توجہ طلب
سیدہ ایمن عبد الستار
آج کے دور میں جب علم و فن کی ترقی نے انسان کو زمین سے آسمان تک رسائی دے دی ہے، ایسے میں کچھ ایسے رجحانات بھی جنم لے رہے ہیں جو بظاہر فن اور ترقی کے نام پر ہیں مگر حقیقت میں روحانی و اخلاقی زوال کا دروازہ کھول رہے ہیں۔ ان میں سے ایک تازہ رجحان اپنی ہی شکل کو مجسمہ یا 3D اسٹیچو میں ڈھالنے کا ہے۔ Gemini AI جیسے جدید ٹولز نے اس عمل کو عام اور آسان بنا دیا ہے، لیکن اس کے اثرات پر سنجیدگی سے غور کرنا ضروری ہے۔
یہی وہ عمل ہے جسے حضرت ابراہیمؑ نے توڑا تھا اور جس کے خلاف حضرت محمد ؐ نے جہاد فرمایا۔ اسلام نے انسان کو اللہ کی بندگی سکھائی نہ کہ اپنے نفس کی یا اپنی تخلیقات کی پرستش۔ مگر آج مسلمان اپنی ہی صورت کو فن کے نام پر مجسمہ بنا کر اس حد تک بڑھا رہے ہیں کہ فن ایمان پر غالب آ رہا ہے اور ایمان فن کے تابع ہو گیا ہے۔
ہمارے نوجوان ہی جب نفس کی پرستش میں لگ جائیں تو امت اندھیروں میں ڈوب جاتی ہے۔ اپنے چہرے کو مجسمہ بنانے سے پہلے اپنے دل کو اللہ کے نور سے روشن کریں۔ فن کو ایمان کے تابع رکھیں نہ کہ ایمان کو فن کے تابع کریں۔ یہ وقت ہے جاگنے، سمجھنے اور روکنے کا، ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم خود اپنے بنائے ہوئے ’’بت‘‘ کے سامنے سجدہ کرتے نظر آئیں۔شرک اور بت پرستی کا سدّباب خصوصاً جاندار چیزوں کی تصویر یا مجسمہ کے بارے میں جو پابندی آئی ہے، اس کی کئی حکمتیں اور وجوہات ہیں۔اسلام نے سب سے پہلے توحید پر زور دیا اور شرک کی ہر شکل سے بچنے کی تعلیم دی۔ تاریخ یہ بتاتی ہے کہ بت پرستی اکثر تصویروں اور مجسموں سے شروع ہوئی۔ پہلے لوگ یادگار یا احترام کے لیے تصویر یا مجسمہ بناتے تھے، پھر آہستہ آہستہ ان کو تقدس دیا جانے لگا اور آخرکار عبادت شروع ہوگئی۔
عقیدے کی حفاظت لازم ہے ،اسلام چاہتا ہے کہ انسان کی توجہ صرف اللہ کی طرف رہے، کسی واسطے، شکل یا مجسمے کی طرف نہ ہو۔ تصویریں اور مجسمے لاشعوری طور پر شخصیت پرستی پیدا کرتے ہیں جو توحید کے منافی ہے۔ تکبر اور اَنا کی روک تھام ضروری ہے جب انسان اپنی ہی یا دوسروں کی تصویریں اور مجسمے بنا کر انہیں نمایاں کرتا ہے تو اس میں ’’انا پرستی‘‘ اور ’’خودنمائی‘‘ کا پہلو پیدا ہوتا ہے۔ اسلام چاہتا ہے کہ انسان عاجزی اختیار کرے نہ کہ اپنی یا کسی اور کی ذات کو حد سے زیادہ بڑھائے۔
