ہم تو عام لوگ ہیں ، خام جنتا ہیںبلکہ بدنام پبلک ہے جو سب جانتی ہے ، پہچانتی زیادہ اور مانتی کم ہے ۔تاڑتی بہت ہے کیونکہ نظر قیامت کی رکھتے ہیں، خبر اندر کی رکھتے ہیں، اور خبر جو باہر پھیلانی ہو اس پر پہلے ذاتی سینسر لگاتے ہیں، دیکھتے ہیں پرکھتے ہیں ۔پہلے ہم نائی کی دوکان پر ، دوکانوں کے تھڑوں پر یا ہریسے کی دیگ کے گرد تشریف رکھکر باتیں سنتے تھے، خبریں سناتے اور بناتے تھے ۔ اب فیس بک کے حوالے یہ سب کام کردیا اور آناًفاناً سونمرگ سے سورسیار، کھنہ بل سے کھادن یار بلکہ بانہال سے راجدھانی پاس تک خبر ارسال کرتے ہیں۔یہ بھی نہیں دیکھتے کہ سرحدوں پر بڑا تنائو ہے ،جنگ سی جاری ہے ۔ہم تو جنگ کی خبر بھی فیس بک سے سناتے اور سنتے ہیں۔اب مرغی اور انڈے کی بات، سیاسی فنڈے کی روداد، سنڈے کے کوفتے ، منڈے کے پیاز کے چھلکے سب فیس بک پر میسر رکھتے ہیں کہ بھائی لوگو سنو اور سر دھنو! ہم نے ماضی میں عمہ میر کی کہانی سنائی اب مجید پڈر کی بات بتاتے ہیں ۔اور جب سناتے ہیں تو چٹخارے لیکر سناتے ہیں، نمک مرچ ملا کر بتاتے ہیں، مصالحے دار بنا کر جتاتے ہیں،خوب تل کر کھلاتے ہیں، اور اس قدر سجاتے ہیں کہ شاہی دسترخوان کا گمان ہوتا ہے۔ ہم کسی کو کچھ بھی کہہ سکتے ہیں کیونکہ یہ جو جنتا ہے سب جانتی ہے۔یہی وجہ ہے ہم دو بندروں کی کہانی سناتے رہتے ہیں جو ایک دوسرے کے آگے محو سفر تھے،جبھی تو پچھلے بندر نے آواز دی کہ تمہارا پچھلا حصہ لال ہے۔ اگلا بندر بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلا تھا کہ واپس جواب دیا بھائی خود پر بھی نظر ڈالو۔یہ تو ایسے ہی کوئی بات چلی در اصل ہم اسمبلی کی روداد یاد کرنے لگے کہ ہل والے ٹویٹر ٹائیگر نے اب کی بار ٹویٹر چڑیا نہیں اڑائی بلکہ سامنے ہی بات کہہ ڈالی اور کنول برداروں کو شیطان کے مترادف قرار دیا جس نے اہل قلم و نا اہل دوات کو اپنے قبضے میں جکڑ رکھا ہے ، پوری طرح اپنے قفس میں قید کیا ہوا ہے بلکہ اس کی سانسوں پر اپنی پکڑ ،جکڑ ،دھکڑ کس لی ہے۔اتنا ہی نہیں اس نے بانوئے کشمیر کو جہنم کی آگ کا خوف دلایا کہ اس میں جل جائو گی۔بانوئے کشمیر نے بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلی ہیں کہ ملک کشمیر کو جنت بنانے کے عوض جہنم میں سینکڑوں بار جلنے کا من بنایا ۔باضابط اعلان کردیا ؎
