ہم نے تو سوچا تھا کہ دلوں کے راستے کھلیں گے لیکن وہ تو پہاڑی راستہ کھود کر اور کھول کر چلے گئے ۔ہمارا خیال تھا کہ دلی دل میں اترنے کی کوشش کرے گی لیکن وہ تو ناشری اور چننی جوڑ کر نکل گئے۔ہم انتظار میں تھے کہ انسانیت کا درس کتابوں اور تقریروں سے نکال کر انسانوں پر آزمائیں گے لیکن وہ سیاحت اور دہشت گردی کا رونا رو چلے گئے۔ وشال بھارت دیش کے وزیر اعظم نے وہی راگ الاپا جو ہم برسوں سے سنتے ہی نہیں آئے ہیں بلکہ سمع خراشی کے دور سے بھی گزرے ہیں۔نہیں اصل بات یہ ہے کہ سنتے سنتے ہمارے کان پک گئے ہیں۔اسی لئے ایک کان سے سنتے اور دوسرے کان سے چھوڑ تے نہیں کیونکہ اس میں بھی کافی محنت درکار ہے۔اب ہم نے ایک کان سے سننے کا مروجہ طریقہ بھی بند کردیا۔سب کا ساتھ والے صاحب نے وہ شاعری کی جس کا ردیف قافیہ کب کا مرتب ہو چکا تھا ۔انسانیت جمہوریت کشمیریت وغیرہ وغیرہ ہم کو بتایا گیا تھا کہ اس میں شامل ہوجائو گے تو تمہاری تقدیر کھل جائے گی مگر ہمیں کیا پتہ تھا کہ ہمارے چودہ طبق روشن ہو جائیں گے اور قسمت کے ستارے ایسے چمکیں گے کہ آنکھیں خیرہ ہو جائیں گی۔کیونکہ انسانیت کے دائرے میں ہمیں کبھی لایا ہی نہیں گیااور جمہوری تماشے میں بندوں کو گنا جاتا ہے تولا نہیں جاتا ۔ ہم بھی ڈھیٹ کہ اس گنا تولا کے کھیل میں ہم سات فیصد سے آگے نہیں بڑھے اور جب چانس پر چانس مارنے کی بات آئی اور دوسرا چانس دیا گیا تو ہم دو فیصد تک ہی سمٹ گئے۔ہمیں چونکہ فیصد والا کھیل بڑا بھاتا ہے ،اس لئے یوں ہی بیٹھے بیٹھے وہ تقریر یاد آئی جس میں ہمیں پانچ اور پچانوے کے ترازو میں تولا گیا تھا بلکہ خود ایسے ترازو کا استعمال کرنے والے پانچ اور پچانوے کے ہیر پھیر میں پھنس گئے تھے کہ آج تک نکل نہ پائے۔اب کی بار مفتی سرکار ،مودی سرکار، الیکشن سرکار سر بازار نادار دکھائی دے گئے جب جمہوری بازار میں کوئی خریدار سامنے نہیں آیابلکہ اس بازار نا مراد میں جب کوئی چیز سستی ہم نے ڈھونڈی تو وہ کشمیری خون کی دھار دکھائی دی۔اسے براہ راست بہانے میں یا چھروں کے ذریعے چھید کروانے میں سرکاری دستوں نے فراخدلی کا مظاہرہ کردیا ۔ اور اس میں بھی مفتی سرکار کے ہندسے کام آئے ۔ خود جمہوری تماشے کے دن ہی بندوں کو گن کر آٹھ کی قربانی دلائی اور جب تولا تو ہل والے قائد ثانی اور قلم دوات والے سیاسی بکرے کے بیچ جنگ میں اصل بات یہ ہے کہ دونوں ہا رگئے۔جمہوری تماشے میں ویڈیو جنگ کے ذریعے میدان کشت و خون کا نظارہ کرایا گیا ؎
عجب رسم ہے چارہ گروں کی محفل میں
