سرینگر// تحریک حریت نے آزادی پسند لیڈروں اور کارکنوں کو بلاجواز ایک طویل عرصے سے جیلوں میں بند رکھنے کی پُرزور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ سرکار بھارتی حکمرانوں کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے جموں کشمیر کے عوام سے بالعموم اور تحریک آزادی سے وابستہ جوانوں سے بالخصوص انتقام لے رہی ہے۔بیان کے مطابق 2016ء کی عوامی تحریک کے دوران پُرامن اور باوقار تحریک چلانے والے لیڈروں اور کارکنوں کو فرضی الزامات کے تحت گرفتار کرکے وادی سے باہر مختلف جیلوں میں بند رکھا گیااوردوران نظربندی ان لیڈروں اور کارکنوں کو جسمانی اذیتیں تک پہنچائی جارہی ہیں۔ تحریک حریت نے محمد یوسف فلاحی، محمد شعبان خان اور منظور احمد کلو کو سینٹرل جیل سے CIKہمہامہ اور اب مقامی تھانوں شوپیان اور سوپور میں بند رکھنے کو بلاجواز قرار دیتے ہوئے کہا کہ ان کو مسلسل بند رکھنا انتقام گیری ہے۔ اسی طرح دیگر نظربند لیڈروں وکارکنوں، امیرِ حمزہ شاہ، عبدالغنی بٹ، مسرت عالم بٹ، میر حفیظ اللہ، عبدالخالق ریگو، عبدالسبحان وانی، غلام محمد خان سوپوری، محمد یوسف میر، شکیل احمد یتو، عاشق حسین نارچور، محمد امین آہنگر، محمد امین پرے، عبدالمجید پرے، نظیر احمد مانتو، جاوید احمد پھلے، محمد حسین وگے، سجاد احمد بٹ، مفتی عبدالاحد، عبدالمجید لوگری پورہ، ناصر عبداللہ، محمد اشرف ملک، آصف دادا، شکیل احمد بٹ، حاکم الرحمان، بشیر احمد صالح، آصف گل حلوائی، فیاض احمد کمہار، وسیم احمد فراش، سہیل احمد شیخ، توصیف احمد خان، عبدالعزیز گنائی، اعجاز احمد بہرو، نذیر احمد خواجہ، عبدالرشید بٹ، اخلاق احمد شیخ، تجمل الاسلام، تنظیم الدین شاہ، محمد رجب بٹ، غلام حسن شاہ، کلیم اللہ شیخؒ، محمد آصف بٹ جاوید احمد سمیت دوسرے سینکڑوں افراد کی مسلسل نظربندی کا حکومت کے پاس کوئی جواز نہیں ہے۔ بیان مین کہا گیا کہ یہ صرف حکومت کی بوکھلاہٹ اور ناکامی ہے کہ اس نے جموں کشمیر کو ایک جیل خانے میں تبدیل کردیا ہے۔ جہاں صرف پولیس کی حکمرانی ہے اور کسی کو اپنی رائے اور سوچ کے اظہار کی اجازت نہیں ہے۔تحریک حریت نے تمام سیاسی نظربندوں کی رہائی پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وادی کو جیل خانہ میں تبدیل کرنے کے بجائے حکمرانوں کو جموں کشمیر کی موجودہ صورتحال پر سنجیدگی کے ساتھ غور کرکے اس مسئلہ کو اپنے تاریخی پسِ منظر میں حل کرنے کی کوشش کرنی چاہیے۔