جموں //حزب اختلاف کی مداخلت کے بعد سرکار نے سنیچر کو جموں وکشمیر عوامی املاک (نقصان سے تحفظ)ترمیمی بل سلیکٹ کمیٹی کو بھیج دی ہے ۔معلوم رہے کہ ریاستی حکومت نے ایوان میں گذشتہ دونوں اس ترمیمی قانون بل 2018کو متعارف کیا۔اس قانون کا مقصد عوامی (سرکاری)املاک، عمارتوں، ڈھانچوں وغیرہ کو نقصانات وتباہی سے بچانا ہے۔ یہ قانون خاص طور سے کشمیر وادی میںاحتجاجی مظاہروں، ہڑتالوں اور ایجی ٹیشن کے دوران عوامی املاک کو نذر آتش کئے جانے کے پیش نظر لایاگیاہے۔ترمیمی بل کی سیکشن4Aکے مطابق راست ایکشن سے نجی اور سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے والے کو کم سے کم2سال اور زیادہ سے زیادہ تین سال کی سزا اور اس کے علاوہ نقصان کی گئی اراضی کی مارکیٹ قیمت وصول کی جائے گی۔ قیمت نہ چکانے پر چھ ماہ تک کی مزید سزا ہوسکتی ہے۔ سیکشن4Bکے تحت نجی وسرکاری املاک کو نقصان پہنچانے کیلئے بالواسطہ یابلاواسطہ کسی عمل سے اُکسانے والے شخص کو کم سے کم ایک سال اور زیادہ سے زیادہ تین سال کی سزا ہوسکتی ہے ۔ساتھ ہی جس جائیداد کو نقصان پہنچایا ہوگا کی قیمت بھی وصول کی جائے گی۔ اس میں بطور وجہ ثبوت ویڈیو گرافی کو بھی مصدق ماناجائے گا۔ سیکشن 5میں بھی ترمیم کی گئی ہے جس کے مطابق ضمانت کے لئے خاص ضابطہ شامل کیاگیاہے، اس کے مطابق ’جموں وکشمیر عوامی املاک (نقصان سے تحفظ)ترمیمی قانون2018‘کے تحت ملزم یا مجرم قرار دیئے گئے ، شخص کو ضمانت یاذاتی مچلکہ پر رہانہ کیاجائے گا جب تک کہ استغاثہ(Prosecution)کو رہائی کے لئے دی گئی درخواست کی مخالفت کا موقع نہ فراہم کیاجائے۔ اس ایکٹ کے تحت ملزم پر ضابطہ فوجداری(Crpc)1989کی دفعہ497-Bضابطہ کا اطلاق نہیں ہوگا۔ جمعرات کو ریاسی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کی جگہ اس بل کو پارلیمانی امور کے وزیر عبدالرحمن ویری نے ایوان میں پیش کیا ، جس کی پہلی ہی فرصت میں رکن اسمبلی کولگام محمد یوسف تاریگامی نے مخالفت کرتے ہوئے کہاکہ حکومت نے یہ جوقانون لایا ہے ’یہ غیر جمہوری اور سیاہ قانون ہے‘اگر اس کو منظوری دے دی گئی تو اس کے بہت سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔انہوں نے کہا کہ بیرون رایاستوں میں ایسے قوانین لانے سے قبل اُسیعوامی سطح پرزیر بحث لایا جاتا ہے اور لوگوں کی رائے کے بعد پھر اُسے لاگو کیا جاتا ہے ۔انہوں نے کہا کہ اس بل کو واپس لیا جائے ۔نوانگ ریگزن جوراہر نے کہا کہ اس بل کو سیاسی لیڈران اپنے سیاستی مقاصد کیلئے بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ انہوں نے بل کی مخالفت کی اور دیگر لیڈران کی طرح اُس کو سلیکٹ کمیٹی کو بھیجنے کا مطالبہ کیا ۔ ممبر اسمبلی کنگن نے بل کی مخالفت کرتے ہوئے کہا کہ سرکار نے جہاں پہلے کالے قوانین ختم کرنے کی بات کی ہے وہیں اب اُس طرح کے قانون بنا کر پولیس کو اور کام سونپے جا ئیں گے،انہوں نے سرکار سے مطالبہ کیا کہ اُس بل کو پاس کرنے سے قبل اچھی طرح سوچ بچار کریں ۔حکیم محمد یاسین نے کہا کہ کشمیر ایک تجربہ گاہ بن گیا ہے جو بھی تجربے کئے جاتے ہیں وہ کشمیر پر کئے جاتے ہیں۔ انہوں نے بھی بل کی مخالف کی۔ پی ڈی پی رکن محمد یوسف بٹ نے بھی اس بل کی مخالف کرتے ہوئے سرکار سے گزار کی کہ اس بل کو پاس کرنے سے قبل چھان بین اور سوچ بچار کیلئے سلیکٹ کمیٹی کو بھیجی جائے ۔ایوان میں ممبران کی سخت مخالفت اور اُن کے تاثرات سننے کے بعدپارلمانی امور کے وزیر عبدالرحمان ویری نے بل کو سلیکٹ کمیٹی کو بھیجنے کی ہدایت دی جس کے بعد اُسے سلیکٹ کمیٹی کو بھیجا گیا ۔