یہ سیاست نہیں آسان کچھ ایساسمجھ لو
اک آگ کا دریا ہے اور ڈوب کے جانا ہے
وہ تو مفتی ہیں اپنی پسند کا سیاسی فتویٰ جاری کرنا کوئی ان سے سیکھے۔یہ جنت جہنم کا کھیل تو ہل بردار اور قلم بردار کب سے کھیل رہے ہیں اور اس چھینا جھپٹی میں اگر کوئی جل بُن رہا ہے تو وہ اہل کشمیر ہیں۔جب ہل بردار آگے چلتے ہیں تو قلم بردار پیچھے سے آوا ز لگاتے ہیں کہ افسپا ہٹائو اور فوج کو واپس بارکوں میں بھیج دو ، بینر اٹھاتے ہیں کہ طفیل متو، زاہد فاروق وغیرہ کے قاتلوں کو سزا دو ،اور جب قلم بردار آگے چلتے ہیں تو ہل بردار وں کو جہنم کی آگ کی تپش محسوس ہوتی ہے تو چیخ پڑتے ہیں کہ کالا قانون ہٹائو، اس کو سزا دو ، اس کی سر زنش کرو ۔
اور ہم ہیں کہ سوچتے ہیں بھلا بانوئے کشمیر کس جنت کی بات کرتی ہے جس میں وہ اہل کشمیر کے لئے جہنم میں بھی کود جائے اسی لئے تو ہم سوچتے رہتے ہیں ۔
کیا لطف اُنجمن کا جب دل ہی بجھ گیا ہو
کئی لوگ تو پر تول رہے تھے کہ چلو سرکار کی سیاسی نوکری مل ہی جائے گی ۔دفتری کلرکی حاصل نہ ہوئی چلو سیاسی کرسی ہی جھپٹ لیں گے ۔وہ تو چھوٹے سیاستدان ہیں اور بڑے سیاست دانوں کے دلوں میں جوتوں سمیت اترنے کی سعی کر رہے تھے لیکن ان کی اُمیدوں پر گرم گرم بلکہ کھولتا ہواپانی پھر گیا ۔کیونکہ پنچ سرپنچ چننے کی جو باری آئی تو اہل سیاست میں ٹھن گئی کہ حالات موزون ہیں یا نہیں۔وہ تو ارباب اقتدار ہیں انہیں اندھا دھند فائرنگ میں جان بحق ہونے والوں کی کیا پریشانی، مگر خود انہیں جو باہر نکل کر گھومنا ہے تو پسینے چھوٹے کہ ملک کشمیر کا جو بھی حال بنے خود ان کا اپنا مستقبل سنورنا چاہئے۔اس لئے ہل، ہتھوڑے، قلم برداروں کو ڈرا ڈرا سہما سہما پایا لیکن کنول بردار تو ناراض ناراض دکھتے ہیں کہ وہ اپنے پنچ سرپنچ چن لیں تو ان کے کنول کی آبیاری ہو۔ادھر ہل والے قائد ثانی کو بھی حالات پنچایت الیکشن کے لئے موزون نہیں دکھتے بلکہ وہ تو کہتے ہیں کہ ملک کشمیر کی عمومی صورت حال بگڑی ہوئی ہے۔شاید اس لئے بھی خود اس کے اپنے حالات سرینگر بڈگام پارلیمانی نشست سے خوب سنور گئے ۔