بلال فرقانی
سرینگر// جموں و کشمیر میں جل جیون مشن کے تحت دیہی علاقوں کو نل کے ذریعے پانی کی فراہمی کا دعویٰ اگرچہ زور سے کیا جا رہا ہے، لیکن دستیاب سرکاری اعداد و شمار نے کئی سوالات کو جنم دیا ہیں۔جل جیون مشن کی جانب سے6272دیہات میں سے 1293 دیہات کو 100 فیصد نل کنکشن دئیے جانے کے باوجود صرف 830 دیہات ہی سرکاری طور پر’تصدیق شدہ‘ ہیں ،جو کہ کل ہدف کا صرف 64.19 فیصد بنتے ہیں۔ باقی 35 فیصد دیہات ابھی بھی حکومتی معیار پر پورا نہیں اتر تے ہیں، جو تشویش کا باعث ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ 463 دیہات ایسے ہیں جن میں پانی کی فراہمی یا تو مکمل نہیں ہوئی یا تصدیقی عمل مکمل نہ ہونے کے باعث وہ سرکاری ریکارڈ میں شامل نہیں ہو سکے۔جموں ضلع میں 108 دیہات کو مکمل نل کنکشن فراہم کیے گئے، لیکن صرف 30 دیہات کو ہی تصدیق ملی جبکہ پونچھ میں 13 دیہات میں مکمل کنکشن ہونے کے باوجود ایک بھی گاؤں تصدیق شدہ نہیں۔پونچھ، ریاسی، کشتواڑ اور راجوری جیسے اضلاع کی صورتحال خاصی مایوس کن ہے۔ جموں میں 108 میں سے صرف 30 دیہات27.78 تصدیق ہو سکے ہیں، جبکہ پونچھ میں شامل تمام 13 دیہات تاحال غیر تصدیق شدہ ہیں، جو اس ضلع کو فہرست میں سب سے نیچے رکھتے ہے۔
ریاسی میں 67 میں سے صرف 21 دیہات 31 فیصد، کشتواڑ میں 15 میں سے صرف 5 دیہات33.33فیصد، اور راجوری میں 26 میں سے 7 دیہات26.92فیصد کی تصدیق ہوئی ہے، جو منصوبے کی غیر مساوی پیش رفت کو نمایاں کرتا ہے۔سرینگر واحد ضلع ہے جہاں جل جیون مشن کے تحت شامل کئے گئے تمام 16 دیہات کی تصدیق ہو چکی ہے۔اس کے برعکس سرینگر نے بہتر کارکردگی دکھائی، جہاں 16 دیہات میں نل کنکشن دئیے گئے اور تمام 16 کی تصدیق بھی ہو گئی ،بڈگام 95.65فیصد، پلوامہ 86.79فیصد، اور اننت ناگ 84.85 فیصد کے ساتھ نسبتاً بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کر رہے ہیں۔ گاندربل میں 129 میں سے 114 دیہات88فیصد، کولگام، بارہمولہ، اور ڈوڈہ جیسے اضلاع میں بھی تصدیق شدہ دیہات کی شرح بالترتیب81،71، اور 73 فیصد سے زائد رہی ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ محض کنکشن فراہم کر دینا کافی نہیں، جب تک پانی کی سپلائی، معیار، اور استعمال کے تسلسل کی تصدیق نہ ہو۔ جل جیون مشن کا بنیادی مقصد صرف پائپ بچھانا نہیں بلکہ صاف، محفوظ اور مستند پانی کی دستیابی کو یقینی بنانا ہے جس میں کئی اضلاع ابھی بھی پیچھے ہیں۔کئی پنچایت نمائندوں اور دیہی تنظیموں نے الزام لگایا ہے کہ سرکاری دعوے کاغذی حد تک محدود ہیں جبکہ زمینی سطح پر دیہاتیوں کو آج بھی صاف پانی کے حصول کے لیے مشقت اُٹھانا پڑتی ہے۔ مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ منصوبے کے نام پر رقم تو خرچ ہو رہی ہے، مگر شفافیت اور نگرانی کا فقدان اس کے اصل مقصد کو متاثر کر رہا ہے۔