سائنس و ٹیکنالوجی
ویب ڈیسک
جِلد کے جھلسنے سے گہرے زخم آتے ہیں جو بہت مشکل سے مندمل ہوتے ہیں، اب ایک ایسا پرنٹر نما آلہ تیار کیا گیا ہے جو براہِ راست مصنوعی جلد کو زخموں پر چھاپتا ہے۔ امید افزا بات یہ ہے کہ اس کی دوسری بار جانوروں پر کامیاب آزمائش کی گئی ہے۔ سال 2018ء میں کینیڈا کے ماہرین نے مصنوعی جلد چھاپنے والاایک دستی آلہ پیش کیا تھا جس طرح ٹیپ ڈسپنسر سے فوری طور پر ٹیپ لگائی جاتی ہیں عین اسی طرح یہ آلہ ٹیپ کی جگہ مصنوعی انسانی بافتوں کو جلد پر چپکاتا جاتا ہے۔ گزشتہ ہفتے اسی ٹیم نے مصنوعی جلد کی جانوروں پر آزمائش کی اور اس کے نتائج بہت حوصلہ افزا رہے ہیں۔ خنزیروں پر کیئے گئے تجربات کے بعد سائنسدانوں نے اس کی تفصیل ’بایو فیبریکیشن‘ نامی جرنل میں شائع کرائی جس میں کہا گیا ہے کہ اس کامیابی کے بعد یہ آلہ انسانی علاج کے مزید ایک قدم آگے بڑھا ہے۔فی الحال دنیا بھر میں شدید جھلسے ہوئے مریضوں کے زخم پر انہی کے دیگر حصوں مثلاً ران یا کمر سے کھال کے ٹشو لے کر انہیں لگایا جاتا ہے تاہم اس عمل میں پہلے متاثرہ بافتوں کو صاف کیا جاتا ہے اور پھر زخم صاف کرکے پیوند لگایا جاتا ہے جو دھیرے دھیرے مریض کی جلد کا حصہ بن جاتا ہے۔اس پر کام کرنے والے ماہر ایکسل گوئنٹر نے کہا کہ زخم پر جلد کی گرافٹنگ بعض دفعہ کارآمد نہیں رہتی، کئی دفعہ شدید جلنے کا عمل جلد کی اوپری اور نچلی سطح کو جلا دیتا ہے اور صحت مند جلد استعمال کے لیے بچ ہی نہیں پاتی تاہم کولاجن کے تانے بانوں سے بنی پٹیاں اور پیوند بھی اتنے مفید ثابت نہیں ہوئے ہیں۔کینیڈا میں یونیورسٹی آف ٹورنٹو کے ماہرین کا تیارکردہ یہ نظام ایک طرح کی بایوانک کو مصنوعی جلد کی کترنوں کی صورت میں زخم پر چپکاتا جاتاہے۔ اس بایوانک میں زخم بھرنے والے پروٹین اور میزنکیمل اسٹرومل خلیات شامل ہیں جو جسمانی امنیاتی نظام کو تیز کرکے نئے خلیات کی تیاری میں مدد کرتے ہیں۔حالیہ تجربات میں خنزیروں کے انتہائی گہرے زخموں پر آزمایاگیا ہے اور بہت اچھے نتائج سامنے آئے ہیں۔ادھر سنسناٹی یونیورسٹی کے ماہرین نے ایک چھوٹی سی تجربہ گاہ بنائی جو ایک کارڈ پر سماسکتی ہے اور یہ فوری طور کورونا وائرس، ملیریا اور دیگر امراض کے جراثیم اور وائرس کی پہچان کرسکتاہے۔ اس کارڈ کو کسی بھی اسمارٹ فون سے جوڑ کر لیبارٹری کا نتیجہ ڈسپلے پر دیکھا جاسکتا ہے۔وائرس کی شناخت کے لیے ایک مرتبہ استعمال کے قابل پلاسٹک کا ٹکڑا مریض کو منہ میں رکھنا ہوتا ہے جس پر لعاب جمع ہوتا ہے۔ اس کے بعد اس کی جانچ کے لیے ایک خاص ڈبے میں رکھا جاتا ہے اور یہ نظام فوری طور پر وائرس کی شناخت کرکے اس کی خبر اسمارٹ فون کو دیتا ہے۔حیرت انگیز طور پر یہ ملیریا، کورونا وائرس، ایچ آئی وی، لائم کے مرض اور دیگر کئی امراض کی شناخت کرسکتا ہے۔ لیکن ماہرین کا دعویٰ ہے کہ ان کا بنایا ہوا آلہ ڈپریشن اور ذہنی تناؤ جیسے امراض کی شناخت بھی کرسکتا ہے۔ اس کا نتیجہ ایپ کے ذریعے آپ کے ڈاکٹر کو بھی روانہ کیا جاسکتا ہے۔یونیورسٹی کے ماہر چونگ آہن اور ان کے ساتھیوں نے اسے ملیریا کے لیے کامیابی سے ٹیسٹ کیا ہے تاہم اسے دیگر کئی امراض کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، یہاں تک کہ یہ ذہنی تناؤ والے ہارمون کی کمی بیشی بھی شناخت کرلیتا ہے۔ پروفیسر آہن نے بتایا کہ مرض کی علامات ظاہر ہونے کے کئی گھنٹوں سے لے کر دنوں قبل تک بھی یہ وائرس کی شناخت کرلیتا ہے۔ اس اہم کام کی تفصیلات نیچر کے جرنل برائے مائیکروسسٹم اور نینو انجینئرنگ میں شائع ہوئی ہیں۔کارڈ پر بیماریاں شناخت کرنے والی اس تجربہ گاہ میں لعاب چپک جاتا ہے تو وہ دو باریک چینل میں جاتا ہے اور جہاں منجمد اینٹی باڈیز اور روشنی خارج کرنے والا منجمد مٹیریل شامل کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد تھوک کے دونوں نمونے دوبارہ جمع کرکے تین سینسر تک پہنچتے ہیں۔