مانا کہ اس دوران کئی اللہ کو پیارے ہوئے،کئی زخمی ہوئے اور بچارا رفوگر فاروق ڈار شاہی فوجداروں کے بکتر بند گاڑی کی ناک پر ہاتھ پیر بندھا بزبان حال بتارہاتھا کشمیر پابہ زنجیر ہے ، غم والم کی تصویر ہے ، افسپا کی جاگیر ہے ، بے گناہ بے تقصیر ہے ،خون آلودہ خواب کی تعبیر ہے ،اُلٹی ہر تدبیر ہے ،لکیر کا فقیر ہے ،اغیار کا اسیر ہے ، قلم کے ہاتھوں دلگیر ہے ، کنول کے زیر شمشیر ہے ، ظلم کی تشہیر ہے ، ستم کی تعمیر ہے، کہیں آسیہ نیلوفر کہیں آصفہ کی تصویر ہے ، نہ اپنی تحریر نہ اپنی تقریر ہے ۔ اس کہانی پر سیاست کاتڑکہ بھی دیکھئے کیا لگا ،جس ویر بہادرکوتوال گگوئی نے فاروق کو گاؤں گاؤں گھمایا ، خلق ِخدا کو ڈرایا، زمین وآسمان کو رُلایا ، انسانی حقوق کوشرمایا ۔ اس کی دیش بھکتی، بہادری ، حاضر دماغی شہرت بامِ عروج پر پہنچی اور فاروق کے حصے میں آئی ایک تلخ کہانی ، ایک مایوسی،ایک بے بسی ۔ خیر جان کی اَمان پاؤں تو ویر بہادروں سے عرض ہے: سلطنت ِافسپا کے خداؤ! بیروہ کے فاروق ڈار کو تم دن میں تارے دکھا ؤ یا گنو پورہ شوپیان کے پانچ جوانوں کو کچا چباؤ مر ضی تمہاری ، جو چاہے تم کر بیٹھو ، سیلف ڈیفنس کی ڈھال بھی سیلف رُول کی چال بھی تمہارے قدموں پر نچھاور، تم بب کی ابابیلیں ہو سارا جہاں تمہارا، قانون تمہارا، تالیاں شاباشیاں، ترقیاں تمغے، ترقیاں سب تمہاری چشم براہ۔ ہاں! یادآیا اپنے بشری حقوق کے بے دانت بے دُم ادارے نے فاروق کے حق میں معاوضہ منظور کرنے کی ہلکی سی سفارش کی تو اس پر سرکار ِقلم دوات نے کہا معاف کیجئے ۔ اس بچاری سرکار کے اپنے ہاتھ پاؤں کرسی کے رَسے سے دلی دربار نے اس سختی کے ساتھ بندھے ہیں کہ اس کی زبان گنگ ،کان بہرے اور آنکھیں اندھی ہیں ۔ ویسے بھی یہاں تھوڑی ہی سرکار کی چلتی ہے جوفاروق کی لاٹری لگ جائے ، یہاں توافسپا کی خدائیت میں کار سرکار بحقِ وردی پوشاں محفوظ ہے ، انہی کا راج تاج ہے ،ا نہی کا بینڈباجا ہے۔
فوجی اپنا شیرا ہے
باقی ایرا غیرا ہے
کشمیری حکمران بیچارہ
وہ تو نتھو خیرا ہے
یہ فوجی اتنا بڑا شیرا ہے کہ اس کے دفاع میں کنول بردار میدان میں اتر آتے ہیں کہ ان کے خلاف ایف آئی آر بھی مرتب نہ کرو ۔ارے واہ جیسے ماضی کے کئی ایف آئی آر میں وردی پوشوں کو سزا ہوئی ، جیسے ان سے پوچھ تاچھ ہوئی ، جیسے کسی نے ان کا بال بانکا کردیا ، جیسے ان کی زندگی میں ارتعاش پیدا کیا گیا ، جیسے ان کا حقہ پانی بند ہوا ، جیسے ان کی طرف کسی نے آنکھ اٹھا کر دیکھا ۔پھر بھلا نرمل کا من کیوں کومل ہوگیا کہ مخلوط سرکار اپنی جگہ لیکن فوجی اپنی جگہ، بلکہ اپنی اونچی منڈیر پر!
