فحاشی اور جنسی بے راہ روی کے جس عفریت نے عرصہ سے ساری دنیا میں اودھم مچا رکھی ہے اور اِنسانی معاشروں کی چولیں ہلا کے رکھ دی ہیں یہ طوفانِ نحوست اب نہ صرف یہ کہ اِس وادیٔ مینو سواد کی جانب سبک رفتاری سے گامزن ہے بلکہ ہمارے گھروں، اداروں، کا رخانوں اور ہر شعبہ زندگی میں اِس نے ڈیرے ڈال دئیے ہیں ۔ جنسی درندگی کے جو واقعات اخبارات اور دیگر ذرائع ابلاغ کی وساطت سے سننے پڑنے کو مل رہا ہیں انتہائی تشویشناک ہیں جہاں مدارس و دانش گاہوں میں اس قسم کے دلدوز واقعات کی رونمائی ہلاکت خیز یوں کے راستے بنارہی ہے وہاں مختلف دفاتر ، اداروں، تفریح گاہوں اور ہوٹلوں میں اخلاق سوز کارستانیوں کی جگر سوز داستانیں حساس دلوں کو تڑپاتی ہیں۔
انسانی معاشروں میں جب بھی ’’سر پھروں‘‘ نے اخلاق و کردارکے حصار میں رہنے کو فکری غلامی سے تعبیر کیا تو فساد فی الارض نے ہر کس و ناکس کو اپنی لپیٹ میں لے لیا فساد قلب و نظر کا ہو۔ یا افکار و آرا کا ہمیشہ ہلاکت خیز ثابت ہوتا ہے ۔ جنسیت کی اِس رو میں ظاہر ہے کہ زیادہ نوجوان ہی ڈبکیاں کھاتے نظر آتے ہیں ایک جانب نشہ وپندار شباب اور دوسری طرف مغرب و مشرق کے سبھی ملحدوں کا یہ مشترکہ نعرہ کہ اسلام انسانی آزادی کی راہ میں رکاوٹ ہے، اور اِس کے ذھن میں یہ بات بٹھادی گئی ہے کہ اسلام ترقی کی راہوں کو مسدود کرتا ہے، فکری و عملی لحاظ سے محصور بنا دیتا ہے ، فکری جمود کے ان شکار ان نوجوانوں کو یہ سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اسلام آپ کی صلاحیتوں پر کوئی قدغن نہیںلگایا اور خیالات پر بلکہ اُن کے اندر نظم و ضبط پیدا کردینا اِس کا مطمع نظر ہے اُنہیں سمجھایا جائے کہ شتر بے مہار کی طرح دی جانے والی آزادی دوسروں کے لئے آزاد و پریشانی کا باعث بنے گی، تصادم آرائیاں ہوں گی، لاقانونیت کی گرم بازاری ہوگی جدال و قتال کا لامتناہی سلسلہ شروع ہوگا، عدل و انصاف کے پرخچے اُڑ جائیں گے، بربریت آئے گی، اِس لئے اسلام نے انسانی زندگی کے ہر مرحلے کو خوشگوار ترین بنانے کے لئے ’’حدود‘‘ کا ایک فطری دائرہ کھینچ لیا ہے۔ اِس دائرے سے قدم باہر آنے کی دیر ہے کہ انسان اپنی حرکات سے حیوانیت تک کو بھی شرمسار کرکے رکھ د یتا ہے۔ اسی لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے احکام و ہدایات کو حدود سے تعبیر کیا ہے اور جب بھی ہمارا یہ مشفق الہٰ و آقا ان احکام سے ہمیں آگاہ کرتا ہے تو ساتھ میں فرماتاہے : یہ اللہ کی حدود ہیں ان کے قریب بھی نہ پھٹکو اِس طرح جب کسی چیز کے کرنے کا امر فرماتا ہے تو فرماتاہے :یہ اللہ کی حدود ہے ان سے تجاوز نہ کرو۔
