدل نے ایڈلٹری( adultry)یعنی غیر ازدواجی جنسی تعلقات کو جرائم کے زمرے سے خارج کر کے اس پر بیک جنبش قلم جائز ہونے کی مہر لگا دی۔ قبل ا زیں عدالت اعظمیٰ نے ہم جنسیت پر بھی قانون کا ٹھپہ مارا۔ واضح رہے غیر ازدواجی تعلقات یعنی اپنی اہلیہ کے بغیر مردکاکسی بھی عورت سے یا اپنے شوہر کے بغیر عورت کا کسی بھی مرد سے جنسی تعلقات رکھنے کو تعزیراتِ ہند کی دفعہ 497 کے تحت غیر قانونی اور جرم تصور کیا جاتا تھا جس کی رُو سے غیر ازدواجی تعلقات رکھنے والے مرد کو پانچ سال تک کی سزا ہوتی تھی لیکن عورت کو متاثرہ مانتے ہوئے ا س سے بری الذمہ کیا جاتا تھا ،لیکن سپریم کورٹ میں گزشتہ دنوں چیف جسٹس دیپک مشرا کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے تعزیراتِ ہند کی دفعہ 497کو غیر آئینی قرار یتے ہوئے اسے کالعدم کر دیا۔ در اصل دفعہ 497 پر سوال اُس وقت اٹھایا گیا جب ریاست کیرالہ کے ایک اٹلی نژاد تاجر جوزف شائین نے یہ کہتے ہوئے اس قانون کے خلاف PIL دائر کی تھی کہ اگر مذکورہ جرم کا ارتکاب مرد اور عورت دونوں کی باہمی مرضی سے ہوتا ہے توجرم کی پادش میں سزا کا حق دار صرف مرد کیوں ؟ غور طلب بات یہ ہے کہ پیٹیشن دائر کرنے والا جوزف شائین اٹلی میں مقیم ہے اور اس کے مطابق اُس نے یہ پیٹیشن اپنے لئے نہیں بلکہ ہندوستان میں رہ رہے مردوں کے لئے دائر کی تھی ۔ بقول جوزف شائین کے وہ ہندوستانی مردوں کو اس قانون کے غلط نتائج سے بچانا چاہتے تھے۔ اس سے قبل 1971ء میں پہلی بار اس قانون میں ترمیم کرنے کی تجویز پیش ہوئی تھی اور 2003 ء میں ایک سینئر جج نے اس قانون پر نظر ثانی کرنے کی سفارش کی تھی۔ بہر کیف حالیہ فیصلے میں عدالت نے مذکورہ دفعہ کو’’ دقیانوسی‘‘ اور آئین ہند کی دفعہ14 اور دفعہ21 کے منافی جتایا ہے۔ قارئین کی یاد دہانی کے لئے یہاں یہ نوٹ کرنا بہتر ہوگا کہ آئین ہند کی دفعہ 14 تمام شہریوں کے لئے قانونی مساوات کی ضمانت دیتا ہے اور دفعہ 21 ریاست کو کسی شخص کی زندگی یا ذاتی آزادی میں مداخلت سے باز رکھتی ہے ۔قارئین کے حافظے میں ابھی تک محفوظ ہوگا کہ جسٹس مشرا کی سربراہی والی بنچ نے اس سے قبل ہم جنس پرستی کو جرم قرار دینے والے تعزیراتِ ہند کے دفعہ 377 کو غیر آئینی مانتے ہوئے کالعدم کیا تھا۔
ہندوستان میں ماورائے نکا ح جنسی تعلقات کے بارے میں ایک رپورٹ کے مطابق جو کہ National Opinion Research center, University of Chikago نے تیار کی تھی ، ہندوستان میں 25 فی صد مرد اور 17فی صد خواتین اپنے غیر ازدواجی تعلقات کا اعتراف کرتی ہیں ۔ دوسری ایک رپورٹ کے مطابق 65فیصد معاملات میں غیر ازدواجی تعلقات کا نتیجہ طلاق کی صورت میں سامنے آتا ہے۔ علاوہ ازیں ہندستان میں جنسی جرائم کا گراف عروج پر ہے ۔مذہبی اور سماجی اعتبار سے دیکھیں تو یہ دونوں عدالتی فیصلے عام شہر یوں کی زندگی پہ کافی اثرا انداز ہونے والے ہیں۔ ایڈلٹری اور ہم جنس پرستی کو اسلام اور دیگر مذاہب میں جرم کے زمرے میں آتے ہیں اور قابل سزا برافعل مانا جاتا ہے۔