لگا کے زخم نمک سے مساج کرتے ہیں
بے چارے کشمیری تو بھاجپا کے سیاسی مشٹنڈوں کی نہیں بلکہ اللہ میاں کی گائے ہیں ۔جو لوگ انہیں پیلٹ، گولی، پاوا کا شکار بناتے ہیں اندھا کرتے ہیں انہیں بچاتے بچاتے نکال لائے کہ جا جا بیٹا رام بھلی کرے گا لیکن سر شام ٹی وی اسکرین پر واویلا مچانے والوں کو وہی ایک تھپڑ نظر آیا جو فوجی کے بدلے اس کے بیگ پر مار اگیا۔ پھر کیا تھا وہ جو کئی سال سے کرکٹ بورڈ کے دروازے پر بھیک مانگ رہا ہے کہ ماتا کی دوائی کا سوال ہے ، بہن کی سگائی کا ملال ہے،بھائی کی پڑھائی کا بوال ہے، ایک بار بس ایک بار قومی ٹیم میں دوبارہ لے آئو لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں وہ بھی ترنگ میں آکر کشمیری سروں کی سینچری لگانے کا دعویدار بن بیٹھا ۔کسے نہیں معلوم کہ جمہوری تماشے میں انسانی سروں کی قیمت ہوتی ہے اور یہ گھمبیر معاملہ ہوتا ہے لیکن وہ جو ناکامی کا گوتم ہے اسے تو پبلسٹی چاہئے ، سو مل گئی۔ٹی وی سکرین اور اے سی اسٹیڈیو میں بیٹھے زبان دراز جنگجو میدان عمل میں کود پڑے ۔مچھلی بازار جیسے اسٹیڈیو میں شور مچایا کہ کان پڑی ٓواز نہ سنائی دی۔مملکت خداداد کے لیڈران اور جرنیلوں کو دھمکیاں دیں کہ بس ہوش میں آئو نہیں تو بر صغیر کی خیر نہیں۔ ہم تو جنگ کا بگل بس یہیں سے بجا اٹھیں گے۔پتھروں پر میڈ اِن مملکت خداداد کی تصویریں دکھائیں۔ہیضہ پھیلانے والے چوہوں کے شناختی کارڈ دکھائے۔مچھروں کے الیکشن کارڈ پیش کئے کہ یہ بھی پار سے بنے ہیں اور یہاں ڈینگو پھیلانے کا کام کریں گے۔اور جو ٹانگ سر پھرے نے فوجی کو ماری تھی اس کی ہڈیوں میں کیلشم پار کی فیکٹری سے تیار ہو کر آیا تھا حد تو یہ کہ جوتا پکا لاہور کی لکڑ منڈی سے چوری کر کے لایا گیاتھا۔
مانا کہ اپنے اہل کشمیر اللہ میاں کی گائے ہیں لیکن جس پر اَڑ جائیں اسے ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ اس لئے کلہن پنڈت نے کیا خوب کہا تھا کہ انہیں دھونس دبائو سے دبایا نہیں جا سکتا لیکن قابو میں کرنا ہے تو پیار سے کرلو ، صوفیانہ طریقے کی محبت سے کرلو۔اسی لئے اہل کشمیر نے وہ ویڈیو بازار خبر میں ڈال دئے کہ بھارت ماتا کے خیر خواہ بھی اچھنبے میں آگئے۔وہ جو کہتے تھے کہ ڈسپلن اپنے فوج کا اہم ترین جز ہے ناخن چباتے رہ گئے کہ فاروق ڈار کو ووٹ ڈالنے کی سزا سنائی گئی تھی ۔جیپ کے آگے بانٹ پر باندھ کر گلی گلی، قریہ قریہ، محلہ محلہ، دیہات دیہات ، قصبہ قصبہ گھمایا کہ کچھ تو مزہ لو ہماری فراخدلی کا ۔