آزادیٔ ہند کے بعد جنت بے نظیر کہلانے والاخطہ کشمیر اب جہنم زاربن چکا ہے ۔ یہاں نامساعد حالات کی گردشِ پیہم معمول بن چکی ہے ۔ان کی بھینٹ چڑھ کر آج تک ہزاروں کشمیری جان بحق اور کھربوں روپے مالیت کا بے حد وحساب نقصان ہوچکا ہے ، ہزاروں غربا کے آشیانے اُجڑچکے ہیں،ہزاروں بیوائیں ،لاتعداد یتیم ،ہزاروں زخمی افراد موت سے بدتر زندگی سے گزار نے پر مجبور ہیں ، ہزاروں نوجوان ریاست جموں وکشمیر کے علاوہ ملک کے مختلف جیلوں میں اور کچھ اپنے ہی گھروں میں قیدوبند کی زندگی بسر کررہے ہیں ۔ اس الم ناک کہانی کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ گزشتہ اٹھائیس سال سے یہ سلسلہ بال روک ٹوک جاری ہے ۔ یہ سب کچھ کشمیرمیں عوام الناس برداشت کرتے جا رہے تھے کہ ایک اور قیامت اہل کشمیر پر ٹوٹ پڑی جب پلوامہ حملے ہواجس کا غصہ بیرون کشمیر مختلف ریاستوں میں زیرتعلیم طلبہ وطالبات پر نکالا گیا۔ مختلف یونیورسٹیوں اور کالجوں سے ان کشمیری طلبہ وطالبات کو بیک جنبش قلم نکال دیاگیا ۔ ہماچل پردیش ، پنجاب اور بنگال سیمت دیگر ریاستوں سے ہزاروں مزدوروں، تاجروں اور طلبہ وطالبات کو مجبوراًگھر آناپڑا ۔
ایک انسانی سماج میں مجرم کو اس کے کئے کی سزادینا قابل فہم امرہے مگر بے قصور لوگوں کو نشانہ اذیت بنا نا ،ان پروار کرنا ، ان کو ہراساں کرنا، ان کے جذبات مجروح کرنا انسانیت چھوڑیئے جمہوریت کے بھی شایان ِشان نہیں ۔ 14 فروری 2019ء کے پلوامہ حملے کے ردعمل میں ایک طرف پوری ہندوستانی قومی سوگ میں تھی کیونکہ حملہ میں سنٹرل ریزرو پولیس فورس کے اُنچاس سپاہی کام آچکے تھے ، سارا ملک اسی غم میں ڈوبا تھا، چاروں اطراف سوگ ہی سوگ کا سماں تھا، لوگ مذہب وملت سے بالاتر ہوکر ہلاک شدہ جوانوں کے سوگوار کنبوں اور ان کے غم زدہ لواحقین سے بہ یک زبان اظہارہمدردی و تعزیت کررہے تھے،۔ اُدھر یہ ہورہاتھا ، اِ دھر کچھ منافرت کے پجاری ،ملک دشمن اورشرپسندعناصر اس سانحہ کو مذہبی شکل دے کر ملک بھر میں کشمیریوں کو مصائب وتکالیف کا تختہ ٔ مشق بنا رہے تھے۔اس چیزنے اندرون ملک سے لے کر سرحدوں پر بسنے والے شہریوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لیا ۔ تکلیف دہ بات یہ ہے کہ خاکی وردی والوں کے سامنے غنڈوں نے جابجامسلمانوں کو نشانہ بنایا اور ان کی املاک کو نقصان پہنچایا،مگر وردی پو بے حس وحرکت دیکھے گئے ، اسی عالم مدہوشی میںدرجنوں گاڑیاں جلائی گئیں صرف اس لئے کہ یہ مسلمانوں کی ملکیت تھیں ۔ وردی والےبر سر موقع موجود تھے پھر بھی کہیں بے قصوروں کی مار پیٹ کی گئی اور ان کی املاک کا نقصان کیا گیا، گھروں کی توڑ پھوڑ کی گئی ۔ اسی طر ح بیرون ریاست کئی کارخانوں اور کاروباری اداروں کو بند کردیا کیونکہ یہ جموں وکشمیر کے مکینوں کے ہیں ۔ ان نازک گھڑیوں میں وردی پوش فرقہ پر ستوںکی کھلی بربریت کا صرف تماشا دیکھتے رہے ،انہیںاپنی ڈیوٹی کا کوئی خیال نہ آیا ۔ اس بار البتہ مسلم اقلیت نے اشتعال کے باوجود بردباری اور تحمل مزاجی کا مظاہرہ کیا۔ سب جانتے ہیں کہ ہمارے ہزاروں مزدور ریاست کو چھوڑ کر سردیوں میں بغرض روزی روٹی بیرونی ریاستوں میں محنت مزدوری کر نے جاتے ہیں ، کوئی کوئی ہندستان کی مختلف شہروں میں گرم کپڑے اور شال بیچنے جاتے ہیں، ان کا سیاست سے کوئی لینا دینانہیں ہوتا پھر ا نہیںاس بار بےدردی سے مارا پیٹاگیا ، گالیاں دی گئیں ، مذہب تک کو بھی نازیبا کلمات کا نشانہ بنایاگیا۔انہی حالات میں انہیں اپنی جان بچانے کے لئے ننگے پاؤں بے سروسامان ہوکر گھر واپس لوٹناپڑا ۔ایک تو ان کا تجارتی سیزن برباد ہوا ، اوپر سے اغیار کے طمانچے، لاتیں،گالیاں ،طعنے ، بے عزتیاں اور اذیتیں بھی سہنا پڑیں ۔ کیاان غریبوں کا قصور اس کے سوا کچھ اور تھا کہ یہ جموں وکشمیر کے کم نصیب مسلمان باشندے تھے؟ سچ یہ ہے کہ یہ دھماچوکڑی فرقہ پرست سیاسی لوگوں کی مہربانی تھی جو ایسی ناقابل برداشت اور غیر انسانی حرکات کرکے ووٹروں کودکھاناچاہتے تھے کہ ہم وفاداران ِ قوم ہیں۔ اگر ایسے گھمبیر حالات میں عدالت عظمیٰ کا عادلانہ فیصلہ بہت جلد نہ آتا توپولیس اپنا ناقابلِ فہم موڈ شاید ہی تبدیل کرتی اور پھر حالات کے کیا تیور ہوتے اس کا اندازہ بھی نہیں لگایاجاسکتا۔ مقام حسرت ہے کہ افراتفری کےاس ماحول میں سیکولر سیاست کے دعوے دار قائدین نے ر بھولے سے بھی ریاست اور بیرونِ ریاست متاثرہ مظلوم مسلمانوں کے حق میں ایک لفظ تک نہ بولا ۔ اپنی بے پناہ پریشانیوں پر دُکھ کا اظہار کرتے ہوئے کئی ریاستی مزدورں اور کشمیری طلبہ وطالبات نے روتے ہوئے کہا کہ اُن کے ساتھ کیسا کا بُرا سلوک بیرون ریاست پالتو غنڈوں نے کیا ۔ ہماچل پردیش کے مختلف اضلاع میں محنت مزووری کرنے والے کشمیری اور جموی مسلما نوں پر بہت زیادہ ظلم وستم ڈھائےگئے ۔ انہوں نے اپنے سیاسی قائدین کو اپنی مشکلات سے آگاہ تو کیا مگر وہ آڑے وقتو ں میں ان کے تحفظ کے لئے کچھ نہ کرسکے۔ سوال یہ ہے جموں کشمیر کے مسلمانوں پر اپنے ہی ملک میں یہ زیادتیاں کیوں کی گئیں؟ کیا فرقہ پرست ایسے فسادات اور ہنگامے کر نے سے ملک کا کچھ بھلا کرسکتے ہیں؟کیا باعزت شہریوں کی گاڑیاں اور املاک جلانا، کارخانے بندکروانا، طلبہ و طالبات کو تعلیم وتدریس سے روکنا ، مزدوروں کو مزدوری نہ کرنے دینا ہی ملک سے رسم وفا کہلاسکتی ہے؟ ایسے ساری اوچھی حرکات سے ہی ملک کمزور ہوتارہاہے ۔اس وقت ملک میں بڑھ رہی بے روزگاری اور غربت سے جنگ چھیڑ نے کی اشد ضرورت ہے،نہ کہ اقلیتوں کو ہراسان وپر یشان کر نا ۔ اس وقت ملک میں ہندو مسلم سکھ اتحادبرقرار رکھنا وقت کی اذان ہے ۔ اگر واقعی ریاست جموں کشمیر ہندوستان کا اٹوٹ اَنگ ہے تو اس کے مکینوں کے ساتھ بُرا سلوک کیوں کیا جارہاہے ؟ لکھنو میں غریب کشمیری مزدوروں کی سر عام پٹائی کا مطلب کیا ہے ؟ ہماچل میں مزدوروں کا قافیہ حیات کر نے کا پیغام کیا ہے ؟ مندروں کے شہر جموں میں آگ کے شعلے کن امن دشمنوں کی کارستانی ہے، مگر کیا ایک بھی مجرم کوپکڑا گیا؟ پلوامہ واقعہ کے بعدجموں کے مسلمانوں کو کس جرم میں گھروں میں کئی دن محصور ہونا پڑا ؟ سرحدوں پر گولہ باری سے معصوموں کی جان ومال کا بھاری بھرکم نقصان ہورہاہے مگر ان کے حق میں کوئی سوگ نہیں ،کوئی ماتم نہیں ، کوئی واویلا نہیں ، صرف اس لئے کہ وہ محب وطن مسلمان ہیں ۔ کیا وجہ ہے کہ جموں وکشمیر میں عوام کے ساتھ بات چیت کا دور شروع کرنے کے بجائے، ان کی بڑے پیمانے پر پکڑ دھکڑ اور گرفتاریاں کرکے حالات کو معمول پر لانے کا سوچا جا ر ہاہے ؟ دوسری جانب شرپسند جموں میں قانون کی گرفت سے اس قدر آزاد ہیں کہ بس اڈے میں گرینیڈ حملے کرکے 32 عام شہریوں کو زحمی کرڈالا ، زخمیوں میں سے دو معصو م شہری زحموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسے۔ ابھی کیا پتہ شرپسند اور امن دشمن عناصر اور کتنے معصوموں کی جان لیں گے ۔ ان گڑ بڑی والے حالات میں بڑی مستعدی اور غیر جانب داری کے ساتھ سب لوگوں کو چوکنا رہنے کی اشد ضرورت ہے ۔ اگر اربابِ ا قتدار یہ چاہتے ہیں کہ جنت بے نظیر میں امن لوٹ آئے تو یہاں کی مستند قیادت سے امن بات چیت شروع کریں ۔ ریاست بھر میں انسانیت مخالف سرگرمیوں پر سختی سے روک لگانا وقت کی پُکار ہے ۔ سی آر پی ایف کی قربانیوں کاخراج ِتحسین فرقہ وارانہ فسادات نہیں بلکہ عوام کا اتحاد واتفاق ہے ۔ ہندوستان کثرت میں وحدت کا نام ہے ،ا س لئے مختلف ریاستوں میں کام کررہے ریاستی مزدوروں، تاجروں، ملازمین ، طلبہ وطالبات کو آزادی اور وقار سے آ نے جانے دیں اور یادرکھیں کہ جمہوری ملک میں عوام کو مذہبی آزادی، امن وآشتی، بھائی چارہ ، جیو اور جینےدو کا حق فراہم ہوتا ہے،ان اصولوں کو آج کی تاریخ میں ریاستی مسلمانوں کے ساتھ روارکھنے کی اشدضرورت ہے ۔ علی الخصوص کشمیریوں کو گلے بھی لگائیں اور اُن کے گِلے شکوے بھی سنئے ۔
9858641906
mrayaz227@gmail. com