دوسرے الفاظ میں یہ دونوں سنگین جرائم کی فہرست میں شامل ہیں جن کی سزا بھی سنگین ہے۔ انہیں اگر چہ ملکی عدلیہ نے جرم نہ مانتے ہوئے ’’جائز‘‘ قرار دیا ہے لیکن کیا اس کھلی چھوٹ سے ایک ایسا سماج تیار نہ ہوگا جو ایڈلٹری اور ہم جنس پرستی جیسے بد ترین قبیح جرائم کو فروغ نہ دے سکے گی۔ اگر سماج میں ایسا منفی بدلائو قانونی اجازت کے راستہ آتا ہے تو اس کا نتیجہ کتنا گھناؤنا ہوگا؟ ہندوستان جہاں جنسی جرائم کا گراف پہلے سے ہی عروج پر ہے، اس میں مزید اضافہ ہو نے کا صد فی صد امکان ہے،اخلاقی بد انتظامی کی قابل نفرین فضا بھی رُوبہ ترقی ہوگی ۔ علاوہ ازیں شادی بیاہ جو ایک پاک اور ذمہ دارانہ رشتہ ماناجاتا ہے، اس کی اعتباریت پر زوال وادابار کی دُھند چھا سکتی ہے ۔ تاریخ انسان شاہد عادل ہے کہ شادی بیاہ ایک انسان کو ناپاک اور غیر فطری تعلقات سے دور رکھتا تھا اور پھر جب شادی کے باوجود غیر اخلاقی اور غیر فطری عمل کا جاری رکھنا قانو نی طور جائز مانا جائے تو شادی کا کیا مطلب رہتا ہے؟ بچوں کی ولدیت کا کیاجواز رہتا ہے ؟ عدلیہ ہندوستان میں انسانی حقوق کے احترام کی آڑ میں ایسا اخلاق باختہ اور فطرت سے باغی نظام کیوں قائم کرنا چاہتی ہے جسے اخلاقی گراوٹ کے خار زار اُگ آنا یقینی ہے؟ ہماراایوان ِ عدل قومِ لوط جیسی روایات کو ہمارے درمیان کیوں متعارف کرانا چاہتاہے؟ حکومت جو بھارتیہ راوایات اور اقدارکی حامی ہونے کا دعویٰ کر تی ہے ، ان فیصلوں کو کیونکر خاموشی سے قبل کر تی ہے ؟ وہ دوررس نتائج کے حائل فتوؤں کی جوازیت پر جوڈیشل ریویو کا اختیار استعمال کیوں نہیں کر تی ۔ یہ وہ اہم سوالات ہیں جو ہر باضمیر اور باشعور شہری کے قلب و ذہن میں کلبلاتے ہیں ۔ اس فیصلے سے سماج پہ جو بھی منفی اثر ات ہونے والے ہیں وہ نہایت ہی پریشان کن ہیں۔ظاہر ہے دیر سویر اس کے مضر اثرات کی ردی ہواریاست جموں و کشمیرپر بھی پڑنے والا ہے ۔ کشمیر جسے ’’پیروأر"‘‘یا ’’ریش وأر‘‘ ہونے کا درجہ ملا ہے اور جو سادگی، پاکیزگی اور حیاء میں خرابی ٔ بسیار کے باوجود اپنی مثال آپ ہے، زیر بحث عدالتی فیصلے سے اس کی پاکیزہ فضا ئیں بھی خدا نخواسہ کہیں نہ کہیں آلودہ ہوسکتی ہیں ۔ کشمیر کی موجودہ گھمبیر صورت حال میں عوامی غم وغصہ کے باوجود یہاں پہلے ہی شراب کے لائسنس اوراُم الخبائث کی دوکانیں چلائی جا رہی ہیں ، منشیات کا دن بہ دن اضافہ ہو رہا ہے، فریسٹیشن میں اضافہ ہورہاہے ، اس پر مستزاد جب غیر ازدواجی تعلقات اور ہم جنس پرستی کی قانونی ممانعتیں ختم ہو جائیں ، تو یہ چیز سماج میں تشویش ناک انارکی کاباعث ہوسکتی ہے جو ہماری قوم کے لئے مرگ ناگہانی کا دوسرا نام ہوگا ۔ لہٰذا سرزمین کشمیر میں اخلاقی ، دینی و سماجی اقدار کو پوری مضبوطی سے پکڑنے کے لئے ہمارے علمائے کرام ، ائمہ اور دنش وراو رصحافیوں کو غلاظت کے اس سیلاب کو روکنے کے لئے آج سے ہی کمر ہمت باندھ لینا ہوگی ۔
9906607520