شاید اپنے پڑوسی گائوں کی سیر نہ کی ہو اس لئے تازہ تازہ ہوا کے کچھ گھونٹ پی کر اپنے پھیپھڑوں کو ترو تازہ کرلو ۔کیا پتہ آج نہ سہی کل مرچی والا پاوا شل چکھنے کو ملے تب تازہ ہوا کی سخت ضرورت پڑے گی۔بس ابھی مزہ لے لو۔پھر وہی ہوا جو سالہا سال سے ہوتا آتا ہے۔ اب کی بار مفتی سرکار نشانے پر تھی ۔ہل والے تو برس ہی پڑے اور مفتی سرکار تو فوج کی ڈھنڈورچی بن گئی کہ ایسا کام آج تک نہیں ہوا۔ خون ریزی کو روکنے کا نیا طریقہ بس اہل قلم دوات کو سوجھا ہے یعنی ہم لکھ کے دیں گے کہ اب جوانوں کے سینوں پر کنول کے پھول اُگیں گے اور کوئی چھید نہ ہونے پائے اسی لئے یہ نیا اور تازہ ترین پروڈکٹ بازار میں اُتارا ہے ۔یہ ایسا پروڈکٹ ہے کہ ہاتھوں ہاتھ بکے گا بلکہ ایک کے ساتھ ایک فری مل سکتا ہے لیکن خریدار کنی کترا کے چلے گئے۔ناک منہ سکوڑ آگے بڑھے اور کئی ایک تو تھو تھو کرتے اپنی راہ لے گئے۔پھر مفتی سرکار کو خیال آیا کہ دن تو ویسے ہی پھر گئے ہیں کہیں کرسی کی ٹانگیں الٹ پلٹ نہ ہوجائیں اس لئے وہی پرانا راگ الاپا۔یعنی پھر وہی ہوا جو سال ہا سال سے ہوتا آیا ہے ۔تحقیقات کا اعلان ہوا۔بھلے اس بات پر اس خون آشام دن ہنسی تو نکلتی نہیں تھی لیکن بات ہی کچھ ایسی بنی کہ ہنسی روک نہیں پائے۔اس لئے کہ پتھری بل ، کنن پوشپورہ، بیج بہاڑا، ہندوارہ کی تحقیقات یاد آئی ۔کریں تو کیا کریں ؟؟؟ہم تو ہم تھے وہ تو وہ تھے۔حالانکہ ہم دونوں تھے لیکن ہم کمزور تھے اور وہ طاقتوراور چونکہ طاقتور ہمیشہ ہی سے کمزور پر حکمرانی کرتا آیا ہے، اس لئے وہ ہم پرحکمرانی کرتے کرتے دھونس بھی جماتے ، دبائو بھی ڈالتے اور ہم چونکہ کمزور ہیں، لہٰذا خاموشی سے سہہ لیتے کیونکہ چپ رہ کر سہہ لینا اور وہ بھی کوئی احتجاج کئے بنا ہمارا پیدایشی حق ہے ۔کبھی کبھار دبے الفاظ میں کچھ کھسر پھسر کرنا بھی ہمارے پیدایشی حق میں شامل ہے،یعنی ہمارے پیدایشی حقوق میں جو چیزیں شامل ہیں ان میں پیدا ہونا،جیسے تیسے زندگی گزارانا ، خاموشی سے سب کچھ سہہ لینا وغیرہ وغیرہ شامل ہے۔ہماری زندگی میں ایک دستو را لعمل ہے جس کے پالن کے ساتھ ہمیں چلنا ہے۔ہم وہ نہیں جنہیں ایک کانسٹیٹیوشن میسر ہے اور اگر کوئی اس کی خلاف ورزی کرے تو شور و غوغا اٹھ جاتا ہے ۔اسی لئے شاید ہماری زندگی جب گزرتی ہے تو گمان ہوتا ہے کہ کوئی نادار بیچ بازار گزر جاتا ہے، جسے دائیں بائیں دیکھنے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ وہاں سے کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔ہم خاموش احتجاج کے دوران آواز اونچی نہیں کر سکتے کیونکہ اسے بغاوت تصور کیا جاتا ہے اور بغاوت کا انجام یا سزا ہر حال میں موت ہے۔اس بات پر ہم کبھی کبھار ہنس بھی لیتے ہیں ،کھلکھلا کر نہیں بلکہ وہ بھی ہلکی مسکان کے ساتھ ۔یہ سوچ کر کہ کس موت کی بات کر رہے ہو ہم تو کون سا زندہ ہیں ۔ارے بھائی میرے،یہ جینا بھی کوئی جینا ہے ؎