روحانی ماحول کی صفائی درکار ہے، اسلام کا نظامِ عبادت سادہ ہے، مسجدیں سادہ ہوتی ہیں، تاکہ دل اور دماغ کا تعلق صرف اللہ سے قائم رہے نہ کہ کسی تصویری یا مجسماتی مظاہرے سے تعلق رہے۔ اسی لئے رسول اللہ ؐ نے مسجدوں میں تصویریں یا مجسمے رکھنے سے سختی سے منع کیا۔اسلام میں تصویریں ’’بالکل حرام‘‘ نہیں ہیں بلکہ جاندار چیزوں کی تصاویر اور مجسمے عبادت یا تقدس کے لیے بنانا سخت ممنوع ہے۔ غیر جاندار چیزوں (پہاڑ، درخت، سمندر وغیرہ) یا تعلیمی/معاشرتی ضرورت (شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ڈاکیومینٹ) کے لیے تصویر لینا جائز ہے۔اسلام میںتصویر پر پابندی کا مقصد ’’فن کو ختم کرنا نہیں‘‘ بلکہ ’’عقیدے کی حفاظت‘‘،’’شرک کا سدّباب‘‘،’’انسان کے روحانی ماحول کو صاف رکھنا‘‘ ہے۔ فن اور جمالیات اسلام کے خلاف نہیں، لیکن جب فن شرک، انا پرستی یا نفس کی پرستش کی طرف لے جائے تو وہ منع ہو جاتا ہے۔
فن کی آڑ میں شرک کا دروازہ : جب انسان اپنی ہی تصویر کو جسمانی شکل میں دیکھتا ہے، محفوظ کرتا ہے اور دوسروں کو دکھاتا ہے تو یہ صرف ایک تصویر نہیں رہتی بلکہ ایک نئی شناخت بن جاتی ہے۔ یہ لاشعوری طور پر انسان کو اپنی ذات کو مرکزِ توجہ بنانے پر اُبھارتی ہے۔ یہی تو نفس کی خاموش پرستش ہے جس سے ایمان کا چراغ بجھنے لگتا ہے اور فن کی آڑ میں شرک کے در کھل جاتے ہیں۔یہ روش کیوں خطرناک ہے؟
اپنی ذات کو مرکزِ توجہ بنانا انسان کو اللہ کی بندگی سے ہٹا کر نفس کی بندگی کی طرف لے جاتا ہے۔یہ عمل انسان کو ’’خدا کی مخلوق‘‘ سمجھنے کے بجائے ’’خود ساختہ فن پارہ‘‘ سمجھنے پر مجبور کرتا ہے۔ فرد کے اندر غرور اور تکبر کو جنم دیتا ہے جو اخلاقی و سماجی زوال کا سبب بنتا ہے۔
علم کی روشنی پھیلائیں اور نوجوانوں کو سمجھائیں کہ یہ صرف فن نہیں بلکہ ایمان کی آزمائش ہے۔ روحانی بیداری پیدا کریں۔ اللہ کی دی ہوئی صورت کو مجسمہ میں بدلنا اس کی نعمت کی توہین ہے۔ ہر شخص خود احتسابی کرے کہ کیا ہم واقعی اپنی تصویر کو دیکھ کر خوش ہیں یا اپنے نفس کی پرستش کر رہے ہیں؟ علماء اور اساتذہ بھی اس روش کو روکنے کا کردار ادا کریں، نہ کہ خاموش تماشائی بنیں۔آج ضرورت ہے کہ ہم اپنی سمت درست کریں۔ فن بذاتِ خود ممنوع نہیں، مگر جب فن ایمان کی حدود کو توڑ کر نفس کو مرکزِ توجہ بنا لے تو وہی فن ’’بت‘‘ بن جاتا ہے۔ ہمیں وہی بننا ہے جو قرآن نے کہا ہے: ’’چراغِ ہدایت‘‘۔ اپنی ذات کی پرستش نہیں اللہ کی بندگی کرنی ہے تاکہ ایمان کا چراغ روشن رہے اور امت
اندھیروں سے نکل کر نور کی طرف آ سکے۔
[email protected]