کہیں کنول بردار کی دوستی فوجی سے زیادہ مضبوط نہ ہوجائے بانوئے کشمیر بھی افسپا کی حمایت میں فوجی بھائیوں کا پروگرام لیکر میدان اسمبلی میں دوڑ پڑی کہ آپ تو قلم دوات برداروں کے بھی شیر ہو ۔بھلے ہی کتنے اہل کشمیر آ پ کے ہاتھوں ڈھیر ہوں لیکن آپ ہی تو سوا سیر ہو۔
ادھر ملک کشمیر میں کنول بردار فوجی شیروں کی طرف سے عام لوگوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں جھگڑ رہے ہیں البتہ سینہ تان کر ان کی مدد کے لئے سرحد اور حد متارکہ پر نہیں جاتے کیونکہ وہاں سے گولی کا خطرہ ہے ، جان پر بنی ہے اور ادھر مسلم خواتین کے معاملے میں طلاق ثلاثہ پر گلی گلی میں شور اٹھائے پھر رہے ہیں۔مانا کہ خود باجپا لیڈران کی بیویوں کی کوئی فکر نہیں لیکن سہ طلاق خوب ستا رہا ہے۔مگر یہ عام جنتا بھی کوئی اتنی بے حس نہیں کہ راجھستان میں الور کیا، اجمیر کیا، مندل گڈھ میں بھی ووٹروں نے کنول برادری کو سہ طلاق دے ہی دیا۔اور وہ جو باجپا امیدوار نے کہا تھاکہ مسلمان کانگریس کو اور ہندو باجپا کو ووٹ دیں، ۶۰ فی صد ووٹ کانگریس کو ملے۔ہندو اکثریت مسلم روپ دھار کر کنول بردار کو ککڑی ہاتھ میں تھما گئی جو خشک ہے اور جس میں کوئی خوشبو نہیں ؎
فنڈ کٹ کی یہ سرکار
نہیں چلے گی اب کی بار
مذہبی عناد کے ساہو کار
نہیں چلیں گے اب کی بار
ویسے تو ہمیں واشنگ مشین میں گھولا ہوا یا پلاسٹک سے تیار شدہ دودھ پلایا جاتا ہے لیکن آر ایس ایس پرچارک شنکر لال کو شکایت ہے اور اس کا کہنا ہے کہ بھینس اور جرسی گاے کا دودھ پینے سے کرایم بڑھتا ہے۔ان کا دودھ پینا بند کرو تو کرایم ختم ہوگا۔ مطلب صاف ہے کہ عام جنتا تو پلاسٹک دودھ پیتی ہے مگر سنگھ پریوار کے لوگ بھینس و جرسی دودھ پیتے ہیں جبھی تو اخلاق، پہلو، جنید، روہت وغیرہ کے خلاف کرایم کر بیٹھتے ہیں ۔ یہ تو پرچارک کی بات ہے لیکن پردھان سیوک کا کہنا ہے کہ اسکل انڈیا Skill Indiaرائج کردوں گا۔ میک ان انڈیاMake in India کے لئے دنیا بھر کا دورہ کرتا ہوں۔کون جانے کرایم انڈیا یا دودھ انڈیا کے لئے بھی سنگھ پریوار کے پاس منصوبے ہوں جو وہ مسلم اور دلتوں کو دبانے کے لئے کئی سال سے اپنا رہے ہیں۔ہو نہ ہو اگلے الیکشن کے آس پاس جمپ ان انڈیاJump in India یا ڈانس ان انڈیاDance in India کا ماڈرن طریقہ سامنے لایا جائے۔ملک ملک گھومنے سے کچھ حاصل نہ ہوا ۔لوگوں کو نوکریاں نہ دلا سکے تو مشورہ دیا کہ کہیں پکوڑے بیچ کر کمائی کرو یہ بھی تو کمانے کا ذریعہ ہے۔مطلب سوچ چائے پکوڑے سے اوپر نہ اٹھ پائی اور کون جانے پکوڑا یوجنا سرکار کا نیا منصوبہ ہے۔اب تو الیکشن کے لئے رام مندر ہی بچا ہے جس کے قریب جمپ ان انڈیا کی اچھل کود ہوگی، ڈانس ان انڈیا والا تگنی کا ناچ ہوگا ، چاے پکوڑے کے ساتھ زوردار ہوَن ہوگا۔ کہ رام جی بھلی کرو تیرے ہی سہارے یہ کرسی بچ سکتی ہے ؎
میرے پاس دو ہی راستے تھے کرسی ہتھیانے کے
ایک مسلم کا خون ہے ایک دَلت کی جوانی تھی
چلو رام مندر کی تعمیرسے لیں گے اب یہ کام
ہمیں تو ہر حال میں بس کرسی سجانی تھی
(رابط[email protected]/9419009169 )