عصر حاضر کے ایک جید عالم دین نے کیا خوب کہا ہے کہ قید او رنظم و ضبط کے تقاضوں کے درمیان فرق ہوتا ہے اگر آپ اِس نظم و ضبط کو بھی قید ہی کہیں گے تو پھر اِس عقدے کو کیسے حل کریں گے کہ اِس کائنات کے امور کونیہ کے اندر یہی نظم و ضبط ہے بلکہ انسان خود اپنی فطرت و طبیعت کے اعتبار سے ایک نظم طبعی کا پابند ٹھہرایا گیا ہے، انسان بھوک و پیاس کے سامنے بے دست ہے ، اِس کے لئے وہ کھانے، پینے کے ایک وسیع نظام کا پابند ہے، وہ مجبور و مضطر ہے کہ وہ مخصوص اقسام کی چیزیںہی کھا سکتا ہے، اس کی مخصوص مقدار اور مخصوص کیفیت کے ساتھ ہی کھا سکتا ہے ، وہ گھاس اپنی خوراک نہیں بن سکتا ، وہ باسی اور خراب کھانا نہیں کھاسکتا اس طرح ایک مخصوص مقدار سے زیادہ کھاہی نہیں سکتا اگرچہ اُس کے سامنے کروڑوں لاکھوں کے انواع و اقسام کے مرغن او رلذیز کھانے موجود ہوں او راگروہ اِس کے مخاطب چلے گا تو اپنے جسم کی سلامتی و صحت لازم ہے کہ کھوبیٹھے گا۔ یہی انسان اپنے اجتماعی اور معاشرتی نظم کو برقرار رکھنے کے لئے قوانین و قوائد کا پابند بنتاہے۔ متعلقہ معاشرے کے رسوم رواج عادات و اطوار اور مجلس کے آداب کی پاسداری کرتا ہے۔ اپنے لباس کی تراش خراش ، اپنے گھر کی شکل و ھیئت اسی طرح سڑکوں اور راستوں کے قوانین کی بہر حال پابندی کرتا ہے۔ اور اِن قواعد و قوانین کی خلاف ورزی اسے مستوجب سزا بنادیتی ہے اِن قوانین پر عمل پیرائی اسے اِس لئے یا سلب آزادی محسوس نہیں ہوتی کیونکہ وہ اِن سے مانوس ہوچکا ہوتا ہے۔ ایسے ہی معاشرہ کو اخلاقی انارکی سے بچانے او ر طوائف الملوکی کی زہر ناکیوں سے محفوظ رکھنے کے لئے ضروری ہے کہ مخلوق خالق کے قائم کردہ حدود و خطوط کا خیال کرے اور دائرے میں رہ کر بیان کردہ رہنمائی کی روشنی میں اپنے جذبات کی تسکین کا سامنا کرے۔ اسلام رہبانیت کا بھی درس نہیں دیتا اور نہ غار نشینی اس کام منتہائے مقصد ہے۔ اس تصور راہبانہ کو اس دینِ قیم نے کلی طور رد کیا ہے۔ جو انسان کی فطری جبلت کو ختم کرنے کے لئے دنیوی علائق کو تیاگ دینے اور لنگوٹ کس کر دشت و کوہسار میں مارے مارے پھرنے کی صلاح دیتا ہو۔ عیسائیت میں اس سوچ کو فروغ دینے والا سینٹ پال تھا اس کے بعد ایک لمبے عرصے تک بہت سارے مسیحی کلیسائی رہنما اسی رہ پر چلتے رہے اور پھر انسانی تاریخ نے کھلی آنکھوں سے وہ مہیب نظارے بھی دیکھ لئے جو ترک دنیا اور رہبانیت کے ان علمبرداروں کے بھیانک اورہوش رباء جنسی آسودگی کے واقعات سامنے آئے بھارت اور دیگر ممالک میں آئے روز پجاریوں اور نام نہاد ملنگوں کی جنسی بربریت کے دل دہلانے والے واقعات سامنے آتے ہی رہتے ہیں ، ویڈیو گرافی کازمانہ ہے ان پچاریوں کی پوجا بھی اصل شکل میں دنیا کے سامنے آگئی کائنات آج سمٹی ہوئی ہے ۔ آج کے اخبارات کی سرخیاں ایک روز پہلے نیٹ کے ذریعہ قاری کی نظروں سے گذری ہوتی ہیں کچھ چھپا نہیں رہتا ہمارے دور ونزدیک نقلی مجذوبوں اور ڈھونگی ملنگوں کی جنسی کارستانیاں بھی اخبارات اور ٹی وی شوز میں زیب داستان بنتی رہتی ہیں، دنیا کے دیگر اقوام و ملل میں بھی مذہب کے نام پر دکانیں سجانے والے بہت سارے ایسے شاطر دکاندار بظاہر دنیا وما فیہا سے کٹے نظر آتے ہیں لیکن ان کے اندر کا جنسی درندہ جب باہر آکرطوفانِ بدتمیزی پیدا کرتا ہے تو پھر ان کی اصل حقیقت گرمیت سنگھ اور ہنی پریت یا آسارام کی شکل میں عریاں ہوکر سامنے آجاتی ہے۔ افسوس کہ عدل و تحقیق کی کسوٹی پر جب بات دُرست ثابت ہوتی ہے تو ان کے اندھے عقیدت مند پھر بھی ان سے دامن ِامید چھوڑنے کو تیار ہی نہیں ہوتے۔ قرآن کی زبان میں وہ’’ چوپایوں سے بھی گئے گزرے ‘‘ہی کہلائیں گے ۔ بات یہاں سے شروع ہوئی تھی کہ اسلام منفی جذبات کو بے قابو ہونے سے بھی روکتا ہے اور اس فطری خواہش کی تسکین میں بھی سد ِراہ نہیں بنتا بلکہ وہ اس کے لئے ایک نظم کا تعین کرتا ہے حدود بتا دیتا ہے ،جس کا نام اس نے نکاح رکھا ہے اور اس تعلق کو مرد و عورت کے لباس سے تعبیر کر کے تقدس بخشا ہے ۔ سورۃ روم آیت 21 اور سورۃ نحل 72میں اس کی اہمیت کو خوب واضح کیا گیا ہے، یہ ایک سنت ہے اور اس سے اعراض بھی کچھ کم نقصان دہ نہیں قرآن نے تو بطور خاص سنجیدہ کام کی ذمہ داری اولیائے امور کے سپرد کی ہے کہ وہ اپنے زیر کفالت لڑکوں اور لڑکیوں کو رشتہ ازدواج کی ڈور میں باندھ لیں اور یہ بشارت بھی دی ہے کہ اللہ انہیں اس کے ذریعہ سے ان کی معاشی حالات کو سدھارے گا۔ سورۃ نور 32 جناب رسول کائنات ﷺ نے بالخصوص نوجوانانِ اسلام سے مخاطب ہوکر فرمایا ہے تم میں سے جو نکاح کی طاقت رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ نکاح کرے۔ پس بے شک وہ نگاہ کو زیادہ پست رکھنے والا، عصمت کی حفاطت کرنے والا ہے اور جو اس کی طاقت نہیں رکھتا تو اسے چاہیے کہ روزہ رکھے، پس بے شک روزہ اس کی شہوت کو قابو میں رکھنے والا ہے ‘‘غرض اسلام تجرد کی زندگی کو کسی طور پسند نہیں کرتا اور ایک پر سکون خاندانی نظام کا قائل ہے جس کی بھاگ ایک مرد کے ہاتھ میں ہو اور اس کی منکوحہ گھر کے سارے اندرونی معاملات کی ذمہ دار ہو۔ ان کے زیر عاطفت بچے پر وان چڑھتے ہی ان کی بہتر تربیت کے ان سے طلب گار رہیں گے ۔ یوں یہی خاندان پھر مل کر ایک معاشرے کا روپ دھارن کرتے ہیں ۔ اسی نکاح سے اعراض اور اولیائے امور کا اس حوالہ سے چشم پوشی اور غفلت اب ایک سنگین ترین اور مجرمانہ عمل بنتا جارہا ہے، مخلوط دانش گاہوں ، مدارس و مجالس میں نوجوان لڑکو ںاور لڑکیوں کے اختلاط کا عمل کیسے گل کھلارہا ہے کیا اسے بیان کر نے کی ضرورت ہے ؟ شباب کی دہلیز سے گزرنے والی اس نئی نسل کی عمریں اب ڈھلتی جارہی ہیں لیکن ان کے نکاح کے تعلق سے معاشرے کی چشم پوشی بھی سوہانِ روح بنتی جارہی ہے ۔ آج ہم اگلے زمانے کی بہ نسبت اپنی اولاد کو بے حد شفقت و محبت دیتے ہیں لیکن یہ پیار بھی جب حدود پھلانگتا ہے تو کیا گل کھلائی ہوتی ہے وہ بھی محتاج بیان نہیں ۔ والدین ذرا یہ بھی دیکھیں کہ ان کا نور نگاہ گھر سے صبح مدرسہ و کالج کی جانب روانہ ہوا یا اس نے دفتر و کارخانہ کا رُخ کیا ۔ اس کے دن کا اکثر حصہ کہاں ، کس حال میں اور کس کے ساتھ گذر رہا ہے؟ اس عمل کا باریک بینی سے مشاہدہ کرنا بھی ان کی ذمہ داری بنتی ہے بچے کی پارسائی کی قسمیں کھانے سے پہلے دیکھیں کہ اس کی گھڑیاں اور ساعتیں کن احباب کے ساتھ گذر رہی ہیں صالح ساتھی ملا تو صالحیت ہی ٹپکے گی اور اگر بدقسمتی سے ایسے ’’شریف زادوں ‘‘ کی صحبت میں پھنس گیا جن کی ’’شرافت‘‘ ابلیس کو بھی پانی پانی کردے تو بھلا اس بچے کی سیرت خوبصورت بنے تو کیسے ؟ سید عالم ﷺ نے فرمایا ’’آدمی اپنے ہم نشین کا طرزِ زندگی اپناتا ہے چنانچہ کسی کی ہم نشینی سے پہلے اس کے بارے میں غور کرو وہ کیسا ہے‘‘(سنن ابو داؤد) ایک اور موقع پر فرمایا’’ برے مجلسی کی مثال لوہار کی بھٹی کی طرح ہے یہ تو وہ تیرے کپڑے جلادیگی یا پھر تو اس کے دھوئیں کو چکھ لے گا‘‘(بخاری5108 ) ۔ اس لئے والدین کا یہ فریضہ بنتا ہے کہ وہ اپنی اولاد کی ہر حرکت اور ان کی نشست برخاست کا باریک بینی سے جائزہ لیتے رہیں،اس حوالے سے معمولی چشم پوشی بھی انتہائی خطر ناک ثابت ہوسکتی ہے ۔
سنگین جنسی جرائم کی ایک اور بڑی وجہ جہاں مخرب الاخلاق لٹریچر اور فحش و عریاں تصاویر ہوا کرتی تھیں ۔ اب فاحشات و منکرات کا سیلاب ہر گھر میں داخل ہوچکا ہے ۔ موبائیل انٹرنیٹ کی جدید سہولیات سے مثبت انداز میں استفادہ کرنا یقینا فائدہ مند ہے لیکن اس کے مضر ات بھی کچھ کم نہیں اور اگر درست انداز میں اس کا استعمال نہیں ہوا تو ہنستے مچلتے گھر ویرانے بنتے نظر آرہے ہیں ۔ اخلاقی رزیلہ جنم لیتے ہیں جنسی انتشار معاشرے کی بنیادوں کو ہلا کے رکھ دیتا ہے یہ جو ہم گھنٹوں اپنے پرائے بچوں اور نوجوانوں کو اس موبائل سیٹ کو حرزِ جاں بنائے دیکھ لیتے ہیں ۔ کیا دیکھ لیتے ہیں یہ لوگ کبھی ہم نے دیکھنے کی زحمت گوارہ کی ؟ معاف کیجئے دیکھا وہی جارہا ہے جسے دیکھ کر شیطان بھی جگر پیٹے آسمان بھی روئے اور زمین بھی شق ہونے کو آئے۔ حدیث نبوی ﷺ کا مفہوم ہے :’’قیامت میں ایسے بہت سے راتوں کو قیام کرنے والے بھی آئیں گے جن کی نیکیاں تہامہ پہاڑ کے برابر ہونگی مگر وزنِ اعمال کے موقع پر بس اُڑتی خاک ثابت ہوں گے ۔ اس لئے کہ ان لوگوں نے خلوت میں حرام امور سے اجتناب نہیں کیا ہوگا۔غور فرمائیں اس ارشاد پر حرام کاری صرف بدکاری کا نام نہیں ہر وہ کام ہے جو حرام کاری پر آمادہ کرے ، حرام ہے۔ آنکھ خلوت میں کچھ پڑھے ،کچھ دیکھے ، دل اثر قبول کرے اور پھر جنسی جذبات میں ارتعاش پید ا ہو لازماً فساد جنم لے گا۔ معاشرے میں __ پھر جنسی درندگی ، آورگی اور اغواء کاریوں کے واقعات کو خلاف توقع نہیں کہا جاسکتا بلکہ یہ واقعات معمولات بن جائیں گے ، یہاں تک کہ دل کی آنکھ اس قدر اندھی ہوجائے گی کہ پھر کوئی گناہ نظر نہیں آئے گا،یہاں تک کہ ہم راتوں کو محو خواب ہوں یا دنوںمیں مصروف تماشائے دنیا ، اللہ کا کوڑا اُٹھے گا اور اللہ نہ کرے کہ ہماری جڑ کاٹ دی جائے۔ محض خاندار بننے کی آرزو نہ کرے بلکہ خانہ دار ہونے کی صورت میں اپنی نازک ذمہ داریوں کا احساس کرتے ہوئے اولاد کی اخلاقی تربیت کا ہر سامان کریں، اولاد کی نظربہک گئی یا قدم پھسل گیا تو ارشاد رسالت ﷺ ہے : گناہ باپ کی گردن پر ______ خلاصہ ٔ کلام یہ کہ ہم نے خلوت و جلوت میں شیطان کے پھیلائے جال کو انفرادی طور اورمن حیث القوم کاٹنے ، تباہ کرنے ، اور چہار سو اس پر حملہ زن ہوکر معاشرے کے اخلاق و کردار کی حفاظت نہیں کی پھر اللہ نہ کرے جنسی درندگی کے حوالے سے آنے والی خبروں میں کمی نہیں روز افزوں اضافہ ہوگا ۔ اے اللہ ہمیں اس آفت و بلا سے بچا۔ ( آمین )فی الحال تو عالم یہ ہے ؎
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہوجائے گی
پس جنسی دہشت گردی کے سیلاب کو اللہ کے قائم کردہ حدود میں رہ کر روکا جاسکتا ہے۔ انسان کے وضع کردہ قوانین بہر حال کمزوریوں سے پاک ہوہی نہیں سکتے ،خود دنیا کے مختلف ممالک میں قانون سازی کرنے والے لوگوں اور سیاست دانوں کی بھی ایک بڑی اکثریت اسی جنسی طوفان بدتمیزی کی کس قدر شکار ہے، اس حوالے سے آئے روز کے شرم ناک سروے رپورٹس چشم کشا ہیں ۔ اس لئے لازم ہے کہ فطری قوانین پر عمل آوری کی پابندی ہو اجائے تاکہ ہر بدعملی اور گناہ سے محافظت میسر ہوسکے۔
رابطہ 9419080306