کیا دیکھو گے حال ِدلِ برباد کہ تم نے
کرفیو میں میرے شہر کا منظر نہیں دیکھا
لیکن تنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ، اسی ادھیڑ بن میں اپنے یہ نوجوانان ِدانش گاہ میدان میں اترے۔طاقت ور کو للکارا ۔ سفید وردی والے خاکی وردی والوں کے سامنے ڈٹ گئے اور صنف شیریں نے تو مہندی لگے ہاتھ ہوا میں لہرا کر سکوٹی ڈپلومیسی کو بھی ہائی ہیل والے سینڈل دکھائے،جس جگہ سکوٹی کے لئے مظاہرہ کیا تھا اسی جگہ قضیہ زمین بر زمین کا نعرہ لگایا۔کھنہ بل سے کھادن تک ،سونہ مرگ سے سورسیار اور بانہال پار تک ایک ہی آواز گونجی ؎
پیلٹ سے دبنے والے اے مفتی نہیں ہم
سو بار کر چکی ہو تم امتحان ہمارا
اسی لئے اپنے اہل سیاست اور ارباب اقتدار و اختیار نے فوراً میٹنگ طلب کی کہ اس سب کا ذمہ دار کون ہے، اس کے نام کی وارنٹ نکال لو۔اسکے جسم کے ریشے ریشے کی تلاشی لو ۔پھر جو تحقیقات ہوئی تو پتہ چلا کہ سب انٹرنیٹ کا کیا دھرا ہے ۔ فوری طور اس کی گرفتاری کا آرڈر جاری ہوا۔انٹرنیٹ بھی ڈھیٹ کہ رفتار بدل دیتا ہے۔ٹو جی، تھری جی، فور جی رفتار پکڑتا ہے۔یہ جو تھری اور فور جی جوان ہیں ذرا تیز چلتے ہیں ۔بے چارہ ٹو جی اب بزرگ ہے ،کافی سست چلتا ہے۔بد امنی نہیں پھیلا سکتا ۔سنگ بازی نہیں کر سکتا ۔ارے خود نہیں چل سکتا اور وں کو کیا دوڑائے گا۔اس لئے اس کو معافی دی گئی۔ یعنی سارے فساد کی جڑ انٹرنیٹ ہے جو کچھ دن قید رہے گا تو سنبھل پائے گا۔پھر امن کا موسم پرکھیں گے تو رہائی کا فرمان جاری کردیں گے۔پھر دیکھتے ہی دیکھتے بھارت دیش کے بڑے وکیل رہتوگی صاحب میدان بیان بازی میں کود پڑے اور قانون کی ساری کتابیں بالائے طاق رکھ کر اعلان کر دیا کہ فوجی افسر نے فاروق ڈار کو تازہ ہوا کھلانے کے لئے بانٹ سے جوڑ دیا تھا بلکہ گبر سنگھ کے الفاظ میں اعلان کردیا کہ کوئی گناہ نہیں کیا ،ہم کہتے ہیں کوئی گناہ نہیں کیا۔بڑے وکیل صاحب کی باتیں سن کر ہم ملک کشمیر کے موسموں کا تجزیہ کرنے لگے تو بس ایک ہی موسم نظر آیا ؎
صبح زہر ، دوپہر قہر ہے،شام بھیا نک شب آسیب
اس بستی میں برسوں سے بس ایک ہی موسم ہوتا ہے
راجہ یوسف
(رابط[email protected]/9419009169 )